مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بر صغیر پاک و ہند کے صفِ اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ مولانا بیسویں صدی کے ایسے فلسفی اور دانشور ہیں جن کی کُتب کا دنیا کی ۳۵ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چُکا ہے اور اِن کتابوں کے مطالعہ سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں صالح انقلاب آ چُکا ہے۔ یورپ، امریکہ، مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کی یونیورسٹیوں میں آپ کی کتب پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ مولانا کا قاری اگر تعصب اور بے جا ضد کا شکار نہ ہو تو پہلی بار ہی مولانا کے حسنِ تحریر کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان کی تحریر عام فہم، سادہ اور جدید اردو نثرکا بہترین نمونہ ہے۔ اُردو نثر میں ن کی انفرادیت ا یک مسلمہ حقیقت ہے۔ صحت زبان کا جس قدر اہتمام مولانا کے ہاں ملتا ہے، شاید ہی کسی اور کے ہاں ایسا اہتمام نظر آئے۔ ممتاز قانون دان اے-کے- بروہیؔ لکھتے ہیں:
’’ مولانا کی تحریر جیسا کہ میں سمجھ پایا ہوں ایک اسکالر کے ڈھانچے میں ڈھل کر نکلی ہے۔ وہ دلیل کو اس خوبی اور قوت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ہم اُن کو اُردو زبان کے عظیم ترین نثر نگار ہی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ وہ اختصار اور جامعیت کے بادشاہ ہیں۔ وہ الفاظ کو بار بار استعمال نہیں کرتے۔ میں اردو زبان میں مذہبی اور دینی موضوعات پر لکھنے والے اور کسی ادیب سے واقف نہیں جو اپنے نقطۂ نظر کو اس قدر عالمانہ، مربوط اور جامع انداز میں پیش کرتا ہو، جو مولانا مودودی کا خاصہ ہے۔‘‘ ( ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، ۱۹۸۹ء)
مولانا مودددی نے جس زمانے میں اپنا تصنیفی کام شروع کیا، اس وقت مذہبی ادب میں بھی ادبی معیار کی طلب ہونے لگی تھی۔ مذہبی تحریروں میں ادبیت کے جوہر کی پیدائش کا عمل مولانا کے زمانۂ تصنیف سے کچھ پہلے شروع ہو چکا تھا، جس میں نمایا ں ترین نام مولانا ابو الکلام آزادؔ ہے۔ مولانا آزاد نے دینی حقائق و دینی موضوعات کو ایک ادبی نہج دیاتھا۔ اس کو اپنے زمانے میں موجود بلند معیاراتِ نثر پر ظاہر کر کے دکھا یا۔ اس ماحول میں جہاں مولانا آزاد مذہبی مضامین اور ادبی اظہار کو جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، مولانا مودودی نے وہاں سے اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز فرمایا اور ابتداء ہی میں مولانا آزاد کا کوئی بھی اثر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ یعنی مولانا مودودی کی کسی بھی تحریر پر اپنے جید مذہبی ہم عصر کا کوئی اثرنہیں ہے۔ مولانا آزاد کے مصطلحات روایتی نہیں۔ آزاد اپنی اصطلاحوں کو استعمال کرتے تھے جو اُن سے قبل استعمال ہوتی آر ہی تھیں۔ وہی معرب اور مفرّس فضا ابوالکلام نے ہی قبول کی تھی۔ آزاد کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پرانی اصطلاحات کو بر قرار رکھتے ہوئے ان کے بیان میں ایک ادبی روانی اور شکوہ پیدا کیا۔ ابو الکلامؔ آزاد ایک رواں زبان لکھنے والے تھے، آسان زبان لکھنے والے نہیں تھے۔ مذہبی موضوعات کو روانی ابو الکلام ؔنے دی۔ لیکن عبارت کی سلاست مولانا مودودی نے دی ہے۔ ابو الکلام کی نثر میں عربیت اور فارسیت کا جو غلبہ تھا، مولانا مودودی نے اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں پہلی مرتبہ اُردو پن پیدا کر کے دکھایا، یعنی جس زبان میں لکھ رہے ہیں، اس زبان کا ذائقہ ، اس زبان کا روز مرہ اور لسانیاتی ڈھانچہ َصرف کر کے دکھایا۔ کسی دوسری زبان سے کوئی بنیادی قوت لیے بغیر مولانا کا پہلا ادبی کارنامہ مذہبی لٹریچر میں ہے۔ مولانا نے قدیم اصطلاحات کو جدید ذوقِ لسان کے لیے قابلِ فہم بھی بنایا اور قابلِ قبول بھی۔
مولانا کی تحریر کا جو آہنگ و اسلوب ہے، وہ اتنا زیادہ بلند اور خطیبانہ ہے کہ پڑھنے والا پہلے ہی قدم پہ یہ تصور کر لیتا ہے کہ تأثر مبالغہ آمیز اور عارضی ہے۔ ابو الکلام اپنے قاری میں جذبات اُبھارتے ہیں لیکن قاری کے طرزِ احساس تک رسائی نہیں رکھتے۔ یہ مولانا مودودی کا کمال ہے کہ انھوں نے کبھی اپنے قاری کے جذبات کو مخاطب نہیں کیا۔ ان کی تحریر اپنے فہم اور دینی تاثیر دونوں میں بتدریج ہے۔ وہ قاری کو اپنی فضا سے نکلنے نہیں دیں گے۔مقصدکی بالادستی اورحسنِ اداکامعیارمولانامودودی کی نثرمیںبدرجہ اتم موجودہے۔چنداقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن کے آئینہ میںمعیاری نثرکی تصویردیکھی جاسکتی ہے:
ــ’’خوشبوبھی ان قاصدوںمیںسے ایک ہے،جوایک نفسِ شریرکاپیغام دوسرے نفسِ شریرتک پہنچاتے ہیں۔یہ خبررسانی کاسب سے زیادہ لطیف ذریعہ ہے،جس کودوسرے خفیف ہی سمجھتے ہیں۔مگراسلامی حیااتنی حسّاس ہے کہ اس کی طبع نازک پریہ لطیف تحریک بھی گراںہے۔وہ ایک مسلمان عورت کو اس کی اجازت نہیںدیتی کہ خوشبو میںبسے ہوئے کپڑے پہن کرراستوںسے گزرے یامحفلوںمیںشرکت کرے کیونکہ اس کاحسن اوراس کی زینت پوشیدہ بھی رہی توکیافائدہ،اس کی عطریت توفضامیںپھیل کرجذبات کومتحرک کررہی ہے۔‘‘ (پردہ،ص ۲۶۹۔۲۶۸)
مولانامودودی کی مشہورکتاب’’پردہ‘‘ میں استدلال،فکروبصیرت اورادب وانشاء کی دوسری خوبیوں کے ساتھ رنگینی اوررومانیت بھی پائی جاتی ہے۔ماہرالقادری ؔ کے بقول،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اگروہ ناول نگاری کی طرف توجہ کرتے توکتنے بڑے ناولسٹ ہوتے!
پردے کے مخالف کہتے ہیں کہ پردہ عائدکرنابداعتمادی کی دلیل ہے،گویاتمام مردوںاورعورتوںکوبدچلن فرض کرلیاگیاہے۔مولانا اپنے دلنشین اورادیبانہ اندازمیںاس کاجواب دیتے ہیں:’’اسی طرزِاستدلال کوذراآگے بڑھائیے۔ہرقُفل جوکسی دروازے پرلگایاجاتاہے گویااس امرکااعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیاکوچورفرض کرلیاہے۔ہرپولیس مَین کاوجوداس پرشاہدہے کہ حکومت اپنی تمام رعایاکوبدمعاش سمجھتی ہے۔ہرلین دین پرجودستاویزلکھوائی جاتی ہے،وہ اس امرکی دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کوخائن قراردیاہے۔۔۔۔اس طرزِاستدلال کے لحاظ سے توآپ ہرآن چور،بدمعاش،خائن اورمشتبہ چال چلن کے آدمی قراردئے جاتے ہیں۔مگرآپ کی عزتِ نفس کوذراسی ٹھیس بھی نہیںلگتی،پھرکیاوجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میںآپ کے احساسات اتنے نازک ہیں؟‘‘ (تفہیمات۔ص۲۲)
