سیّد ابو زاویاؔن
معاصرسیاستدانوں کی بیشتر تعداد حصارِ ذات سے باہر آنے کی متحمل نہیں ہوتی ۔ ان کے اردگرد ایسے مخصوص افراد منڈھلاتے رہتے ہیں جن کا دائرہ کار ‘ا نجمن ستائش باہمی سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں تو سیاستدان عوام الناس کو اپنے نصب العین اور منشور کی انفرادیت یا جامعیت کے بجائے اپنے مخالفین کی نجی زندگیوں کے کچّے چھٹے کے تذکروں سے متاثر کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اس ہنگامہ خیز صورت حال میں مقرررین کی جادو بیانی کا معیار فصاحت و بلاغت یا عوامی مسائل کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ حزب ِمخالف کے تئیں کلامِ کثیف پر ہوتا ہے۔ جو جس قدر دشنام آمیزی میں ید ِطولیٰ رکھتا ہو، اُس قدر بڑا مقّرر اور سیاستدان شمار ہوتا ہے۔ تاہم اس منفی روایت کو توڑتے ہوئے بزرگ سیاستدان پروفیسر سیف الدین سوزؔ نے مفکرِکشمیر کی سیاسی خدمات پر دو سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دے کر نہایت ہی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔’’مولانا محمد سعید مسعودی کشمیری‘‘ نامی یہ کتاب مرحوم کے بعض قلمبند بیانات، تقاریر اور ان کے تعلق سے بعض مقالات و تاثرات پر مشتمل ہے۔ مولانا مرحوم کے تذکرے سے تحریک حریت کشمیر کا شاید ہی کوئی گوشہ خالی ہو لیکن ان کی سیاسی خدمات اور تاریخی تحریرات پر یہ پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ وادی کے گذشتہ تین دھائیوں کے حالات تصادم و محاز آرائی سے عبارت ہیں اور ایسے میں صحافتی برادری بھی شدید چلینجز سے دو چار ہوئی۔ گو کہ اداراتی اور غیر ریاستی قوتوں کے احکامات کی خلاف ورزی کا ارتکاب بظاہر مشکل تھا لیکن صحافت کا مقصدِ اولین محض اخبار نویسی ہی نہیں بلکہ تاثراتی تحقیق بھی ہے ۔ کچھ تو متاع لوح و قلم چھن گئی اور کچھ ہم نے خود بھی حق گوئی پر تالے چڑھا لئے۔ لیکن تاریخ میں ایسے ا ثتسنائی کردار بھی ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتے ہیں اور جو با دِمخالف کے باوجود جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور ‘قولاً سدیدا ‘کے حامل ٹھہرتے ہیں۔ فی الوقت یہ سہرا پروفیسر سیف الدین سوؔزکو جاتا ہے جنہوں نے مولانا کی تاریخی تحریرات و بیانات کو کتابی شکل دے کر تحریک حریت کشمیر کے نایاب اور فیصلہ کن واقعات کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا ہے ۔
یہ ایک عمومی تاثر ہےکہ مولانا مرحوم اپنی ذات کے حوالے سے گفتگو سے گریز کرتے اور اپنے خلاف بیان بازی اور الزام تراشی کا دفاع کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے تھے ۔ بعض حضرات ان کی اس کسر ِنفسی کو پر اسرار اور معنی خیز خاموشی قراد دے کر ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑاتے اور من پسند تاویلات کی ایسی گرہیں باندھنے میں لگ جاتے جن کو کھولنا خود ان کے لئے دشوار ہوجاتا تھا ۔ مولانا مسعودی کے تضرّع و انکسار کا یہی مخصوص انداز انہیں ان تمام معاصر سیاستدانوں سے ممّیز و ممتاز کرتا ہے، جو اپنے وجود کے قیام ودوام کے لئے نظریاتی مخالف کا قافیہ حیات تنگ کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے سیاسی منظر نامے میں ان روایات پر ابھی بھی بغیر ناغہ عمل ہو رہا ہے ۔ بلکہ اپنے یہاں بساط ِسیاست کا سارا دارو مدار ہی حزب ِ مخالف کے جائز و ناجائز تذکروں پہ موقوف ہے جو بسا اوقات بغض و عناد پر منتہج ہوتا ہے۔ حصار ِذات اور انتسابِ ذاتی کی اس سیاسی تاریخ میں اگر کوئی دو اشخاص منفرد نظر آتے ہیں تو وہ یقیناً مولانا محمد سعید مسعودی اور پروفیسر سیف الدین سوؔز ہیں ۔ اگر چہ زیر تذکرہ کتاب تصنیف سے زیادہ تالیف ہے، لیکن یہ تاریخی اور علمی لحاظ سے زبردست اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کے سرورق پر سوؔز صاحب کا یہ جملہ انتہائی اہم ہےکہ 14 اکتوبر 1946ءکو سٹی مجسٹریت سری نگر کی عدالت میں مولانا مسعودی کا تحریری بیان کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک باب ِدرخشاں ہے۔ 95 صفحات پر مشتمل اس بیان میں جس انداز سے مولانا نے جموں کشمیر کے گذشتہ 360 سالہ تاریخ کے نشیب و فراز، بیرونی حملہ آوروں کی چیرہ دستیوں اور جارحانہ کاروائیوں کے نتیجے میں مقامی آبادی پر ظلم و ستم کی طویل داستان اور یہاں کے عوام کے جذبِ باہمی اور جزبہ حریت اور فکر و عمل کا تذکرہ کیا ہے، وہ مولانا مسعودی کی عالمانہ وسعت ِ نظر، قائدانہ فراست اور مدبرانہ تفکّرات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ آزادی سے پہلے غالباً یہ کسی کشمیری رہنما کا پہلا باقائدہ منشور ِحریت اور ایک واضع عَلم بغاوت ہے جو تحریری صورت میں موجود ہے۔ اس بیان کی سحر انگیزی سے عدالت میں ایسا سما ں بندھا کہ آخر پر سزا کا اعلان کرتے وقت جج موصوف یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا ،’’اس کے علم و فضل کے باعث میں سفارش کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ ایک خاص قیدی جیسا سلوک کیا جائے۔‘‘
سوؔز صاحب ایسی تجربہ کار اور ہمہ گیر شخصیت سے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مزید باریکیاں تلاش کرکے مولانا مرحوم کی زندگی کے دیگر گوشوں کو آشکار کرتے،اسلئے کہ وہ خود تحقیق و تخصیص میں شغف رکھتے ہیں اور غالباً اس عمل کے لئے وہ حد درجہ موزوں بھی تھے ۔ لیکن کتاب کے مشمولات کو مولانا کے ذاتی بیانات اور تقاریر پر ہی موقوف کرنا بھی خارج از مصلحت نہیں ہوسکتا ۔ مولّف موصوف نے قارئین سے مولانا مسعودی کا تعارف ان کی ہی تحریرات سے کرا کے نہ صرف حسنِ عقیدت کا ثبوت دیا ہے بلکہ تاثراتی عمل قارئین کی صوابدیدپر چھوڑ دیا ہے جسے سیاسی اعتبار سے ایک درست فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جموں و کشمیر کی تحریک حریت اپنی ہم عصر تحریکوں سے متاثر بھی رہی ہے اور کئی لحاظ سے منفرد بھی ۔ جہاں دیگر راج واڑوں میں آزادی کے خد و خال اور مستقبل کے انتظامی ڈھانچوں کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں تھا، وہاں یہاں کے مردانِ حُر ایک واضع نصب العین، فکری و نظریاتی ہم آہنگی اور غیر مبہم مقاصد کے اہداف کے حصول کے لئے یکجا ہوئے تھے۔ اور اس قافلہ اول کے سالاروں نے مقامی لوگوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستو ں اور تحریکوں کو بھی متاثر کیا۔ چنانچہ خاتمہ چکداری ، حقوق ِمزّارع او ر زرعی اصلاحات جیسے مطالبات یہاں کی تحریک حریت کے دستو رِاساسی میں شروع ہی سے شامل رہے جو حصول آزادی کے بعد باضابطہ نافظ العمل قوانین کی شکل میں منضبط ہوئے ۔ ملک کی بعض دیگر ریاستوں نے ان ترقی پسندانہ قوانین کو اپنے یہاں بعد میں عملایا۔ محمد یوسف ٹینگ کے مطابق ان تمام انقلابی اقدامات اور ترقیاتی نظریوں کے پیچھے مولانا مسعودی کا ذہن کارفرماتھا۔ ان کے بقول اگر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ اس تحریک کا دل تھے تو مفکر ِکشمیر مولانا محمد سعید مسعودی اُس کا دماغ۔
