مولانا امین الرحمٰن عثمانی، تخلص عامرؔ، تاریخ ولادت ومقام :1920 ء ہردوئی ،تاریخ وفات و مقام:1975ء پونہ ، مہاراشٹر
مختصر حالات و کوائف:مولانا امین الرحمٰن عامرؔ عثمانی ایک صاحبِ طرز انشاء پرداز اورسلیم الطبع شاعرو ادیب تھے، والد ماجد کا نام مطلوب الرحمن تھا ،جناب عامر عثمانی خوددارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ دیو بند کے مایہ ناز فرزند علامہ شبیر عثمانی کے برادر زادے تھے، شعر و سخن کا ذوق ورثے میں ملا تھا، شاعری میں شہنشاہِ غزل جگر مرادآبادی سے خصوصی تعلق تھا خاص کر غزل گوئی تحریر و تقریر میں لب ولہجے کی شستگی اور انوکھا ونرالا اسلوبِ بیان کے ساتھ ساتھ تنقید و تبصروں میں ب باکی آپ کی تحریروں کا خاصہ ہے،1949ء میں دیوبند سے ’’تجلی ‘‘نام کا ایک ماہانہ رسالہ جاری کیاجو کہ آپ کی وفات تک جاری رہا ۔میری ابتدائی اور ثانوی طال علمی کا زمانہ تھا، رسائل و مجلات کے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری حاصل اورجو تھی وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسی دوران اپنے ایک استاد کے پاس ’’تجلی‘‘ کے کچھ شمارے دیکھئے ،ان سے پوچھ کر جو ایک اٹھایا، پڑھنے کے لئے تو دل مچلنے لگا اور آنکھیں طواف کرنے لگیں اُن الماریوں کا جن میں کتابیں بھری تھیں کہ کہیں اور شمارے بھی مل جائیں۔ اپنے اس سفر کے دوران ایک صاحب سوپور میں ملے جن کی آنکھوں میں عجب چمک پائی جب بھی ان کے سامنے ’’تجلی ‘‘کا تذکرہ ہوتا تھا ۔
دیو بند میں قلم کے شہسوار مولانا اَمین الرحمن المعروف عامرؔ عثمانی سید مودودی کے صبرکا میٹھا پھل ،شہرہ ٔآفاق دندان شکن کتاب ’’تجلیاتِ صحابہ ؓ‘‘کے مصنف علامہ عامر عثمانی حق و اہل حق کے وکیل تھے اور ہمیشہ حق بات ہی کی وکالت کرتے تھے ۔ چاہے انہیں اپنے اساتذہ ہی سے کیوں نہ مخالفت کرنی پڑے ۔ وہ اپنا ایک مخصوص علمی پس منظررکھتے تھے اوردیوبندی مدرسہائے فکر میں ان کا خانوادہ منصبِ امامت و علمیت پر فائز ہے ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ان کے چچا تھے ۔مفتی عزیز الرحمن ( مؤلف ’’ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ‘‘) و مفتی حبیب الرحمن تایا تھے ۔ اس کے علاوہ مشہور پیر طریقت علامہ مطلوب الرحمن ان کے والد محترم تھے ،جب کہ مولانا فضل الرحمن صاحب ( جن کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے ) دادا محترم تھے ۔ خود مولانا عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی کے تلامذہ میں سے تھے ۔ جب مولانا حسین احمد مدنی نے ’’ مودودی دستور و عقائد ‘‘میں سید مودودی پر تنقید لکھی تو مولانا عثمانی نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اس کا جواب لکھا ۔ مولانا محمد میاں صاحب نے’’ خلافت و ملوکیت ‘‘کے رد میں ’’ شواہد تقدیس‘‘ لکھی تو اس کا جواب تجلیات صحابہ ؓ‘‘کے نام سے دیا جو جناب سیّد علی مطہر نقوی صاحب نے شائع کیا ہے ۔ اسی طرح مولانااحمد رضا بجنوری اور مولانا انظر شاہ صاحب سے مولاناکا تحریری مناظرہ ہوا جو ’’تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں ‘‘کے نام سے شائع شدہ موجود ہے ۔ مولانا مودودی کی حمایت ہی کی پاداش میں ان کے مکتبہ کو دو بار آگ لگائی گئی مگر ان کی طبیعت میں ذرا سی ناحق کے ساتھ مصالحت و مداہنت دیکھنے میں نہ آئی ،وہ جب علمی محاسبہ کرتے تو مخالف کی حق وانصاف کی بنیاد پر دھجیاں اڑا دیتے تھے ۔ ان کے زورِ قلم کا تو ایک زمانہ قائل ہے ۔
