وزیراعظم نریندر مودی نے 2014 کے الیکشن مہم سے ذرا قبل اور وزیراعظم بن جانے کے بعد تین ساڑھے تین برسوں تک اپنی سوشل میڈیا کی ٹیم کو اس کام پر مامور کر دیاتھا کہ راہل گاندھی کو "پپو" کہا کرو کہ وہ خود بھی اپنا نام بھول جائیں۔ پتہ نہیں کہ راہل اپنا نام بھولے کہ نہیں لیکن بھکتوں کے درمیان تو وہ آج بھی ’’پپو‘‘ ہیں۔ اس کے علاوہ اس تنابز وبدزبانی کا اثر یہ ہوا کہ ان کے چاہنے والے کچھ پارٹی کے سنیئر لیڈران تک اس فریب میں مبتلا ہو گئے بلکہ ہندوستان بھر میں یہ تاثر گیا کہ راہل حقیقت میں کہیں پپو تو نہیں۔ اس سے پہلے بھی گجرات اسمبلی الیکشن کے دوران مودی جی نے ایک ریلی میں کہا تھا کہ ’’راہل گاندھی ان کا ڈرائیور بھی بننے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔پلاننگ اسی وقت سے شروع ہو گئی تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ اگر کوئی مقابلے کا ہے تو یہی گاندھی ہے۔ اس لئے ان کی اتنی کردار کشی کرو اور بسااوقات اپنے بیانات سے اسے اتنا تنگ کرو کہ یہ سیاست کا میدان ہی چھوڑ دیں اور پھر ہم 50 برسوں تک بلا روک ٹوک حکومت کریں اور یہ پھینکیں کہ کانگریس نے اگر 60؍ برس حکومت کی تو ہم بھی ( ان کے حساب سے ہندتوا حکومت یعنی آرایس ایس بوساطت بھاجپا حکومت )نے ہاف سنچری ماری ، سو حساب برابر۔
راہل کے میدان چھوڑنے کا نتیجہ کیا ہوتا، یہ سب کو پتہ ہے کہ کانگریس بکھر جاتی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سندھیا سمارٹ ہے، پائلٹ لائق و باصلاحیت ہے، ان میں سے کسی ایک کو کانگریس کاصدر بنا دینا چاہئے تو وہ غلطی پر ہیں۔ ان دونوں کو صدر کی حیثیت سے مجازی طور پر دیکھیں اور پھر غور کریں، سمجھ میں ساری باتیں آ جائیں گی۔ ایک دن بھی کانگریس نہیں چلے گی کیونکہ کانگریس کا اپنا ایک کلچر ہے، جس طرح ہر پارٹی کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ یکساں نہیں ہوتا۔ جو لوگ کانگریس کو خاندانی وراثت کا طعنہ دیتے ہیں وہ جان لیں کہ امت شاہ بھی کوئی منتخب بی جے پی صدر نہیں ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیوں میں داخلی انتخاب بھی ہوتا ہے تو وہ صرف خانہ پری ہوتی ہے، سوائے بائیں بازو کی پارٹیوں کے۔ اس لئے کانگریس کی بقا ء اور فائدہ کے لئے گاندھی فیملی کی سربراہی ضروری ہے۔انہوں نے تمام کوشش کر لی لیکن کانگریس کا ایک بھی بڑا لیڈر منحرف نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا ( پارٹی کلچرکے عین مطابق)۔ اور حالات تو ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ کانگریس کے علاوہ کوئی اورہندوستان کی حکومت چلا ہی نہیں سکتا۔ موجودہ حکومت کے خیر سے چلے جانے کے بعد کہیں یہ کلیہ نہ بن جائے۔ راہل گاندھی کو فرضی طور پر’’ پپو‘‘ بنا کراپنی دانست میں مودی اینڈ کمپنی نے اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ جھوٹ اوربے ہودہ کلامی کا پٹارہ زیادہ دنوں تک نہیں چلتا۔ راہل چونکہ کبھی ’’پپو‘‘ تھے ہی نہیں، موقع ملتے ہی انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔
یاد کریں کہ گجرات کے اسمبلی الیکشن سے قبل راہل امریکہ گئے اور وہاں کے مختلف اداروں میں سوالات و جوابات کے سیشن کو بحسن و خوبی نبھایا، تب جاکر ان کی ایک الگ شبیہ ٹھوس انداز میں اُبھری اور مخالفین بھی یہ ماننے کو تیار ہو گئے کہ کچھ تو ہے اس ’’پپو‘‘ میں۔اگرچہ وہ الیکشن جیت بھی نہ سکے لیکن تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ وہ ہارے بھی نہیں اور مودی اینڈ کمپنی کو کئی بار ناکوں چنے بھی چبوائے۔ وہیں سے راہل کا ایک الگ انداز شروع ہوا جس کے اپنے تو اپنے غیر بھی قائل ہوئے اور ہندوستان میں مودی کے مقابلے صرف اور صرف راہل کی بات ہونے لگی ،جو اب بھی شدومد سے جاری ہے۔ اب گردش زِ زمانہ ددیکھئے کہ جس مودی نے مسلمانانہ ٹوپی پہننے سے انکار کر دیا تھا، وہی اب مسلمانوں کی مسجد میں حاضری دے رہے ہیں اور ٹوپی بھی پہن ر ہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بادی النظر میں وہ مسلمانوں کے ایک خاص فرقے کو ٹوپی پہنانے کی کوشش بھی کر رہا ہو لیکن مجموعی طور پر جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ راہل گاندھی نے ہی انہیں مجبور کیا کہ وہ مسجد جائیں اور ٹوپی بھی پہنیں کیونکہ ’’پپو‘‘ مانسروور یاترا کے علاوہ مندر مندر جو گھومنے لگے ہیں اور خود کو شیو کا بھکت بتاتے ہیں۔ یہ راہل کی بہت بڑی کامیابی ہے، ممکن ہے کہ اسے اس کا فائدہ بھی ملے۔
