’’تفہیم القرآن‘ ‘نے مسلم دنیاکے ایک وسیع ترعلم دوست اور قرآنی علوم کے رمز شناس طبقے کو خاصا متاثر کیا ہے۔ ا س ارود تفسیر نے نہ صرف جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بلکہ مدارس عربیہ کے فارغین کے ذہنوں کو بھی کھولا اور انہیں وسعت فکر و نظر سے روشناس کیا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب اور مستشرقین کی دسیسہ کاریوں کے شکار لوگوں کی مرعوبیت کو نہ صرف ختم کیا اور اعداء کے مکرو فریب کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ انہیں اقدامی پوزیشن میں کھڑا کیا ہے۔ وہ کتابِ الٰہی جو صرف علماء کے ہاتھوں میں تھی اور جسے عوام محض تبرک اور ثواب کیلئے پڑھاکرتے تھے، مولانا مودودی ؒ نے سادہ اور سہل ممتنع زبان میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کی تالیف کرکے اسے عوام کے ہاتھوں میں پہنچا دیا اور انہیں اس قابل بنادیا کہ اس کتاب کے مدعا اور مفہوم کو کسی حد تک سمجھ سکے۔
کوئی بھی تفسیر اورانسانی کاوش خطا وجھول سے مبرا نہیں ۔ مباحث میں اختلاف کیا جاسکتا ہے اورکیا جاتا ہے۔ جدید و قدیم مفسرین کی طرح مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ کے تفسیر ی مباحث سے اختلات و اتفاق ممکن ہے۔ اسلام نے انسان کو مناسب حدمیں اظہار رائے کا حق دیا ہے لیکن تنقیدکی جگہ جب تنقیص ، خلش ، حسد و رقابت اور معاصرت لے لے تو یہ علماء کی شبیہ متاثر کرتی ہے اور مخالف کی خوبی بھی خامی نظر آجاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘‘ دراصل ’ماہنامہ تجلی ‘‘ دیوبندکے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو اس رسالے کے مدیر مولانا عامر عثمانی مرحوم نے ’’تفہیم القرآن‘ ‘کے ناقدین کے بعض سوالوں کے جوابات اور تفسیری نکتوں کی وضاحت میں تحریرکئے تھے۔ مولاناسیدابوالاعلی مودودی خطاؤں اورلغزشوںسے مبرا نہیں، ان کے تسامحات اور اجتہادی غلطیوں ( اگریہ واقعی ہوں) کی نشاندہی کرتا بشر طیکہ وہ حق و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو،کوئی بری بات نہیں مگر حق یہ ہے کہ ان کے اکثر ناقدین نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو ترک کرکے مخاصمت ، حسد و رقابت کی عینک لگاکر مولانا اور ان کی تحریروں پر ایسی یاوہ گوئی کی کہ شائستہ وسنجیدہ قاری قطعی مطمئن نہیںہوتا ہے اور خود ان خود ساختہ ناقدین کی عقل وفہم پر ماتم کر نے پر مجبور ہوتا ہے۔
علم نبوت کیا کوئی ایسی جائداد ہے جن پر کسی خاندان یا گروہ یا قبیلے کے سوا دوسروں کا کوئی حق نہ ہو ؟ زبان سے تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس کی تائید نہیںکرے گا لیکن ذہنیت ایسی بنائی جا چکی ہے کہ وارث علم النبی ﷺ اور ’’عالم و علامہ‘‘ خواہ ہر زید بکر کو مان لیا جائے مگر مودودی ؒاور ان کے رفقاء اس صف میں نہیں آتے۔ حالانکہ اگر ایمانداری سے علم جانچنے کے اس پیمانے سے کام لیتے جو واقعی پیمانۂ عدل ہے تو ان کو نظر آتا کہ جن حضرات کو وارثین علم نبوت سمجھا جاتا ہے ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ ان کا یہ منصب ان کی خاندانی شہرت اور لوگوں کی خوش عقیدگی کے سوا کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتا۔ انہوں نے عملاً اپنے آٓپ کو’ ’وارث علم نبوی ﷺ‘ ‘ثابت کرنے کے بجائے محض گدی نشینی اور سجادہ نشینی کالبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اس کے بر خلاف مولانا مودودی نے اپنی مسلسل ، مفصل اور مدلل تحریروں سے عملاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کوئی رسمی اور روایتی مولوی نہیں بلکہ واقعتاََ علم دین ان کا اوڑھنا ،بچھونا، ان کا سرمایہ زندگی ، ان کا محبوب ول پسندمشغلہ ، ان کا مرکز فکر و عمل، غرض ان کا سب کچھ ہے ۔ انہوں نے اپنی تمام تر خداداد صلاحیتوں کو اور فکری قوتوں کو دین حنیف کے قدموں پر ڈال دیا۔ زیرتبصرہ کتاب چار طویل ابواب پر مشتمل ہے جن میں ضمنی عناوین قائم کرکے علمی بحث کی گئی ہے۔ تفہیم القرآن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک حرکی اور داعیانہ تفسیر ہے ،جو قاری کو داعی ِحق بنانے کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس کا یہی طرہ امتیاز مشرق و مغرب میں اسے مقبول کرگیا۔ مصنف رقمطراز ہیں:
’مبالغہ نہ ہوگا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ دنیا کی کوئی تفسیرِ قرآن آج تک اتنے کم وقت میں اتنے کثیر ہاتھوں تک نہیں پہنچی ہے ،جتنی قلیل مدت میں’تفہیم القرآن‘اتنے بے شمار ہاتھوںتک پہنچ گئی ہے۔اردو مطبوعات کی دنیا میں تیزترکثرتِ اشاعت کا ریکارڑ قائم کرنے والی یہ تفسیر انشائے لطیف اور ادب عالیہ کا شاندار نمونہ ہونے کے باوجود بالکل عام فہم اور سلیس و شگفتہ بھی ہے۔ ‘‘(ص ۳۵)
’تفہم القرآن‘ کی اس مقبولیت کے پیش نظر مولانا عامر عثمانی ؒ نے عوامی مفاد کی خاطر ان اعتراضات کو پرکھا اور ان کی صحیح حیثیت متعین کی جواس تفسیرپراُس زمانے میںکئے گئے تھے۔ مولانا عامر عثمانی بلند پایہ علمی شخصیت ، زودنویس ادیب اور ناقد تھے۔دارالعلوم دیوبندسے فارغ تھے۔ مولاناغیر جانبدار نہیں تھے بلکہ حق کے طرف دار تھے۔ جماعت اسلامی سے تنظیمی وابستگی تو نہ تھی البتہ حق کے تئیں ان کے غیرت نے انہیں خاموش نہیںرہنے دیا ۔مولانانے علمی و استدلالی تجزیہ کیا، صحیح و غلط کو مبرہن کرکے شکوک وشبہات کورفع کیا۔ ان کا قلم بے لاگ تھا۔ان کامطالعہ عمیق تھا۔وہ جوکہتے تھے عقلی دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے۔ایک ایک جزئیہ کی تائیدیاتردیدمیںاُمہات الکتب کے حوالے پیش کرتے۔علمی مسائل میںان کی گرفت اتنی سخت تھی کہ بقول ماہرالقادری مرحوم، اہل قلم پسینہ پسینہ ہوجاتے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مولانا احمد رضا بجنوری صاحب، مولانا ابوالقاسم دلاوری صاحب ، مولوی عبدالروف رحمانی صاحب ، مولانا انظر شاہ کشمیری صاحب( رحہم اللہ) کے اعتراضات کو رقم کرکے مولانا عامر عثمانی ؒ نے پورے شرح و بسط کے ساتھ مدلل جوابات دئے ہیں۔
مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد مولانا سید احمد رضا نے مولانا مودودی ؒ کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ مساوات مرد و زن کے قائل ہیں، اس کے جواب میں مولانا عامر عثمانی رقم طراز ہیں:۔
’’ محترم سید صاحب اگر واقعی زمین ہی پر رہتے ہیں تو کس قدر حیرت ناک ہے یہ بات کہ وہ مساوات مرد و زن کے معروف اصطلاحی مفہوم و مرادکو نہیں جانتے حالانکہ کوئی بھی عاقل ، بالغ مشکل ہی سے ہوگا جو نہ جانتا ہو کہ یہ نعرہ صرف سادہ سے لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک خاص ذہن اور طرز فکر اور تہذیب کا نمائندہ ہے اور پھر یہ بھی غالباً ہر پڑھا لکھا جانتا ہے کہ مولانا شبلی ؒ یا مولانا آزادؒ یا مولانا مودودی ؒ کوئی بھی اس ذہنیت کا حامی نہیں بلکہ مولانا مودودی کو تو اس ذہنیت کے صف اول کے دشمنوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب’’پردہ‘‘ ہمارے دعوے پر شاہد عادل ہے اور ’’تفہیم القرآن ‘‘ میں یا اور کسی تصنیف میں جہاں بھی انہیں موقع ملا ہے، انہوں نے کھل کرڈٹ کر شدومد کے ساتھ اس تہذیب و تمدن اور اس فکر و ذہن کے بخیے ادھیڑے ہیں، جس کی ترجمانی ’’مردوزن‘‘ کی مساوات کے نعرے سے ہوئی ہے۔‘‘(ص ۷۵)
