Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

مولانا ابوالکلام آزاد

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 2, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
 ہمارے علم وادب کی دنیا میں ایک ایسی شخصیت (Personaltiy )گزری ہے جو یکتائے روز گار ہونے کے ساتھ ساتھ جامع صفات بھی ہے،اس عظیم شخصیت کا نام مولانا ابوالکلام آزاد ہے جو صف اوّل کے عالم اور مفسر قرآن ، صاحب طرز انشاپرداز،خطیب،مدبر،بہترین سیاست دان ، ماہر تعلیم اور خوش فکر شاعر تھے۔ متذکرہ صفات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے سحر طراز صحافی تھے ان کی تحریروں نے پورے ہندوستان کو متاثر کیا ۔مولانا نے ملک کوغلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنے اور صداقت کا پرچم بلند کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ ان کی تحریروں سے انگریزوں کے دل بھی ہل گئے ۔ مولانا کا شمار اردو کے صاحبِ طرز ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ وہ عربی اور فارسی کے عالم تھے ۔ اور اردو اُن کی مادری زبان تھی ۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میںاُن کی اردو نثر رواں دواں اور برجستہ ہے ۔ مولانا حسرتؔ موہانی اردو کے ممتاز شاعر اور نثر نگار تھے جنھیں نثر اور نظم دونوں پر قدرت حاصل تھی وہ مولاناآزاد کی نثر سے بہت متاثر تھے ۔ حسرتؔ موہانی آزاد کی نثر سے متاثر ہو کر یہ شعر کہتے ہیں   ؎
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر 
نظم حسرتؔ میں کچھ مزا نہ رہا 
سجاد انصاری نے مولانا کی نثرسے متاثر ہو کر یہ الفاظ کہے 
’’ میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہو چکا ہوتاتو مولانا ابوالکلام کی نثر اس کے لئے منتخب کی جاتی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘  ( محشرِ خیال از سجاد انصاری)
مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی ۔وہ اپنے طرز کے منفرد صحافی تھے ۔ ان کی زندگی ایک بے مثال قلندرانہ شان کی مثال تھی ۔ صحافت میں بالکل جدا گانہ روش اختیار کی اور اپنی سادہ و پرکارنثر سے ایسا جادو کیا ،کہ بقولِ مولانا حامد انصاری وہ ’’ اپنے طرز کے موجد تھے ‘‘ ان کے اسلوب پر مولانا شبلی ؔکا اثر دکھائی دیتا ہے ۔ مولانا کی طبیعت میں بغاوت ابتدا سے ہی تھی ۔ جنگ آزادی میں مولانا کا نام گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ 
مولانا آزاد کے والد محترم مولانا خیرالدین دہلی میں پیدا ہوئے ۔ اُن کی عمر تقریباََ، پچیس سال تھی ہجرت کر کے مکہ معظمہ چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی ۔ مولانا آزاد کی ولادت 1888 ؁ء میں مکّہ میں ہوئی ۔۔ اس کے بعد دوبارہ آزاد کے والد مکہ سے ہجرت کر کے کلکتہ آگئے اور کلکتہ میں ہی والد کا انتقال ہو گیا ۔ مولانا نے فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اردو خود اپنے شوق سے پڑھی ۔ مولانا کو فرانسیسی  اور انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