مولانا مسعودی چونکہ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں تھے، لہٰذا ہم ترین اور نازک مراحل پر فیصلہ کن کردار نبھانے کے باوجود وہ منظر عام سے غائب ہو جاتے تھے۔ گویا وہ ایک ایسے مردِ بحران تھے جن کی ضرورت تنظیموں اور تحریکوں کو ہمیشہ رہتی ہے۔ لیکن وہ اپنی خدمات کے صلے میں میدان ِسیاست میں درازی ِقد اور مفادات ِذاتی کے درپے نہیں ہوتے ۔ پروفیسر سیف الدین سوؔز کے مطابق مولانا مسعودی اپنی فہم و فراست اور تدبر و تفکر کی بنیاد پر شیخ صاحب کے ہم پلّہ تھے اور ان کے ہم عصروں میں ان کی ذہنی و فکری اُپج کا کوئی دوسرا آدمی موجود نہ تھا۔ اُن کی خلِوت نشینی کا ایک بڑا راز سلوک و تصوف میں وہ انہماک تھا جو انسان کو میدان کارزار کی تمازت اور رعنائیوں سے فوراً رعلٰیحدہ کر کے گوشہ تنہائی کی رونقیں بحال کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ گویا سیاسیاتِ کشمیر کی گرم بازاری میں کبھی ایک ایسا صوفی منش سیاستدان بھی مصروف عمل تھا جو عملی سیاست کے تب وتاز کو زیب و ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے مشرّب کی لاج رکھنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا تھا۔ زمانے نے اُس کی قدر و منزلت کو بھلے ہی نہ پہچانا ہو اور موجودہ ذرائع ابلاغ کی ان کے حذفِ ذکر کے تعلق سے جو بھی مجبوریاں رہی ہوں، لیکن اس مخدوش تناظر میں بھی بے لوث صحافیوں اور بے لاگ ناقدین اور مبصرین کی ایک بڑی تعداد مولانا مرحوم کی خدمات کی معترف ہے۔ اور تاریخ ایسے نفوس سے کبھی خالی نہیں رہتی جو حق گوئی کی خاطر کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔
موئے مقدس ایجی ٹیشن کی تحریک کے روح ِرواں مولانامسعودی ہی تھے اور صفِ اول کی قیادت کی عدم موجودگی میں انہوں نے جس طرح اس ہمہ گیر عوامی تحریک کو اشتعال انگیزی کی زد سے بچایا اور ایک پُر امن عوامی تحریک کو لامرکزیت ، طوایف الملوکی اور انتہا پسندی کی طرف لے جانے والے تمام امکانات کا پیشگی تدارّک کیا ، وہ اُن کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کا سب سے بڑ اثبوت ہے۔ وہ اس پوری تحریک کا مرکزی کردار تھے اور موئے مقدس کی بازیابی کے وقت اگر معاصرتی سیاستدانوں کا طرز عمل اختیار کرتے تو اپنے قد کو بڑھانے کے تمام امکانات موجود تھے ۔لیکن بقولِ قرۃ العین اُن کا کام محض گرداب میں ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو ساحلِ مراد تک پہنچا کر تنہائیوں میں گُم ہوجانا تھا۔ اور یہی اُن کی شخصیت کا طرۂ امتیاز بھی ہے۔ وہ تو 1977 میں وزیر اعظم ہند مرار جی ڈیسائی کی جانب سے نائب صدر جمہوریہ ہند کی پیشکش سے بھی یہ کہہ کر دست کش ہوگئے تھے کہ ” پیرانہ سالی میں مجھے اس چٹائی اور چیھتڑوں سے علاحیدگی ناقابل قبول ہے” ۔ یہ یک بے نظیر تجاہل عارفانہ تھا ۔
پروفیسر سوزؔ کی یہ کاوش قابل ستائش ہے اور اس موضوع پر مزید معلومات کے حصول کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بحرحال سوؔز صاحب نے سیاست ِکشمیر کے اس اہم ترین کردار کی تحریرات کو محفوظ کر کے نہ صرف آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا گراں قدر فریضہ انجام دیا ہے بلکہ بذاتِ خود معاصر سیاستدانوں کے لئے حصار ِذات سے باہر آکر ماضی کے ناقابل فراموش سیاسی کرداروں کی خدمات کے اعتراف کی ایک صحت مندانہ روایت کی طرح ڈالی ہے۔ جس کی اگر کوئی پیروی نہ بھی کرے، داد وتحسین دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (رابطہ۔7006309344)