مولانا نے’ ’تفہیم القرآن‘ ‘میں کئی مقامات پر اس پر بھی بحث کی ہے کہ آیا حضرت حواؑکے کہنے پر حضر ت آدم ؑ سے لغزش ہوئی تھی یا حضرت آدم ؑ خود ہی شیطان کے بہکاوے میں آئے تھے یاشیطان نے ان دونوں کو بہکایا تھا۔ مولانا عامر عثمانیؔ نے’’ تفہیم القرآن‘‘ کی روشنی میں مرد کی قوامیت پر بھی بحث کی ہے۔ (ص ۱۰۴۔۷۰)
کتاب کا دوسرا باب ’’مسئلہ پیدائش آدم و حواؑ‘‘ہے ۔ مولانا مودودی ؒ کی رائے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا ابوالقاسم دلاوری کے مضمون جو کہ ماہنامہ’ دارالعلوم‘ دیوبند نومبر ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا تھا، میں موصوف نے لکھا تھاکہ ’’یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام اس حقیقت پر متفق ہیں کہ ام البشر حضرت حوا ؑ ،جناب آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کی گئیں تھیں۔یہ امر تورات ، قرآن اور احادیث صحیح سے ثابت ہے۔۔۔۔‘‘مولانا عامر عثمانیؒ نے ماہنامہ’’ تجلی ‘‘مئی ۱۹۵۶ء میں مولانا دلاوری صاحب کی اس رائے پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے بدلائل لکھا ہے کہ اگرچہ اکثر مفسرین اس کے قائل ہیں کہ حضرت حوا ؑ کی پیدائش حضرت آدم ؑ کی پسلی سے ہوئی ہے لیکن یہ چونکہ نصّ ِصریح سے ثابت نہیں ہے ،اس لئے جو شخص اس کے خلاف اپنی رائے رکھے، اس پر ملحد اورزندیق کا فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا ۔مولانا مودودی ؒکے علاوہ اور مفسرین بھی اس کے قائل ہیں ۔ مولانا عامرعثمانی مرحوم رقمطراز ہیں:
’’ان عقل مندوں کو اتناہوش نہیں رہا کہ جس چار دیواری میں یہ رہتے ہیں، اس کے باہر بھی دنیا بستی ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ جن چند کتابوں کو انہوں نے پڑھ لیا بس سمجھے کہ اب کوئی کتاب دنیا میں باقی نہیں اور جو مفہوم انہوں نے سمجھ لیا، اس مفہوم کے سوا تمام مفہومات غلط اور باطل ہیں ۔ذرا دیکھئے یہ دین و مذہب کے ٹھیکیدار کسے برملا ملحدوزندیق کہہ رہے ہیں ، علامہ شہیرمولانا ابولکلام آزاد کو ، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب ،سیکریٹری جمعتہ العلماء کو ، علامہ شیخ محمد عبدہ کو ،جناب محمد رشیدرضاکو ، شارح بخاری امام قسطلانی کو، شارح بخاری امام بدر الدین عینی کو اور نہ جانے کس کس کو ، پورا پتہ آپ کو آگے چلے گا جب ہم ان کے دلائل کو کھنگا لیں گے اور اپنے دلائل پیش کریں گے۔۔۔‘‘(ص۱۰۶)
مولوی عبدالروف رحمانی صاحب نے اس بات کو اپنے ایک مضمون میں زیر بحث لایا تھا جو کہ ماہنامہ’’ دارالعلوم‘‘ بابت ماہ اپریل ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں مولوی صاحب نے دعویٰ کیا کہ مولانا مودودی ؒ کے نزدیک صحاح ستہ بلکہ جامع صحیح بخاری کی صحت بھی مستند و قابل اعتبار نہیں۔ اس بے بنیاد الزام کی تردید کیلئے مولانا عامر عثمانیؒ کا بے لاگ قلم ’’تجلی‘‘ ماہ مئی ۵۶ ء کے صفحات پر استدلال کے ساتھ رواں دکھائی دیا تھا۔ اس علمی بحث کو بھی زیر تبصرہ کتاب میں جگہ ملی ہے۔
کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ’’تفہیم القرآن ہر بعض متفرق اعتراضات ‘‘ ہے ۔ تفہیم کے حوالے سے مولانا عامر عثمانیؒ سے متفرق گیارہ سوالات پوچھے گئے تھے۔ مولانانے ان استفسارات کو ’’تجلی‘‘ کے مختلف شماروں میں جگہ دی تھی اور پھر تسلی بخش علمی جوابات تحریر کئے۔ کتاب کے چوتھے باب کاعنوان’’مسئلہ ظہورِ مہدی‘‘ ہے۔ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘دیوبند ،(مارچ ۱۹۵۶ء)میں مولانا انظرشاہ کشمیری مرحوم کامضمون’’مسئلہ ظہورمہدی حدیث کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے مولانامودودیؒ کی ردمیں شائع ہواتھا،جس میں انہوں نے لکھاتھاکہ مولانامودودیؒ خودمہدی بننے کاخواب دیکھ رہے تھے۔فضاسازگارنہیںپائی توظہور مہدی کے منکرہوگئے۔مزیدبراںمولاناانظرشاہ صاحب نے جو’’القاب وخطابات‘‘ اپنے مضمون میںمولانا مودودیؒ کودیے ،مولاناعامرعثمانی ؔ وہ سب نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:۔
’’میںسمجھتاہوںجس مسلمان نے مولانامودودیؒ کی سب نہیںتوبہت سی تحریریںپڑھی ہیں،وہ خواہ ان کاکیساہی مخالف ہولیکن اگردیانت اورضمیرکاحبہ بھی اس کے اندرباقی ہے،توانظرشاہ صاحب کے مزکورہ بالا’’ارشاداتِ عالیہ‘‘پروہ دانتوں میںانگلی دباجائے گا۔۔۔‘‘(ص۱۸۴)
مولاناعامرعثمانی مرحوم نے ان احادیث کوجو’’ظہورمہدی‘‘کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں اورمولاناانظرشاہ مرحوم نے بھی اپنے مضمون میں تحریرکی تھیں،ان روایات کی اصل حقیقت کوواضح کرنے کی کوشش کی ہے اورمولانا مودودیؒ پرلگائے گئے ،مولاناانظرشاہ مرحوم کے بے سروپاالزامات کی تردیدکرتے ہوئے شرح وبسط کے ساتھ مدلل گفتگوکی ہے۔مولاناسیدابوالاعلی مودودیؒ کی تفسیرسے عالمانہ اختلاف ِرائے کاہرشخص مجازہے لیکن ہرکہہ ومہہ کواس وادی میںقدم رکھ کرعلمی فضاکومکدرنہیںکرناچاہئے۔
کتاب میں جومباحث موجودہیں،اس حوالے سے وادی کشمیرکے ہردلعزیزمحقق ڈاکٹرغلام قادرلون صاحب (حدی پورہ،بارہمولہ)کتاب کے مقدمہ میں رقمطرازہیں کہ’’زیرنظرکتاب کی اشاعت کامقصد کسی قسم کی دلآزاری یامسلمانوںمیںافتراق و انتشارکوہوادینانہیںہے بلکہ اصل مقصد’’تفہیم القرآن‘‘کے بارے میںان اشکالات کودورکرناہے جوبعض حلقوں کی طرف سے اس گراںقدرتفسیرکے بارے میںعام قارئین میںعام کی جارہی ہیں۔‘‘(۱۷)
کتاب کی کمپوزنگ میںکہیںخامیاںبھی راہ پاگئی ہیں۔حوالہ جات دیتے ہوئے فانٹ(Font) میںکچھ فرق ہوناچاہئے تاکہ وہ سطورممیزہوتے لیکن ایک ہی فانٹ شروع سے آخرتک رکھاگیاہے جوکہ تحریرکے حُسن کوکم کررہاہے۔علاوہ ازیںکتاب کے آغازمیںمولف موصوف نے ’’مولانامودودی اربابِ علم ودانش کی نظرمیں‘‘کے عنوان کے تحت کچھ علماء کی آراء رقم کی ہے ،جن میںالشیخ محمدالبشیرالابراہیمی ،علامہ یوسف القرضاوی،مولاناعبدالماجد دریابادی، مولانا مناظراحسن گیلانی،مولاناقاری محمدطیب،حامدکمال الدین صاحب قابل ذکرہیں لیکن حوالے قلم اندازکیا گیاہے۔بہترہوتاکہ ہرایک کی رائے کے ساتھ حوالہ بھی موجودہوتا۔
الحرمین پبلکیشنز،گائو کدل سرینگرکے مدیرقابل صد تبریک ہیں۔انہوںنے تاحال متعددعلمی کتابیںاپنے ادارے سے شائع کی ہیں۔زیرتبصرہ کتاب’’تفیہم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘‘کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مصنف وناشرکی گراںقدرخدمت ،خاص وعام کے مطالعہ کے قابل ، کتاب مستندحوالوں سے مؤثق ہے۔امیدہے علمی حلقوںمیںاسے پذیرائی ملے گی اور’’تفہیم القرآن‘‘ وصاحب ِتفہیم سے بدظن ہوئے افرادبھی نیک نیتی کے ساتھ اس کتاب کاوسعت قلبی کے ساتھ مطالعہ کریںگے۔