مولانا کی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے ہوا ، لڑکپن میں ہی انھوں نے شعر کہنا شروع کیا نثر کی طرف بعد میں توجہ دی ۔ اُن کے سیاسی خیالات میں تبدیلی اُس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے نوجوانی کی دہلیزپر قدم رکھا ۔برطانوی سامراجیت کے خلاف اُن کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا ۔ مولاناایک خاص مقصد اور مشن کو لے کر صحافت کے میدان میں کودے ۔مولانا کے صحافتی سفر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے صحافت کو کبھی بھی (Profession) پروفیشن نہیں بنایا ۔ بلکہ اپنے مشن کے طورپر دیکھنے اور پرکھنے کے عادی رہے۔ آزاد نے کبھی اپنے صحافتی کیریر (Carrier)میں کسی بھی سیاسی جماعت ، سیاست دان یاکسی شخص کی جھوٹی تعریف کر کے اس کے رُتبہ کو بڑھاوا دینے کی کوشش نہیں کی ، نہ ہی کسی مذہب یا فرقہ کی تنقید کی ، اور نہ ہی فحش اور ہتک آمیز تحریرلکھی ان سب چیزوں سے آزاد نے پرہیز کیا ۔ یہ وہ باتیں ہے جن کو آزاد صحافتی ذمہ داری کے خلاف سمجھتے تھے جس کا پتہ ’’ الہلال ‘‘کے ابتدائی شماروں کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ 
’’ ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی زبان یا جماعت سے کوئی رقم لیناجائز  رکھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن (صحافت) کے لئے ایک دھبہ اورسرتاسر ایک عار ہے۔ ہم اخبار نویس کی سطح کو بہت بلند ی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں ۔پس اخبار نویس (صحافی) کے قلم کوہر قسم کے دبائوسے آزاد ہونا چاہئے اور چا ندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کے لئے سمّ ِقاتل ہے۔جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اور امیروںکے عطیوں کو قومی عطیوں قومیـــــ، امانت اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کر لیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اورخود ایمان کو بیچیں بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر رئیسوں کی ڈیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور گلی کوچہ ’ قلم ایڈیٹر کا ‘کی صدا لگاکر خود اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں ‘‘ ( الہلال ۲۷ جولائی ۱۹۱۲ء)
مولانا نے اپنا پہلا قدم ادب کی دنیا میں وادی شعر و سخن میں رکھا ان کی پہلی غزل ممبئی سے شائع ہونے والے گلدستے ’’ارمغان فرح ‘‘ میں شائع ہوئی ۔ یہ مولانا کی پہلی ادبی کاوش تھی جس کو کافی سراہا گیااور اسی کے نتیجے میں انھوںنے 1899 ء میں ایک گلدستہ ’’نیرنگ عالم‘‘ جاری کیا ۔ جو چند ماہ جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا۔ یہ اردو صحافت کی تاریخ میں غالباََپہلی اور آخری مثال ہے کہ گیارہ سال کی عمر میں کسی نے باقائدہ ادارت کے فرائض انجام دئے  ۔
آزاد کا جو شعری سرمایہ ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے مولانانے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی طبع آزمائی کی ، اردو میں صرف دو غزلیں ، تین رباعیاں ، چند متفرق اشعار کے علاوہ فارسی میں ایک غزل ، پانچ رباعیاں ایک نظم اور ایک قطع تاریخ ان کی یاد گار ہیں۔ 1900 کے اواخر میں ہفت روزہ  رسالہ ’’ المصباح ‘‘ جاری کیا ۔ یہ رسالہ آزاد نے مصر سے شائع ہونے والے اخبار ’’مصباح الشرق‘‘ کی طرز پر جاری کیا صحیح معنوں میں ’’ المصباح ‘‘ سے مولانا آزاد کی صحافتی زندگی کا آغازہوا۔ المصباح کا پہلا شمارہ عید الفطر کے موقع پر منظر عام پر آیا تھا ۔اس میں مولانا نے ایک مضمون ’’عید‘‘ کے عنوان پر لکھا۔ اس مضمون کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی ۔معاصر اخباروںنے اپنے کالموں میں اس پرتبصرے شائع کئے ۔ مولانا آزاد نے ’ نیرنگ عالم ‘میں صرف شاعری کو جگہ دی تھی لیکن’ ’ المصباح‘ ‘ میں نظم کے ساتھ نثری حصہ بھی رکھا گیا ۔ نیز مختلف موضوعات کے لئے صفحات مقرر کیے ۔ مثلاََ ایک صفحہ علمی مضامین کے لئے ، ایک صفحہ تاریخ اور سوانح عمری کے لئے ایک صفحہ سائنسی مضامین کے لئے وغیرہ ۔
