Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

مولانا ابوالکلام آزاد۔۔۔۔ قسط 2

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 3, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
 اس کے بعدبڑے بھائی ابو نصر یٰسین کے انتقال ہو جانے کے سبب نومبر 1906 میں وکیل کا آخری شمارہ ترتیب دے کر کلکتہ واپس آگئے ۔ یہاں آکر انھوں نے 1907 ء میں  ہفت روزہ ’’ دارا لسطنت ‘‘ کے ادارتی فرائض انجام دینا شروع کر دئے ۔ مولانا نے اپنے دوست احباب اور معتبر قلم کاروں سے اس کے لئے مضمون لکھنے کی فرمائش کی جس کی وجہ سے ’’ دارالسطنت ‘‘کا معیار  کافی بہتر ہو گیا ۔ چند ماہ کامیابی سے جاری رہنے کے بعد آزاد اور’’ دارالسطنت‘‘ کے مالک کے درمیان اختلاف ہو جانے کے سبب 15 مئی 1907 کو اس سے دست بردار ہو کر انھوں نے پھر سے وکیل کی ادارت سنبھالی ۔ لیکن کچھ اسباب کی بنا پر یہاں بھی وہ زیادہ دنوں ٹھہر نہیں سکے ۔
وکیل سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ملک کے حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔  1905  ء میں بنگال کی سیاست کروٹ لے رہی تھی چونکہ لارڑ کرزن نے ’’ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘پالیسی کے تحت بنگا ل کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔مولانا آزاد سیاسی صورت حال سے بیگانہ نہ رہ سکتے تھے ان دنوں ان کی ملاقات ملک کے انقلابی رہنمائوں سے ہوئی جو سیاست میں تشدد کے حامی تھے ۔ جس کے سبب ان پر انقلابی جذبہ غالب ہو گیا ۔انھوں نے بنگال کے سیاسی قائدین سے رابطہ بڑھانا شروع کیا ۔ ان دنوں اربندو گھوش کلکتہ میں مقیم تھے ۔ مولانا کی ان سے ملاقاتیں رہیں اس دوران مولانا کا شری شیام سندر چکرورتی سے بھی تعلق پیدا ہوا۔ چنانچہ مولاناآزاد’ ہماری آزادی‘ میں رقمطراز ہیں ۔
’’ چکرورتی اس وقت انقلابی کارکنوں میں ایک نمایا ںمرتبے کے حامل تھے ان کی وسا طت سے میں دوسرے انقلابیوں سے ملا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں انقلابی سیاست کی طرف مائل ہوا اور اس کے گروپ میں شامل ہو گیا‘‘۔ 
1908 ء میں مولانا آزاد نے ترکی ، عراق ،شام ، مصر اور فرانس کا دورہ کیا  ۔ انھوں نے ان ممالک میں رائج تعلیمی نظام کا  بغور جائزہ لیا ۔ اس سفر کے دوران ان کی ملاقات ایسے قائدین اور سیاسی رہنمائوں سے ہوئی جو ترکی کے انقلابی رہنما مصطفٰے کمال پاشا کے بہت قریب تھے ۔ ان لوگو ں کے خیالات سے آزاد بہت متاثر ہوئے۔ اور یہ سفر ان ک کے سیاست میں قدم رکھنے کا باعث بن گیاان کی ملاقات مصر میں جامعہ ازہرکے ممتاز علماء سے بھی ہوئی ۔ان لوگوں سے سیاسی خیالات پر تبادلہ خیال کیا ۔اس سفر سے واپس آنے کے بعد ہندوستان کے سیاسی ، سماجی حالات کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے ۔ انھوںنے یہ محسوس کیا کہ عوام کے سیاسی شعور کی بیداری اور ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے صحافت کو بطور ہتھیار استعمال کیاجا سکتا ہے۔اس خیال کو عملی شکل دینے کے لئے انھوں نے کلکتہ سے ایک  ہفت روزہ’’ الہلال ‘‘ جاری کیا ۔ اس طرح 13 جولائی 1912ء کو دنیائے صحافت کے اُفق پر  ہفت روزہ ’ الہلال‘  طلوع ہوا ۔
اس اخبار نے صحافت کے معیار کو بلندکیا ۔ غلامی سے تنگ مظلوم عوام کا ترجمان بن گیا اوراس اخبار نے عوام میں آزادی کی روح پھونک دی۔وطن پرستی کی جوت ملک کے اس کونے سے اُس کونے تک جگادی ۔ وہ صور پھونکا کہ مردہ دل زندہ ہو گئے ۔ لوگوں نے اس انقلابی آواز کو بڑی توجہ سے سنا ،جس کی وجہ سے ان کے دلوں سے خوف کا کانٹا نکل گیا ۔ عوام میدانِ کارزار میں نکل آئے ۔ ہزاروں ہندوستانی مردِ میدان بن گئے اور غلامی کو توڑنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ۔ اس سے انگریری حکومت بھی حواس باختہ ہو گئی ۔  
