بشارت بشیر
نامور عالم دین مولانا محمد مبارک صاحب مبارکی کا سفر حیات اختتام پذیر ہوا۔کچھ عرصہ سے صاحب فراش تھے،نقاہت عندیہ دے رہی تھی کہ چراغ گل ہونے کو ہےاور زبان صدقِ ترجمان خاموش ہونے جارہی ہے۔گو آل واولاد نے خدمت اور علاج ومعالجہ میں کوئی کسر باقی اُٹھا نہیں رکھی۔لیکن نوشتہ ٔ تقدیر غالب آگیا اور 2؍مئی2025ء بروز جمعہ صبح 9بجے راہی ملک بقا ہوئے۔یوں عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا ۔مولانا جید اور مستند عالم دین علامہ ابوالحسن غلام نبی مبارکی صاحب ؒ کے فرزند جلیل تھے۔اور 16؍مارچ1979ء کو جب اُن کے نامی گرامی والد محترم جان جاں آفرین کے سپرد کرگئے تو ہزاروں لوگوں نے بہ دیدئہ نم جب جامع مسجد سرینگر کے مسلم پارک میں اُن کی نماز جنازہ اسی فرزند سعید کی پیشوائی میںادا کی۔تو یہ امکان کھل کر سامنے آیا کہ مولانا محمد مبارک صاحب ہی اپنے والد کے مسند دعوت وارشاد پر فائز ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ گو مولانا سرکار کے ایک عہدئہ جلیلہ پر بھی فائز تھے اور بے حد وحساب مصروفیات کے گھیرے میں تھے لیکن میر واعظ مولانا محمد فاروق صاحب مرحوم ، دیگر کئی معتبردینی ، علمی وسماجی شخصیات اور علامہ مبارکی صاحب ؒکے اَن گنت مداحوں اورمحبین کا اصرار رنگ لایا اور مرحوم نے میدا ن دعوت وتبلیغ میں پورے وقار کے ساتھ قدم رکھا ۔ جلد ہی اُن کی صلاحیتیں اس حوالہ سے بھی نکھر کر سامنے آنے لگیں۔یوں نہ صرف ہر جمعہ وہ معروف جامع اہل حدیث بازار مسجد بہوری کدل میں تسلسل کے ساتھ خطابات جمعہ کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ بلکہ وادی کے اطراف واکنا ف میںاُن کے مواعظ و خطابات کی صدائے باز گشت ہنوزسنائی دے رہی ہے۔مولانا چونکہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس پر نہ صرف دین کا رنگ غالب تھا بلکہ اُن کے آباء ہر زمانے میں دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے آئے تھےاور اُنہوں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی تھی جب دعوت وتبلیغ کے میدان میں اُن کے والد گرامی کا طوطی بول رہا تھا۔ گو اُن کے والد محترم نے اپنی جانشینی کے لئے اپنے ایک اور فرزند محمد حسن مبارکی کی تربیت فرمائی تھی جن کا نام اپنے والد کے نام پر رکھا تھا۔ وہ موقع بہ موقع والد صاحب کی عدم حاضری میںبہ انداز احسن خطابت کا فریضہ انجام بھی دیتے تھے۔لیکن یہ ذہین وفطین جوان رعنا ،واعظ ِ بے بدل، بزرگ والد کی زندگی میں ہی 1963ء میں داغ جدائی دے گیا ۔ لگا تو یوں کہ اب اس خاندان کا کوئی فرد شاید ہی یہ علم ہاتھ میںلے سکے۔ لیکن قدرت کے فیصلے حیران کن ہوتے ہیں۔ کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ محمد مبارک صاحب کبھی یہ منصب عظیم سنبھالیں گے ۔ لیکن جب ایسا ہو اتو ہر شخص بس دیکھتے ہی رہ گیا ۔واضح رہے والد نے اُن کا نام اپنے دادا محمد مبارک کے نام پر رکھا تھا اور سنا ہے اسی نام کی مناسبت سے یہ خانوادہ مبارکی کہلایا،نہیں تو یہ خاندان میرواعظ خاندان کی ہی ایک شاخ ہے اوران کی اصل ذات شاہ بتائی جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا کہ اس خاندان کے داعیانہ کردار کا ایک تسلسل رہا ہے اور اسی کی ایک کڑی مولانا محمد مبارک بھی تھے وہ سوکالی پورہ سرینگر میں دفتری ریکارڈ کی روسے 1931ء میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ ہائی اسکول سے دسویں کا امتحان اچھے نمبرات لے کر پاس کیا۔ ایس پی کالج سرینگر میں داخلہ لیا ۔یہاں بھی اُن کی صلاحیتیں اُڑان کرتی ہوئی پائی گئیں ۔اُن کے ہم عصروں ، ہم عمروں اور دوستوں میں مشہور زمانہ شخصیات کا نام لیا جاسکتا ہے۔ جن کا طب ،ادب، صحافت ،سیاست وقیادت سے تعلق رہا ہے۔