’’ المصباح ‘‘ تین چار ماہ جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا اسی زمانے میں مولانا کے علمی و ادبی مضامین اس دور کے اہم رسالوں میں شائع ہوتے رہے ۔ اس کے بعد آزاد کا دھیان نثر نگاری کی طرف مائل ہوا اور اپنی توجہ نثر کی طرح دینے لگے جیسا کہ عبدالقوی دسنوی کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے ۔
’’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولاناآزاد صحافت کے ذریعے اردو زبان و ادب اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے بہتر موقع کی تلاش میں تھے چنانچہ ’المصباح ‘ کے بند ہوجانے کے بعد انھوں نے مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ فن اخبار نویسی کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو’’ مخزن ‘‘لاہور مئی 1902 میں شائع ہوا ‘‘۔ ( ابوالکلام آزاد ، عبدالقوی دسنوی ،ص،25 )
’’المصباح‘ ‘ کے بند ہو جانے کے بعد کلکتہ سے مولوی احمد حسن کی ادارت میں ’احسن ا لاخبار ‘جاری ہوا مولانا نے اس اخبار میں  عمر خیام ، حافظ شیرازی وغیرہ پر مضامین لکھیے۔ مولانا کی پہلی تصنیف اعلان الحق یہی شائع ہوئی ۔ انھوں نے بیرون ملک سے تبادلہ میں آنے والے اخبار ات و رسائل سے بھر پور استفادہ کیا ۔ جن کے مطالعہ سے مولانا کو عالم اسلام کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوئی ۔
لکھنومیں نوبت رائے نے ماہنامہ’ ’خدنگ نظر‘‘ شائع کیا ۔ آزاد کے کئی مضامین ’ ’خدنگ نظر ‘‘میں شائع ہوتے تھے ۔ آزاد کی تحریروں کو دیکھ کر نوبت رائے نے اُن کو اخبار کا ایڈیٹر بنایا ۔’ ’خدنگ نظر‘‘ میں آزاد نے کئی اہم مضامین لکھئے جیسے ’کبوتر کی ڈاک‘  ’پنکچوئیشن ‘ ’آثار قدیمہ ‘’ مینار خسرو‘ اور ایکس ریز قابلِ ذکر ہیں ۔
’’خدنگ نظر ‘‘کے بعد مولانا کو اب لوگوں کے ذوق کے مطالعہ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس خلا کو پر کرنے کی غرض سے مولوی محمد یوسف جعفری کے سامنے تجویز رکھی کہ ’’ اخبارات کے حصول کی یہی ایک راہ نظرآتی ہے کہ ایک چھوٹا ماہوار پندرہ روز رسالہ نکالاجائے‘‘ ان کو مولانا کی تجویز پسند آئی ۔ 30 نومبر1903 کواپنا ایک رسالہ ’’لسان الصدق ‘‘ کے نام سے جاری کیا ۔ اردو کی محبت میں انھوں  نے اس رسالے کو انجمن ترقی اردو کا ترجمان بنا دیا ۔ اس رسالے کے پہلے شمار میں اس کی اشاعت کے مندرجہ ذیل مقاصد درجہ تھے۔
(۱)  سوشل ریفارمر ۔ یعنی مسلمانو ںکی معاشرت اور رسومات کی اصلاح کرنا ۔
(۲)  ترقی اردو ۔ یعنی اردو زبان کے علمی لٹریچر کے دائرہ کو وسیع کرنا ۔
(۳)  تنقید ۔یعنی اردو تصنیفات پر منصفانہ ریویو۔ 
علمی مذاق کی اشاعت ۔ بالخصوص بنگال ( مغربی بنگا ل اور مشرقی بنگا ل کی تقسیم سے قبل کا نام )میں ’لسان الصدق‘ کے پہلے شمارے کے سرورق پر یہ پیغام  بھی جلی حروف میں لکھا تھاکہ :’’ الصدق ینجی والکذب یھلک‘‘ لسان الصدق کا دستور عمل ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ یہ قوم کو کذب سے بچائے اور راستے پر لائے ۔ جب اس کا فرض صرف حق گوئی ٹھہرا تو اس کی امید قوم کو بالکل نہیں کرنی چاہئے کہ یہ انھیں ایسے ترانے سنائے گا جو نہایت شیریں معلوم ہوں گے ۔سچی بات ہمیشہ کڑوی معلوم ہوتی ہے ، پھر سچائی کی زبان کیوں کر شیریں معلوم ہو گی ۔یہ ہمیشہ تم کو کڑوی کسیلی باتیں سنائے گاجو تمھیں ناگوار معلوم ہوں گی ۔لیکن اس زمانے کو دور نہ سمجھو جب کہ صدق کا منیحی ہونا اور کذب کا مہلک ہونا تم پر ظاہر ہو جائے گا‘‘۔ ( ایضاً ص، 28 )