الہلال سے مولانا مسلمانوں کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے مولانا کے دورمیں ہندوستانی مسلمانوں میں غریبی ’ انتشار ‘ دنیا بھر کی بُرائیاں اور خرابیاں موجود تھیں ۔ اس اخبار نے ہندوستانی مسلمانوں میں جد وجہد کی روح پھونکنے کا فقیدالمثال کار نامہ انجام دیا ۔ ’الہلال‘کے ذریعے وہ ہندوستانی عوام کو قومی دھارے سے جوڑنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ : ’’ ہندئوں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جد وجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے مگر آپ’’ مسلمانوں ‘‘کے لئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ‘‘۔ ( الہلال دسمبر 1912 )
’ الہلال نے اردو ادب کی بیش بہا خدمات کی ۔ اس رسالے کو بند ہوئے بہت عرصہ گزرا مگر ہندوستان کے سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور ادبی آسمان پر ان کی خدمات کا ستارہ روشن ہے ۔ فی الحقیقت ان کی شخصیت کا سحر آج بھی چھایا ہوا ہے ۔ مولانا آزاد بنیا دی طور پر صحافی تھے ان کی شخصیت کا جوہر پوری طرح اسی میدان میں کھلا ۔ کسی اور حیثیت میں انھیں یاد کیا جائے یا نہ کیا جائے مگر صحافت میں ہمیشہ ان کا جادو سر چڑ ھ کر بولے گا ۔ ’ الہلال ‘ کے کالموں میں صحافت کا جو رنگ اور ڈھنگ ہے۔ اس کے شیدائی آج بھی موجود ہیں ۔ پاکستان میں ’الہلال‘ اور ’البلاغ ‘ کی فائلوں کو بے ترمیم و اضافہ( Micro Printing )کی مدد سے شائع کر دیا اور سب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں ۔ اب اکاڈمی کے پاس فروخت کرنے کے لئے ایک بھی نسخہ نہیں ہے اب دیکھئے دوسرا ایڈیشن کب شائع ہوتا ہے اور تشنگان ِادب کوسیرابی کا سامان کب میسّر ہو تاہے ۔
’الہلال‘ کی اشاعت نے اردو صحافت میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ۔ ایک تو اس کی طباعت دوسرے اخباروں کی بہ نسبت اعلیٰ اور شاندار تھی دوسرا اس میں شائع ہونے والے مضامین اور مقالے جدید تعلیم سے بہرہ ور دل ودماغ کے لئے سکون بخش تھے ۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق ہمیشہ اس میں نئے نئے مضامین شائع ہوتے تھے یہ اخبار عوامی ترجمان بن گیا اور اس نے صورِ اسرافیل کا کام کیاشاید اکبر الہ آبادی مرحوم نے مولانا کے اخبار کو دیکھ کریہ شعر کہا ہو گا    ؎
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو 
جب توپ مقابل ہے تو اخبار نکالو 
مولانا کی سیاسی سرگرمیوں سے ارباب حکومت بے خبر نہ تھے۔لیکن کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے وہ کوئی کاروائی نہ کر سکتے تھے لیکن وہ موقع کی تلاش میں تھے اور یہ موقع انگریز حکومت کو بہت جلد مل گیا ۔  12 اور 17 اکتوبر 1914 کو دوشمارے ’’ الہلال ‘‘ کے مشترک شائع ہوئے ۔ اس میں دو مضمون پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اور دوسرا جرمنی کے حق میںشائع ہوا ۔جس کے ساتھ ایک تصویر بھی شامل اشاعت تھی ۔ اس اشاعت پر حکومت کے ترجمان( پانیر) نے ’الہلال‘ کے خلاف ایک سخت مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا  ("Pro.germanismin Calcutta")  
اس مضمون نے حکومت کے کان کھڑے کردیے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مولانا کی باغیانہ تحریروں پر گرفت کی جائے چنانچہ 18 ستمبر 1913 پرپس ایکٹ کے تحت دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی ۔ لیکن ارباب حکومت کی نیت کچھ اور ہی تھی ۔ ابھی چودہ ماہ ہی گزرے تھے کہ نومبر 1914 کو دوبارہ دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی جومولانا نے ادا نہیں کی ۔ بالآخر اخبار بند ہو گیا ۔ اس طرح الہلا ل کی اشاعت کے دور اوّل میں 13  جولائی 1912 سے نومبر 1912 تک کل 111 شمارے شائع ہوئے۔