’’تجلی ‘‘کا اجرا کرتے وقت انہیں اپنے اور غیروں کے ہزار طعن سننے پڑے تھے، انہیں دوستوں کے منہ سے بھی ہمت شکن باتیں سننے کو ملی تھیں ۔ علامہ عامر عثمانی صاحبؒ خانوادۂ عثمانی کی ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں میں نے بچپن سے یہی بات سنی ہے کہ قلم ان کا غلام اردوزبان ان کی باندی، الفاظ ان کے اسیر، حق بیانی ان کی پہچان اور تحقیق ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔تفسیر ،حدیث ، فقہ ، شرک وبدعت ،طنز ومزاح ہو یا پھر شاعری حتیٰ کہ کوئی بھی موضوع ہو ،علامہ نے جو بھی لکھا محققانہ لکھا بادلیل لکھا مستند لکھا۔ اب کسی ایسے انسان کے بارے میں بغرض تعارف کچھ لکھ مارنا آسان ہوتاہے جس کی شخصیت کا ایک ہی رُخ ہو ،ایک ہی پہلو ہو ،ایک زاویہ ہو لیکن کسی ایسے انسان کا تعارف نامہ مرتب کرتے وقت بڑی اُلجھنیں اور دشوار یاں پیش آتی ہیں جس کی ایک شخصیت میں بے شمار شخصیتیں مدغم ہوں،جس کا معنوی جسم ہزار معنوی روحوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو، جوایک پھول ہونے کے بجائے خود ایک چمن ہو، جو ایک ذات ہونے کے بجائے خود ایک انجمن ہو۔مولانا عامر عثمانی صاحبؒ بھی کچھ اسی قسم کے انسان تھے۔ ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ تھے،کئی پہلو تھے، ان کی جادوئی تحریر کا مثنوع رنگ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں غیر محدود بھی تھیں اور نوع بہ نوع بھی۔ ہر قلم کار اور ہر فن کار کے تحریر میں کچھ نہ کچھ انفرادیت ضرور پائی جاتی ہے، ہر صاحب قلم کا کوئی خاص موضوع ایسا ہوتا ہے جس پر وہ جم کر گفتگو کرسکے اور جس پر خامہ فرسائی کرنے کا اسے ملکہ ہو۔ مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ ہر موضوع پر لکھ سکتےتھے، ہر انداز میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی قدرت انہیں حاصل تھی۔شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام بہت اونچاہے، ادیب کی حیثیت سے انہیں ماہر وکامل سمجھا جاتا ہے، مبصر کی حیثیت سے وہ بے مثال ہیں، تنقید نگاری میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، محقق کی حیثیت سے ان کی عظمت ورفعت کا صحیح اندازہ لگالینا مشکل ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ سے سننے والوں نے سنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لکھنامولانا کے لئے آسان کردیا تھا۔وہ کسی ایک فن اور کسی ایک خوبی کے مالک نہیں تھے بلکہ بے شمار ذاتی خوبیاں اور علمی رعنائیاں ان کے قلب وقالب میں رچی ہوئی تھیں۔ بظاہر وہ ایک انسانی ڈھانچہ ہی تھے لیکن در حقیقت وہ ایک مکتب تھے ایک لائبریری تھے، ایک کتب خانہ تھے، ایک یونیورسٹی تھے۔ان کی ہمہ جہت شخصیت ملک بھر میں آج بھی اپنا جواب نہیں رکھتی۔دوست دیکھتے رہ گئے، ان کے’’ تجلی‘‘ نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ مذہبی پرچوں میں اتنی مقبولیت کسی پرچہ کو حاصل نہیں ہے اور آج تک اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہندوستان وپاکستان بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی اردو زبان میں کوئی ایسا مذہبی رسالہ نہیں ہے جو ’’تجلی‘‘ کی تعداد اشاعت اور مقبولیت کے برابر تو درکنار آس پاس بھی پہنچتاہو ۔ ’’تجلی ‘‘کی یہ مقبولیت ان کی ہمت ،لگن اور جدوجہد کا نتیجہ تھی۔یا یہ صلہ تھا اس حق پرستی کا جس کی خاطر انھوں نے اپنا چین وسکون تج دیا تھا۔انھوں نے جو بھی لکھا پوری سچائی ایمانداری اور دلیل کے ساتھ لکھا ۔میں ان کے دور میں اس دنیا میں نہیں آیاتھا ،اس لیے ان کے علم کا بجتا ہوا ڈنکا تو نہیں دیکھ سکا ،لیکن آج جب شعور آنکھیں کھول رہا ہے تو’’ تجلی‘‘ پڑھنے کی سعادت نصیب ہورہی ہے۔ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد ان کے علم کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر عمیق مطالعہ تھا ،کس قدر مضبوط دلائل کے ساتھ لکھتے تھے، کس قدر مفصل لکھتے تھے اورکس قدر نڈر ہوکر لکھتے تھے۔شرک وبدعت کے خلاف ان کی عالمانہ تحریریں پڑھنے کے بعد آج اس دور پر فتن میں ان کی بہت یاد آتی ہے ۔آج دیوبند میں جیسے جیسے کارنامے انجام دیئے جانے لگے ان کو دیکھ کر بارہا یہی احساس ہوتا ہے کہ کاش ’’تجلی ‘‘زندہ ہوتا!!! مولانا پونا کے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کی غرض سے گئے، حالانکہ آپ بیمار تھے اور ڈاکٹر نے باہر نکلنے سے منع کیا تھا، لیکن جو اللہ نے مقدر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی ایک نظم بڑے پر درد انداز میں سنائی، اور وہ نظم یہ تھی ع
جنہیںسحرگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
اور دس منٹ بعد وفات پائی۔ مولانا کے انتقال پرعلمی و ادبی دنیا میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا،بعدازاں اخبارات میں تعزیتی مضامین کا تانتابندھ گیا۔ماہر القادری مرحوم نے آپ کی وفات پر ’’فاران‘‘ میں جو تعزیتی مضمون لکھا تھا، اس کی یہ سطریں مرحوم کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتی رہیں گی:’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ طویل و عریض اور عمیق تھا، وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالے اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے، پھر سونے پر یہ سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کوقابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے، ایک ایک جز کی تردید و تائید میں امہات الکتب سے حوالے پیش کرتے، علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے اہل قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔ ‘‘میں نے جب مولانا کے کلام کا مطالعہ کیا تو بڑی حیرت ہوئی کہ کتنی سلاست اور روانی آپ کے کلام میں ہے۔ ایسی دُھلی دھلائی، شیریں اور پیاری زبان کہ بے اختیار دل مچل جائے اور تڑپ تڑپ جائے۔ بڑی بڑی بحروں میں بھی آپ بڑے خوبصورت اور با معنیٰ اشعار کہتے ہیں۔ آپ کے اشعار کے اسی معروضی حسن کی وجہ سے مرکزی مکتبہ اسلامی نے آپ کا مجموعہ ’’یہ قدم قدم بلائیں ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ آپ کی قسم کے ’’تجلی‘‘ میں ایک مستقل مزاحیہ کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ آپ ملا ابن العرب مکی کے نام سے یہ کالم لکھا کرتے تھے۔ کتنا اچھوتا اور طنز و مزاح سے بھر پور اندازِ بیان ہوتا تھا! یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے کے لیے لوگ ’’تجلی‘‘ کے خریدار بننے لگے اور معتقدین عامرؔ عثمانی میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ آپ نے اپنے اس کالم کے ذریعہ ثابت کر دیا کہ طنز ومزاح صرف تفریحی نہیں ہوتا بلکہ مقصدی بھی ہوتا ہے۔ دین اسلام اور مسلمانوں میں جوکمزوریاں قلت علم کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھیں، ان پر آپ بڑی گہری اور کاری چوٹ کیا کرتے تھے اور ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مولویوں کی پیٹ پالو ذہنیت پر بھی آپ چوٹ کرنے سے باز نہ آتے، حالانکہ آپ بھی مولانا تھے۔قدرت کا یہ قانون ہے کہ جو چیز انتہائی معیاری ہوتی ہے وہ زیادہ دن تک برقرار نہیں رہتی۔ قدرت کا یہ قانون آپ کسی بھی چیز پر منطبق کر کے دیکھیں، یقیناً آپ یہ قانون پوری طرح کارفرما پائیں گے مگر کچھ لوگ مر کر بھی بہت یاد آتے ہیں، کچھ کی یادیں بڑی خوبصورت اور دل موہ لینے والی ہوتی ہیں تو کچھ کی یادیں انتہائی تکلیف دہ مولانا۔ عامر عثمانی رحمہ اللہ ایک ایسی علمی ادبی شخصیت ہیں جن کہ یادیں اب بھی ان کے چاہنے والوں کی آنکھوں میں علم وآگہی اور فکر فراست کی چمک پیدا کرتی ہیں ۔
مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ پر لکھنے کی ضرورت ہے یہ علمی دنیا کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے لئے ایک احسان ہوگا۔ آج سے کچھ سال پہلے پروفیسر بشیر احمد نحوی نے گرچہ لکھنے کا آغاز کیا تھا مگر اللہ بہتر جانے پھر کیا ہوا ،ہمارے ہاں لکھنے والوں کی کمی نہیں، بس ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان پر بھی لکھا جائے اور پوری قوت سے لکھا جائے۔