مولاناکی تحریروںمیںدلّی کی ٹکسالی زبان اورروزمرہ کارچائو پایاجاتاہے،لکھتے ہیں:
’’انسانی زندگی اورتہذیب کوجتنی ضرورت غلظت،شدّت اورصلابت کی ہے،اتنی ہی ضرورت رقت،نرمی اورلچک کی بھی ہے۔جتنی ضرورت اچھے مدبروںاوراچھے منتظمین کی ہے،اتنی ہی ضرورت اچھی مائوں،اچھی بیویوںاوراچھی خانہ داروںکی بھی ہے۔دونوںعنصروںمیںسے جس کوساقط کیاجائے گا،تمدّن بہرحال نقصان اٹھائے گا۔‘‘
’’صنف ِمقابل کے لئے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میںاتنی بڑھ گئی ہے اوربڑھتی جارہی ہے کہ شوخ وشنگ لباسوں،غازوں،سرخیوںاوربنائو سنگھارکے نت نئے سامانوں سے بھی اس کی تسکین نہیںہوتی،بے چاری تنگ آکرکپڑوںسے باہر آکرنکلی پڑتی ہے۔‘‘
’’زمانہ کے تغیرات سے مظاہرمیںخواہ کتناہی تغیر ہوجائے،حقائق میںکوئی تغیرواقع نہیںہوتا۔علم اوروہم میںجوفرق آج سے دس ہزارسال پہلے تھاوہی آج بھی ہے اورقیامت تک رہے گا۔ظلم اورعدل جوحقیقت دوہزارقبل مسیح تھی،وہی دوہزاربرس بعدمسیح بھی ہے۔جوچیزحق ہے،وہ چین میںبھی ویسی ہی حق ہے جیسی امریکہ میںہے اورجوچیزباطل ہے،وہ کالے کے لئے بھی اسی طرح باطل ہے،جس طرح گورے کے لئے ہے۔‘‘ایک اورجگہ لکھتے ہیں:
ــ’’دنیامیںانقلاب کی رفتاربہت تیزہے اورروزبروزتیزترہوتی چلی جارہی ہے،پہلے جوتغیرات صدیوںمیںہواکرتے تھے،اب وہ برسوںمیں ہورہے ہیں۔پہلے انقلاب بیل گاڑیوں اورٹٹووںپرسفرکیاکرتاتھا،اب ریل،تار،اخباراورریڈیوپرحرکت کررہاہے،آج وہ حالت ہے ؎
یک لحظہ غافل بودم وصدسالہ راہم دورشد‘‘
مولانا مودودی قاری پر غالب آنے والے جذبات کو جس طرح سے قابو میں رکھ کر دکھاتے ہیں، مذہبی لٹریچر میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ ان کے محاسن میں سے ایک ادبی حسن یہ ہے کہ انھوں نے مذہبی حقائق کو بیان کرنے کی وہ سطح حاصل کر کے دکھائی جو اُس زمانے کے بہترین ذہن نے پیدا کی۔ مولانا مودودی اپنے ہر بیان میں ، ہر مضمون میں ذہانت کی بلند ترین سطح کو اپنے تابع رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک آدمی طے شدہ حقائق کو غیر مذہبی حقائق میں بیان کر ے کہ جن کی صورت بھی تبدیل نہ ہو سکے اور مفہوم بھی بدل نہ سکے۔ مخصوص وا علیٰ نقشے میں کھڑے ہو کر بدلتے ہوئے ذہنی معیارات سے پیدا ہونے والی سطحوں کو اپنے تابع رکھنا، ایک پیغمبرانہ کام ہے۔ یہ پیغمبروں کی اصل روایت ہے جس کا ایک عالم وارث ہونا چاہیے اور اس پیغمبرانہ روایت کے آخری اور مکمل وارث ، اب تک، مولانا مودودی تھے۔ قرآن کریم کی تفسیر وں کا گذشتہ صدیوں میں ایک سیلاب آیا۔ جس تفسیر نے اپنے زمانے کے اعلیٰ ترین ذہنوں کی زندگی اور سوچنے کا انداز سب سے زیادہ تبدیل کیا وہ ’’ تفہیم القرآن‘‘ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ بیشتر ایسے لوگ ہیں جو اعلیٰ درجے کی فلسفیانہ بصیرت رکھتے ہیں اور اچانک کسی وجہ سے انھوں نے تفہیم القرآن کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور دورانِ مطالعہ ہی میں وہ اتنے بدل گئے کہ خود پہچانے نہیں جاتے ۔ ’’ تفہیم القرآن‘‘ میں مولانا کی تحریر میں جو ذہنی ارتقاء پایا جاتا ہے اس کے بارے میں ان کے برادر اکبر سید ابو الخیر مودودی تحریر فرماتے ہیں:
’’ ابو الاعلیٰ کے اسلوبِ تحریر کو پختہ اور منفرد بنانے میں ایک واضح نصب العین اور مرتکز مطالعہ کا کام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ خصوصاً ۱۹۴۵ء کے بعد ان کا مطالعہ ہر لحاظ اور ہر حیثیت سے ایک فکر پر مرتکز ہے۔ وہ جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے معروضے اور محور کے گرد پڑھتے ہیںا ور پھر اسے اپنے دلنشین اسلوب کے ذریعے دلوں میں ترازوں کر دیتے ہیں۔ آپ ابوالاعلیٰ کے اسلوب ِ تحریر اور ان کے ذہنی ارتقاء کا صحیح اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو تفہیم القرآن کا مطالعہ اس نظر سے کریں کہ وہ مولانا کی زندگی کا ایک سچا آئینہ ہے۔‘‘ (سیارہ،لاہور )
مولانا مودودی کی فکر جس طرح لوگوں کوقائل اورمتاثر کرتی ہے، اس عمل میں ان کے اسلوب کی ادبیت کا حصہ ان کی فکری عظمت سے کم نہیں۔ اُردو کی پوری روایت میں کوئی ایسی ادبیت دیکھنے میںنہیںآتی، جس کے ادب کی اپنی تاثیر نے حق، خیر اور جمال کے اتنے مظاہر تخلیق کیے ہوں جتنے مولانا مودودی کی کتابوٓں سے وجود میں آئے ہیں۔ ادب ِ عالیہ کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ چیزوں کو حق، خیر اور جمال کے نمونے میں پیش کرتا ہے۔ یہ ادب کی آخری تعریف ہے۔ اس آخری تعریف جس پر شیکسپیر کو پرکھا جاتا ہے ، فردوسیؔ ، میرؔ اور حافظؔ پر کھے جاتے ہیں۔ اس آخری معیار کا مولانا مودودی پر اطلاق کریں تو حیرتناک نتائج سامنے آتے ہیں کہ ادبِ عالیہ کی یہ آخری تعریف اور معیار، مولانا مودودی بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے زیادہ پورا کرتے ہیں۔ اردو کے لسانیاتی مزاج کا کس خوبی سے مولانا نے خیال رکھا ہے، اس بارے میں احمد جاوید( ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی، لاہور) فرماتے ہیں کہ:
’’ جن لوگوں کو اردو نثر کی ساخت کا تجربہ، علم اور ذوق ہے، وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ Punctuatedجملہ لکھنا اُردو کے لسانیاتی مزاج کے خلاف ہے۔ Punctuated جملہ وہ نہیں ہوتا کہ ایک جگہ کوما، کالن، سیمی کالن ڈالنے کی ضرورت پیش آئے۔ ایسا جملہ لکھیں کہ آپ کو Punctuation کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یہ Punctuation اُردو کی جملہ بندی، اُردو کی تحریری روایت ، اُردو کے لسانی مزاج کے لیے اجنبی چیزیں ہیں۔ ہماری Perception وہ ہے جو اجزاء کو جوڑ کر بنانے والی کوئی Perception نہیں ہے۔ ہماری Perception وہ ہے جو خود اپنے بہائو میں مسلسل رہے۔ یہ ہمارا عملِ ادراک ہے اور یہ ہماری پیدا کردہ زبانوں کا اصل مزاج ہے۔ جملہ لمبا ہو لیکن اس کی روانی ایسی ہو کہ اس میں کوئی جوڑ لگانے کی آپ کو ضرورت پیش نہ آئے۔ مولانا مودودی نے بہت لمبے لمبے فقرے لکھے ہیں۔ مولانا کے بعض فقرے عام طور پر چار چار جملوں کے برابر ہیں لیکن مولانا کے طویل ترین فقروں میں بھی Punctuation کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا کا مضمون اپنے اس تسلسل کے ساتھ بیان ہو جاتا ہے جو ہماری تہذیبی اور مذہبی Perception کا خاصہ ہے۔‘‘ (ماہنامہ سیارہ، لاہور، اشاعتِ خاص ستمبر ۲۰۱۱ء)