قرآن حکیم کی تعلیم بچپن میں ہی ماہرین علوم قرآن سے حاصل کی، کہتے تھے جب سارا قرآن اُستاد محترم سے پڑھ ڈالا تو والد گرامی نے میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحب ؒکو سب سے پہلے میری زبان سے قرآن سنوانے کا بندوبست کیا ،میرواعظ صاحب ؒنے بے حد انہماک سے مجھ سے کئی قرآنی سورتیں سن کر داد وتحسین بھی دی اور دعائوں سے بھی نوازا۔بہر حال بات ایس پی کالج کی ہورہی تھی یہاں سے فارغ ہوئے تو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا جو خیال عرصہ سے دل میں پنپ رہاتھا اب مزید تقویت پانے لگا۔ خود کہتے تھے کہ والد صاحب مجھے اتنا دور بھیجنے پر آمادہ نہ تھے ۔ لیکن آخر میرا اصرارکہیے یا اسے ضد کا نام دیجئے کے سامنے کچھ کر نہیں پائے اور اس شرط کے ساتھ جانے کی اجازت دی کہ عصری علوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان وادب بھی وہاں پڑھ لوں اور اس تعلق سے سند بھی حاصل کروں۔ یوں محمد مبارک صاحب علی گڈھ چلے گئے ۔ عربی میںبھی ماسٹرز کیا اور LLB کی ڈگری بھی لی۔ یہاں سے فراغت ہوئی تو انڈین آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروسز میںگئے ۔الٰہ آباد میں ٹریننگ لی ۔ 1961ء میں شملہ میں D.A.G Adm.کی حیثیت سے پوسٹنگ ہوئی۔ مدراس، کلکتہ ، حیدرآباد اور جموں وکشمیر میں ذمہ داریاں انجام دیتے رہےاور آخر 1989ء میں چندی گڈھ سے اکائوٹنٹ جنرل کی حیثیت سے عہدہ جلیلہ سے فارغ ہوکر شب و روز دعوت و تبلیغ کے کام میں جٹ گئے ۔ بولتے تھے تو منہ سے پھول جھڑتے تھے ، رقیق القلب تھے ،مواعظ وخطابات میں آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی تھی اور کبھی کبھی گلا رندھ ہو جاتا تھا،مناجات ودعا کرنے کا مخصوص ڈھنگ تھا۔اذکارووظائف سے خاص شغف تھا ، زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی تھی ،دعائیں اثر انگیز تھیں ، معروف علمی اور مستجاب الدعات شخصیت مولانا نور الدین ترالی صاحب ؒ سے خاص تعلق تھا اُن سے متاثر تھے یوں کہیے کہ ان کے ارادت مندوں میں شامل تھے۔ بہت رحم دل تھے اس حوالہ سے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہوں۔ کسی کا دکھ اُن سے دیکھا نہیں جاتا تھا بے ساختہ اُس کی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔میں نے کئی دفعہ کئی لوگوںکی داستان درد سنتے ہوئے اُنہیں دیدئہ گریاں دیکھ لیا ہے۔وہ جس دینی منصب پر فائز تھے، اللہ کے اس مخلص بندے نے اپنے اس سے کوئی مالی یامادی منفعت حاصل نہیں کی ساری خدمات للہ فی اللہ تھیں، میںاس بات کا شاہد عادل ہوں کہ وہ ہمیشہ دیتے رہے۔ کسی بھی خیر کے کام کا اعلان کرتے تو آغاز اُن کی ذات سے ہوتا کہتے تھے ،اللہ نے بہت نوازا ہے یہاں سے کون کچھ ساتھ لے کر کب گیا جو میں جائوں گا ۔ اور جو راہ حق میںصرف کیا وہی متاع آخرت بن کے رہے گا۔ یہاں یہ بھی عرض کروں کہ مولانا انگریز ی زبان کی آغوش میں پلے بڑے تھے لیکن اپنی نجی مجالس یا وعظ وتبلیغ کی محافل میں بھولے سے بھی کوئی انگریزی لفظ یا جملہ اُن کی زبان پر نہیں آتا تھا،ٹھیٹھ کشمیری بولتے تھے ۔ایسا کہ کسی کشمیری لفظ کے معنیٰ ڈھونڈنے پڑتے تھے محض اس لئے کہ وہ اپنے مخاطب سے اُس کی مادری زبان میںاپنی خاندانی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے بات کرنے کے عادی تھے۔ اُن کے ساتھ میری عقیدت ومحبت کا رشتہ ظاہر وباہر ،لیکن آٹھ سال میں اُن کے بہت قریب رہا اُن کے مزاج اور سوچ سے واقف تھا۔ وہ سنجید فکر شخصیت تھے تدبر ،تحمل ، شرافت ، محبت ، مودت ،رافت، انسانیت دوستی اور حق نوائی سے اُن کی زندگی عبارت تھی ۔ہاںانسان تھے کبھی کسی سے ناراض بھی ہوجاتے ڈانٹ بھی پلاتے،لیکن منانے میں بھی دیر نہیں کرتے تھے۔ مطالعہ کا اُنہیں گہرا شوق تھا اُن کے کتب خانہ میںنادر ونایاب کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے ،بلا ناغہ اُس سے استفاد ہ کرتے تھے ۔عربی تو عربی فارسی زبان واداب کے ساتھ بھی تعلق تھا۔ اُردو زبان و ادب کی لطافت کے گرویدہ تھے اُن کی تحریر بھی ماشاء اللہ بہت اچھی تھی ، صاحب قلم تھے ۔ لکھنا بہت چاہتے تھے لیکن مشاغل کی کثرت ہمیشہ آڑے آئی ۔ پھر بھی اُن کی ایک تصنیف معراج مصطفی ؐمنصئہ شہود آچکی ہے۔ نفاست و نظافت پسند تھے ،لباس اور خورد ونوش کے تعلق سے بہت حساس تھے ، لیکن دعوت وہ تبلیغ کے میدان میں یہ سب بھول جاتے۔گائوں دیہات کے ماحول میں کئی دن رات رہتے اور بس وہیں کے لگتے ۔ وہ ریاست میںتحریک سلفیت کی تاریخ کے حوالہ سے بات کرتے تو کئی گرہیں کھل جاتیں ، اپنے والد گرامی کے کردار کی اس حوالہ سے توضیح کرتے ۔ اُن کے بچپن ، لڑکپن اور جوانی میںاُن کے والد صاحب کے پاس ریاست اور ریاست کے باہرسے آنے والے مشاہیر وعلماء کا نام بہ نام ذکر کرتے تو تاریخ کے کئی ابواب وا ہوجاتے ۔ والد صاحب کے ساتھ مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب ؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب ؒ کے تعلقات کی داستان چھڑتی تو عجب ماحول بن جاتا تھا۔ 1987ء میں جمعیت اہلحدیث ہند کے کئی قائدین وادی وارد ہوئے۔ تو مولانا محمد مبارک صاحب سے ملنے بازار مسجد آئے ۔ DUKEہوٹل بلیوارڈ میں اُن سے ملاقاتیں ہوئیں ،قیادت مولانا عبدالوہاب خلجی صاحب ؒ کررہے تھے ۔ برصغیر اور کشمیر میں توحید وسنت کی ترویج واشاعت کے کام پر بات کا آغاز ہوا تو ع میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا والا معاملہ ہوگیا۔
حاصل کلام یہ کہ مولانا محمد مبارک مبارکی صاحب دعوت وتبلیغ کے میدان کے شۂ سوار ثابت ہوئے ۔ ہر دور میں اُنہیں مخلص ساتھیوں اور معاونین کی رفاقت حاصل رہی ۔اُن کے اسمائے گرامی کی طویل فہرست ہے طوالت کے خوف سے یہ نام حوالہ قلم کرنے سے قاصر ہوں۔بہر حال مولانا اب اس دنیامیںنہیںرہے 2؍مئی2025ء جمعہ کی صبح اُن کی وفات کی خبر باہر کیا آئی کہ سارا ماحول سوگوار بن گیا ۔عصر کی قریب جامع مسجد سرینگر میں اُن کی نماز جنازہ ہزاروں لوگوں نے بہ چشم نم ادا کی۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی،کھوئے سے کھوا چھلکتا تھا ، پولیس کی نفری رستہ بنا رہی تھی۔ جنازہ میں ملت کے مشاہیر اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء وقائدین یک جٹ نظر آئے۔ اخبارات میں سیاسی ودینی تنظیموں صحافتی حلقوںاور علمی اداروں نے اُنہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ نماز جنازہ اُن کے فرزند عزیز محمد ایوب مبارکی صاحب نے پڑھائی ۔ جو ماشاء اللہ ایک معروف انجینئر ہیں ۔ مولانا عرصۂ دراز سے صنعت نگر راول پورہ سرینگر میں اقامت گزین تھے۔ایک کارواں کی شکل میں جنازہ اُسی جانب روانہ ہوا۔ یہاں مقامی لوگوںنے دوسری نماز جنازہ ادا کی اور اسی علاقہ میں اُن کی تدفین عمل میںآئی ۔ یوں یہ پیکر علم وعمل زمین اوڑھ کے سو گیا۔اُن کے فرزند محمد ایوب مبارکی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں نے ٹھان لی تھی کہ جنازہ خودپڑھائوں گا ، غسل دینے کی ذمہ داریاں خود ادا کروں گا اور بابا کو لحد میںخود اُتاروں گا۔بحمداللہ یہ آرزوئیں پوری ہوگئیں۔ اللہ کرے کہ اُن کے لائق وفائق فرزندان محترم محمد الطاف مبارکی صاحب اور محمد ایوب مبارکی صاحب اُن کے صحیح جانشین ثابت ہوں۔مولانامرحوم ؒکی زندگی ہمہ جہت تھی،اُن کے قریبی لوگ اُن کے سفر حیات کے مختلف گوشوں کو ضبط تحریر میںلائیں تو اُن کے تئیں اچھا خراج ہوگا۔ اختتام مولانا مرحوم کے لئے اس دعا کے ساتھ ؎
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں اُن کا ہو
نور سے معمور وہ خاکی شبستان اُ ن کا ہو
رابطہ۔7006055300