تقریباََ ایک سال کی خاموشی کے بعد 12 نومبر 1915 ء کو مولانا نے ’’ البلاغ ‘‘ کے نام سے ایک نیا اخبار شائع کیا۔جسے’’الہلال‘‘ کا دورِ ثانی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کا صرف نام الگ تھالیکن اس کے مقاصد ، طرز ، تحریر ، مضامین سب ’’الہلال‘‘ سے ملتے جلتے تھے ۔ یعنی اس کو  ’الہلال‘ کی کاربن کاپی کہا جاسکتا ہے ۔ البلاغ کو ابھی پانچ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ28 مارچ 1916 کو حکومت بنگا ل نے آزاد کو ڈیفنس ایکٹ Defence Act)  ( کی دفعہ تین کے تحت چار دن کے اندر اندر بنگال چھوڑنے کا حکم دیا ۔جس کے سبب’’البلاغ‘‘ کو بند کرنا پڑا اور البلاغ کا آخری شمارہ 31 مارچ 1916 کو شائع ہوا ۔ اس کے بعد انھوںنے تقریباََچار برس رانچی میں نظر بندی کی زندگی گزاری ۔
 نظر بندی نے انھیںملک کے تمام حلقوں میں مقبول بنا دیا ۔رہائی کے وقت ہندوستان کے تقریباََ تمام لوگ اُن کے استقبال کے لئے آئے ۔ یہ زمانہ ہندوستان میں سیاسی تحریکوں اور انقلابوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان تحریکوں سے متاثرہو کر مولانا کے پیش نظر23 دسمبر 1921 کو کلکتہ سے ایک  ہفت روز اخبار ’’ پیغام ‘‘جاری کیا ۔ مولانا نے اس اخبار کی ادارتی ذمہ داری مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی کے سپرد رکھی تھی ۔’’پیغام‘‘ کلکتہ کا واحد اخبار تھا جس نے Prince) (  پرنس آف ویلز کی کلکتہ آمد کابائیکاٹ کیا تھا ۔ خود مولانا عبدالر زاق ملیح آبادی کے الفاظ میں:’’ پرنس آف ویلز آرہا تھا۔اور ’’ پیغام ‘‘ کلکتہ میں آگ ابل رہا تھا ۔ انگریزوں کا سب سے بڑا گڑھ کلکتہ تھا اور وہ پرنس کا بائیکاٹ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسلئے گورنمنٹ ’پیغام‘ کی آواز کوبند کرنے پر تلی ہوئی تھی ‘‘۔
(بحولہ ماہنامہ’ اردو دنیا‘ دسمبر2015ص17)
اخبار ’’ پیغام ‘‘نے قومی جذبے کی بیداری کے علاوہ حکومت ِوقت کی کوتاہیوں اور ا س کے ظلم و ستم کو طشت از بام کیا اور ان ساری باتوںکے عوض مولانا گرفتار ہوئے اور دو سال کی قید ہوئی ۔جیل سے رہائی کے بعد مولانا پوری طرح سیاست میں مصروف ہو گئے ایک بار پھر انھوں نے ’’الہلال‘‘ کو جاری کرنے کا فیصلہ کیا 10 جون 1927 کو ’الہلال‘ دوبارہ جاری ہوا اس میں شائع ہونے والی تحریروںکی تربیت اور ادار ت مولانا عبدالرزاق ملیح الہ آبادی کے سپرد تھی ۔تاہم مولاناسیاسی مصروفیت کے باوجود اخبار سے متعلق جزّیات نگاری پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔ قارئین ان کے مضامین کے دیوانے تھے اور انہیں مولانا کی تحریروں کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا تھا چونکہ مولانا کی سیاست میںمصروفیات کے سبب ’الہلال‘کے صرف20شمارے شائع ہوئے اور اس طرح 9 دسمبر 1907 کو ’الہلال‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ۔چونکہ مولانا سیاست کے ساتھ پوری طرح وابسط گئے  ۔مولانا کے صحافتی سفر کے اختتام کو ماہر آزاد مالک رام نے اردو ادب کا عظیم نقصان گردانا ہے ۔                                                                                        
’’ اسے دیکھ کر ایک بار پھر افسوس ہوتا ہے کہ علم وادب نے ان کی سیاست کی بارگاہ میں کتنی بڑی قربانی دی ہے اگر تمام مشغولیتوں سے قطع نظر کر کے وہ اپنے آپ کو علم وادب ہی کے لئے ہی وقف رکھتے تو نہ معلوم آج اردو کے خزانے میں کیسے کیسے قیمتی جواہر کا اضافہ ہو گیا ہوتا ‘‘۔  ( کچھ ابوالکلام کے بارے میں ، ص ،68 ) 