بقول مالک رام ’’ لسان الصدق ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی صحافت کی دنیا میں دھوم مچ گئی ‘‘ ۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین میں سنجید گی اور پختگی ہوتی تھی اور ساتھ ہی تحریروں میں ایسی خوشبوں ہوتی تھی جو دل ودماغ کو معطر کرتی تھی ان تحریروں سے دلکشی اور جاذبیت بھی جھلکتی تھی ۔ اردو زبان کو ترقی دینا اس اخبار نے اپنا نصب ا لعین بنایا تھا۔اردو کی ترقی و ترویج کے لئے آزاد نے کئی  شماروں میں خود لکھا۔ مولانا آزاد کا ماننا تھا کوئی بھی زبان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس زبان میں جدید معلوماتی اور تکنیکی علوم پر مضامین یا کتابیںشائع نہ کی جائیں یہ کام مولانا کے رسالے نے بخوبی انجام دیااس رسالے کے صرف13 شمارے منظر عام پر آئے ۔ آخری شمارہ  5 مئی 1905  ء کو شائع ہوا ۔ ’’ لسان الصدق ‘‘ کو ہر مکتبہ فکر کے درمیان مقبولیت حاصل ہوئی ۔ یہاں تک کہ اس کے قارئین کی تعداد بڑھتے بڑھتے ہزاروں تک پہنچ گئی ۔ اسے معاصر اخبار نے داد و تحسین سے نوازا ۔’’لسان الصدق ‘‘ کے ان 13 شماروں نے بقول ابوسلمان شاہجہاں پوری ’’ مولانا کے قلم کی پختگی ، اسلوب کی شگفتگی اور فکر کی نکتہ آفرینی ، انشاکی دلربائی پر تحسین کے پھول برسائے ‘‘۔
(مجلہ آزاد، جدہ ۲۰۰۱)
’’ لسان الصدق ‘‘ کے بند ہو جانے کے بعد ان کی ملاقات مولانا شبلیؔ سے ہوئی ۔ انھوں نے مولانا کو ’ الندوہ ‘ کی ادارت کی پیش کش کی ۔ جو آزاد نے خوشی سے قبول کر لی ۔لیکن چند ماہ بعد آزاد اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے ۔ بقول عبدالقوی دسنوی ’ وہ ماہ اکتوبر 1905  سے مارچ 1906  تک الندوہ کی ادارت میں شامل رہے ‘‘ الندوہ کے ساتھ وابستگی کے دوران کئی بیش قیمتی مضامین لکھے۔جن میں مسلمانوں کا ذخیرہ علم اور یورپ  ،(کتوبر۱۹۰۵)القضافی الاسلام ،(فروری۱۹۰۶)، یورپ میں گونگو ںکی تعلیم،(مارچ۹۱۰۶) خاص ہیں ۔
اپریل 1906 ء میں مولانا نے سہ رو زہ’ وکیل‘ کی ادارت سنبھالی ۔اس اخبارکے ایڈیٹر شیخ غلام محمد تھے مولانا کی ادارت میں سہ روز ہ اخبار کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ۔ جس کی وجہ سے اس اخبار نے کافی شہرت پائی ۔ مولانا نے وکیل میں بھی صحافت کے پورے ہنر دکھائے ابوسلمان شاہجہاں پوری نے ، وکیل کی شہرت کو دیکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں ظاہر کیا ۔’’مولانالکھنوسے نکلے اور ممبئی اور لاہور ہوتے ہوئے امرتسر جاپہنچے ۔ الندوہ کو چھوڑا تھا اور وکیل کی زمام ادارت ہاتھ میں لی تھی ۔الندوہ صرف ایک علمی رسالہ تھا وکیل ایک مکمل اخبار تھا ۔ الندوہ کی فضا محدود تھی ، وکیل میں مضامین و موضوعات کی کوئی حد قائم نہ تھی۔ وکیل میںمولانا کو ہر قسم کی مضمون نگاری کا موقع ملا اور ہر موضوع پر طبع آزمائی کی ۔ وکیل کی اشاعت باقاعدہ ہو گئی ، صفحات محدود تھے اضافہ کیا گیا ۔ مولانا کی محنت رنگ لائی ۔ اس کی شہرت ملک کے کونے کونے میں جا پہنچی ۔ مقبولیت آسمان سے باتیں کرنے لگی اور اشاعت سینکڑوں سے ہزاروں میں بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ 
(بحوالہ سہَ ماہی فکرو تحقیق ص۱۱۴)
(بقیہ جمعرات کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)
 رابطہ :لڈ اگہا ، ڈور، اسلام آباد کشمیر
 ریسرچ اسکالر۔ شعبہ ٔ اردو ، پنجاب یونیورسٹی ، پٹیالہ
Phone No 9419068866,9796573474
emil id- [email protected]   
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندرمودی ریاسی پہنچے،چناب ریل برج کا دورہ کیا
تازہ ترین
کشمیر میں دو الگ الگ سڑک حادثوں میں 2 افراد کی موت ,5 دیگر زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?