اب آرایس ایس سربراہ موہن راؤ بھاگوت کی بات کرتے ہیں کہ راتوں رات ایسا کیا ہو گیا کہ گنگا الٹی بہنے لگی۔ 3 روز کے کنونشن میں بڑی بڑی باتیں لیک سے ہٹ کر کہی گئیں۔ آرایس ایس سربراہ سے ایسی خوش گفتاری کی توقع تو بالکل نہیں تھی۔ اس لئے یقین کرنے کو دل نہیں کرتا۔ بھاگوت جی یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بغیر ہندو راشٹرمتصور ہی نہیں۔ ملک کے آئین پر مکمل یقین کی بات بھی انہوں نے کی جب کہ آرایس ایس کی بنیاد اسی نکتے پر ہے کہ ملک کا آئین ہندوؤں کی تہذیب سے میل نہیں کھاتا اور اس میں بڑی اور وسیع تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اکھنڈ بھارت آرایس ایس کا جز ہے لیکن بھاگوت جی اب سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کر رہے ہیں. ایسی خبر بھی آئی کہ انہوں تمام پارٹیوں کے لیڈروں کو مدعو کیا تھا اور وہ چاہتے ہیں کہ ڈائیلاگ ہو… ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
خیر میری رائے میں آر ایس ایس کا یہ بدلا ہوا سُر کچھ اور نہیں بلکہ ’’پپو اِفیکٹ ‘‘ہے۔ اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں: پہلی یہ کہ بھاگوت جی کا اپنا نیٹ ورک ہے۔ میری مراد آرایس ایس سے ہے۔ انہیں اس بات کا کہیں اندازہ ہو گیا ہو کہ مودی جی اب دوبارہ نہیں آئیں گے اور ممکن ہے کہ 2019 میں کانگریس کی سربراہی میں اپوزیشن کی حکومت قائم ہو۔ دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کہیں آرایس ایس پر پابندی نہ لگا دی جائے۔ یہ سب سوچ کر دل ڈوبتا جا رہا ہے اور آگے کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے تاکہ اپنی تنظیم کو بچایا جا سکے۔
اب یہ پپو اِفیکٹ یوں ہے کہ چند دنوں پہلے ہی راہل گاندھی برطانیہ کے دورے پر گئے تھے اور وہاں کے چند شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کے ساتھ سیشن کیا تھا اور بلا خوف وخطر اور تردد وتذبذب تمام سوالات کے جواب دئے تھے۔ انہوں نے اُس کالج میں بھی انٹر ایکٹ کیا تھا جہاں کے وہ فارغ تھے اور غالباً وہیں پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے آرایس ایس کا موازنہ مصر کے "اخوان المسلمین" سے کیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، آرایس ایس میں منتھن شروع ہو گیا۔ آرایس ایس یا بی جے پی والوں کو پتہ ہے کہ راہل معمولی شخص کا نام نہیں ہے۔ وہ اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی اہمیت ہے۔ قومی میڈیا کو ٹہلا سکتے ہیں لیکن بین الاقوامی میڈیا کا کیا۔ چونکہ قومی میڈیا کے بیشتر چینل راہل کو’’ پپو ‘‘ثابت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن باہری چینل تو جانب داری نہیں برتیں گے۔ یہاں کے چینل راہل کو کوریج بھی کم دیتے ہیں یا نہیں دیتے ہیں لیکن باہری چینل تو ایک ایک بات بتائیں گے۔ ا س لئے بھاگوت جی کو بہت جلد یہ سیشن بلانا پڑا تاکہ صفائی پیش کر سکیں۔ ابھی جون ہی میں تو پرنب مکھرجی کو ناگپور بلایا تھا اورآرایس ایس اپنی شبیہ تو پاک نہیں کر سکا تھا، البتہ مکھرجی صاحب کی شبیہ ضرور داغ دار ہو گئی۔
اسی لئے حد درجہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جو قول ہو وہی فعل بھی ہو قطعی ضروری نہیں اور ان سے تو بالکل بھی نہیں۔ دیکھئے! بھاگوت جی نے اور باتوں کے ساتھ لِنچنگ کی بھی مذمت کی تھی اور قانون کی بالادستی کی دہائی دی تھی اور کل ہی دہلی میں ایک کتاب کی اجرائی تقریب میں امیت شاہ کے ساتھ اسٹیج پر نظر آئے اور وہاں وہی باتیں ہوئیں جو ان کا مشترکہ غم ہے۔ اگرچہ راجناتھ سنگھ بھی وہاں موجود تھے لیکن دو مشترک تضادات کے درمیان اُن کی کیا حیثیت؟ مودی جی کے اندور والے بوہری مسجد کے دورے اور سوا گھنٹے کی تقریر اور آؤ بھاؤ پر طرح طرح کی باتیں ہوئیں۔ اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بھاگوت جی کی رائے کو بھی سنجیدگی سے نہ لیا جائے کیونکہ افراد، تنظیموں اور قوموں کی سائیکی شاید بدلتی نہیں ہے. اس سائیکی کو" فطرت" بھی کہہ سکتے ہیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883