سرینگر //وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی نے ویٹرنری ڈاکٹروں اور سکاسٹ کے سائنسدانوں سے کہا کہ وہ ریاست میں مویشیوں کے رکھ رکھائو میں بہتری لانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کریں تاکہ ریاست جموں وکشمیر گوشت اور مرغ کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کر سکے اور اس سیکٹر میں درآمدات کو کافی حد تک کم کیا جاسکے۔سکاسٹ کے میں آج ’’ لائیو سٹاک منیجمنٹ اینڈ پروڈکشن ‘‘ کے موضوع پر منعقد ہ ایک قومی سمپوزیم کا افتتاح کرنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ریاست میں پشو پالن شعبہ اقتصادیات کے ایک آزادانہ سیکٹر کے طور پر سامنے ابھر کر نہیں آیا ہے بلکہ اس سے ہمیشہ زراعت اور باغبانی سیکٹروں سے منسلک سرگرمی تصور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مویشیوں کے سیکٹر کو سائنسی طرزِ طریقے پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سیکٹر میں دیہی اقتصادی منظرنامے میں مثبت تبدیلی لانے کے کافی وسائل موجود ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ریاست کو ہر برس کروڑوں روپے مالیت کا گوشت اور مرغ باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے اور اگر پالیسی ، تحقیق اور عمل آوری کی سطح پر بار آور اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس رقم کو بچایا جاسکتا ہے اور کافی تعداد میں نوجوانوں کو فائدہ بخش روزگار حاصل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں مختلف اقسام کے مویشی پالنے کیلئے موزون آب و ہوا اور جغرافیائی حالات موجود ہیں ۔انہوںنے سائنسدانوں اور ماہرین کو ہدایت دی کہ وہ ایسی تدابیر وضع کریں کہ جن کی بدولت ان وسائل کو بہتر طریقے پر بروئے کار لا کر مویشیوں کے سیکٹر کو بڑھاوا دیا جاسکتا ہے۔ وزیرا علیٰ نے کہا کہ تحقیق دانوں اور تحقیق عملانے والوں کو مجموعی طور پر کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ اس سیکٹر کو دوام حاصل ہوسکے اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ پیدا وار میں بھی اضافہ ہوسکے۔انہوںنے کہا کہ ریاست کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ پہلے ہی مویشی پالن کے شعبے سے جڑا ہوا ہے اور اس سیکٹر سے ریاست کے گھریلو پیداوار میں 11فیصد کا اضافہ ہوتا ہے ۔