مولانا نے اپنا صحافتی سفر بیرون ممالک سے شروع کیا تھا اور لکھنو، کلکتہ تک انھوں نے اردو صحافت کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا ۔ صحافت کے میدان میں انھیں بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنھوںنے ہمت نہیں ہاری اور اپنے سفر کو جاری رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سا عرصہ گزر نے کے باوجود آ ج بھی لوگ ان کی تحریروں کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ مولاناچونکہ نڈر آدمی تھے اور ہندوستان کے لوگوں کوتمام عمر محبت اور یگانگت نیز اتحاد کی تعلیم دی ۔مولانا کی صحافت کو خراج عقیدات پیش کرتے ہوئے علامہ نیاز فتح پوری نے لکھا : 
’’لائڈ جارج سے ایک بار کسی نے پوچھا صحافی بننے کے لئے ایک انسان کو کیا کیاجاننا چاہئے؟انھوں نے کہا سب کچھ اور کچھ بھی نہیں ۔ صحافی وہ ہے جو دنیا کے تمام باتوں کو جانے لیکن ماہر کسی کا نہ ہو ۔ لیکن مولانا کی یہ عجیب و غریب خصوصیت تھی کہ وہ بہت کچھ جانتے تھے اور جو کچھ جانتے تھے ماہرانہ حیثیت سے جانتے تھے ۔یہ ایسی خصوصیت تھی جس کی نظیر دنیا ئے صحافت میںمشکل سے ہی مل سکتی ہے‘‘۔ ’’ شورش کشمیری نے مولانا کے بارے میں کہا ۔
’’ مولانا آزاد نے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی ایسا جملہ یا فقرہ استعمال نہیں کیا جو ذاتیات سے آلودہ ہو ۔ان کا دامن تمام عمر ایسی آلا ئشوں سے پاک رہا‘‘۔ جواہر لال نہرو نے ان کے بارے میں لکھا : ’’ وہ ہندوستان کے انبوہ ِ کیثر میں یک و تنہا حیثیت کے مالک تھے‘‘۔عبدالقوی دسنوی کہتے ہیں کہ ’’مولانا آزاد کی صحافتی زندگی اور خاص طور سے الہلال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے لیکن سیاست نے ان سے صحافتی زندگی چھین لی ‘‘  الغرض مولانا آزاد کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔آزاد نے اردو صحافت کا مزاج اور معیار یکسر بدل دیااور اپنی تحریروں سے پورے ہندوستان کو متاثرکیا۔ملک کو غلامی کی زنجیر سے آزاد کرنے اور صداقت کا پرچم بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔آزاد کے اخبارت اور رسالے اردو صحافت کی تاریخ میںسنگ میل کی حثییت رکھتے ہیں۔ان اخباروںنے مسلمانوں کے جمودوتعطل کو توڑا۔ ان میں سیاسی بیداری کی روح پھونکی۔ یہ اخبارت اپنی ادبیت،بے باک صحافت،مذہبیت اور اپنی مخصوص گرج دار آواز کی وجہ سے اردو صحافت میںسرفہرست ہیں۔ ان اخبارات کی طرزِ تحریر بقول عبدالرزاق قریشی :’’ایک اونچے پہاڑ پر سے گرتے ہوئے آبشار کے مانندتھی‘‘
(اردو صحافت:مسائل ا ور امکانات  ڈاکٹرہمایوںاشراف ص۱۱۲)
   مولانا آزاد کے اخبارات ادبی،سیاسی، سماجی،ثقافتی ،سائنسی مضامین اور تاریخی معلومات کے لئے ایک اہم دستاویز کی حثییت رکھتے ہیں۔ جن کا مطالعہ صحافت کے مورخ کے لئے ضروری ہے۔آزاد نے اردو زبان و ادب کوترقی وترویج دینے میں کئی اہم مضامین لکھے جس سے اردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوا اور اردو ادب کو مخصوص حلقہ سے نکال کر ہندوستان گیر بنایا۔
( ختم شد)
 رابطہ :لڈ اگہا ، ڈور، اسلام آباد کشمیر
 ریسرچ اسکالر۔ شعبہ ٔ اردو ، پنجاب یونیورسٹی ، پٹیالہ
Phone No 9419068866,9796573474
emil id- [email protected] 
  
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندرمودی ریاسی پہنچے،چناب ریل برج کا دورہ کیا
تازہ ترین
کشمیر میں دو الگ الگ سڑک حادثوں میں 2 افراد کی موت ,5 دیگر زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?