مولانا مودودی کی تحریر دماغ اور طبیعت کو بہر حال متاثر کرتی ہے۔ یہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے ۔ مولانا مودودی لا ریب بڑے ادیب ہیں۔ ان کا استعمال کیا ہوا لفظ اپنے معانی میں اتنا مکمل ہوتا ہے کہ عقل اس کے احاطے میںآنے پر مائل ہو جاتی ہے اور اپنی تاثیر میں اتنا شدیدہوتا ہے کہ طبیعت اس کے رنگ میں ڈھلتی جاتی ہے۔ مولانا عصرِ حاضر میں اردو نثر کی اہمیت، اس کے منصب اور اس کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے قلم نے کبھی ادبی لغزش نہیں دکھائی۔ آپ کو اختصار کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔بحث برائے بحث اور طوالت سے مولانا نے ہمیشہ اجتناب کیا۔ الفاظ کی تکرار آپ کے ہاں نہیں ملتی۔ پاکستان کے مشہور دانشور سراج منیرؔ لکھتے ہیں:
’’ مولانا مودودی کے اسلوب کا ایک بنیادی وصف یہ ہے کہ ان کی بات کو دو طرح سے نہیں سمجھ سکتے ۔ اپنی تحریر میں وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہی ان کا مقصود ہے اور اس چیز کو اپنے قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ مولانا کی تحریروں کے اس قدر وسیع اثاثے کے باوجود ان کی تحریروں میں منطقی فٹنگ اتنی زبر دست ہے کہ آپ ان کے ہاں کسی استدلال کو دوسرے استدلال سے لڑا نہیں سکتے۔‘‘( تذکرۂ سید مودودی، ص ۳۷۳)
مولانا مودودی نے اپنی ذاتی پسند پر ۱۹۱۸ء میں جب ان کی عمر ۱۵ سال تھی، عملی صحافت کا آغاز کیا اور بجنور کے مشہور اخبار ’’ مدینہ‘‘ کے عملۂ ادارت میں رہے۔ ۱۹۲۰ء میں انھوں نے روزنامہ ’’ تاج‘‘ جبل پور کی ادارت سنبھالی۔ بعد ازاں اخبار’’ مسلم‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ ۱۹۲۴ء میں مولانا محمد علی جوہرؔ نے اپنے اخبار’’ ہمدرد‘‘ کی ادارت پیش کی، مگر انہی دنوں مولانا کو جمعیت العلمائے ہند کی طرف سے جمعیت کے ترجمان ’’ الجمعیت‘‘ کی ادارت کی پیش کش کی گئی ، جو انھوں نے قبول کرلی۔ ۱۹۳۲ء میں ان کی کتاب ’’ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘‘ شائع ہوئی، جس نے تہلکہ مچا دیا۔ ۱۹۴۲ء میں مولانا مودودی نے شہرۂ آفاق تفسیر ’’ تفہیم القرآن ‘‘ کو لکھنے کا آغاز کیا اور صد ہا ذہنی، جسمانی اور سیاسی الجھنوں کے باوجود مکمل کیا۔ مولانا نے اپنی زندگی میں سو سے زائد تصانیف سپردِ قلم کیں۔ وہ ایک علم دوست ، صاحبِ قلم ، انشاء پرداز اور محقق و عالمِ دین تھے۔ ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی ، لاہور احمد جاوید فرماتے ہیں:
’’ مولانا کا مزاج کسی عام فلسفی، عالم یا ادیب کا مزاج نہیں تھا—– اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ تم نے ایسا کوئی آدمی دیکھا ہے، جو دین کا بنا ہوا ہو، تو میں کہوں گا کہ دیکھا ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ تم نے کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے لاکھ گز کپڑا سفید دے کر بھیجا ہو، زندگی کا لاکھ گز کپڑا، کہ خبردار اس پر کہیں دھبہ نہ آنے پائے، تم نے ایسا آدمی دیکھا ہے جو اس لاکھ گز کپڑے کو ایک معمولی دھبے سے بھی بچا کر لے گیا ہو، تو میں کہوں گا ہاں میں نے دیکھا ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ تم نے رسول اللہ ؐ کے اسوہ حسنہ یعنی اخلاق اور جمالیاتی فضائل کا کوئی زندہ مظہر دیکھا ہے تو میں کہوں گا ہاں، دیکھا ہے۔ ان سب سوالوں کے جواب میں، میں کہوں گا کہ ہاں ایک کو دیکھا ہے، اور ان تینوں جگہ ایک سے مراد مولانا مودودی ہی ہوں گے——— ہم دھوکے میں اپنی دنیا کسی کو سونپ سکتے ہیں، لیکن یہ دعا نہیں کر سکتے کہ یا اللہ میرا حشر ان کے ساتھ کر دینا۔ تو یہ میری سعادت ہے اور میں یہ دعا باقاعدگی سے کر تا ہوں۔‘‘ ( ماہنامہ سیارہ، لاہور اشاعتِ خاص ستمبر ۲۰۱۱ء ص ۲۱۲)
مولاناسیدابوالاعلٰی مودودی کی تحریریںپڑھ کریاس،قنوطیت،بے زاری اوربے دلی کی جگہ جوش،ولولہ،جرات اورامیدپیداہوتی ہے۔غلامی،سود،تعددازدواج،ضبطِ ولادت،جہاد،قتلِ مرتدجیسے مسائل میںمولانانے مدافعت اورمعذرت کی بجائے اقدام،مسابقت اورفخروبے باکی کا اندازاختیارکیاہے۔حق کے معاملے میںدب کربات کرناانہیںنہیںآتا۔وہ مادی افکارجن پرمغرب کوبڑانازہے،اُن کومولانامودودی نے بیچ چوراہے پر ننگا کردیاہے۔جاہلیت پران کی جوضرب پڑتی ہے وہ شاہ ضرب ہوتی ہے۔اردوزبان میںمولانامودودی کی تحریروںپرادبِ عالیہ کااطلاق ہوتا ہے۔فکربھی بلنداور اسلوبِ اظہاربھی حسین،اسی کو’عروسِ جمیل درلباسِ حریر‘ کہاجاتاہے۔صورت ومعنی دونوںدلکش اوراُن کوپڑھتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ کسی گلستاںمیںآگئے۔
مولانامودودی کافطری رجحان نثرکی طرف رہا۔ان کی شاعری کی عمربڑی مختصرہے۔سوائے ایک غزل کے ،ان کی غزلیںابھی تک منظرِعام پرنہیںآئی ۔طالبؔ تخلّص رکھتے تھے ؎
فطرت کی کانِ سنگ کاحاصل نہیںہوںمیں
پگھلوں نہ غم سے کیوںکہ ترادل نہیںہوںمیں
مولاناکاشعروادب پربھی کافی مطالعہ تھا۔فیض احمدفیضؔ فرماتے ہیں:’’مولانامودودی کااردو،فارسی،عربی،شعروادب کابھی خاصامطالعہ تھا۔۔۔وہ ہم سے شعرسنتے تھے۔ان میںشعروسخن کاذوق تھااورتنقیدی حِس بھی۔‘‘(تذکرئہ سیدمودودی،جلدسوم۔ص ۵۴۵)
مولاناکے ہاںشعری محفلیںبھی گرم ہوتی تھیں۔وہ شعراء کے اشعارسنتے اور ان کیدادبھی دیتے تھے۔انہوںنے ایک مشاعرے کی صدارت بھی کی،جس میںشہنشاہِ تغزل جگرمرادآبادیؔ بھی تشریف فرماتھے۔ماہرالقادری ؔبھی مولاناکے شعری ذوق کے حوالے سے رقمطرازہیں:
’’ایک دعوت میںمولانامودودی نے فانی بدایونیؔ کی اس غزل کی،جس کامطلع ہے ؎
گل خزاںکے رازکامحرم نظرآیامجھے
رتبسم پردہ دارِغم نظرآیامجھے
بہت تعریف کی۔فانیؔ نے کہا’مولاناآپ کوغزل پسندہوتولکھ کر دے دوں۔‘مولانا مسکراکربولے:ضرور،میرادل یہی چاہتاتھامگرغیرت نے گوارانہ کیاکہ آپ سے غزل کے لئے سوال کروں۔‘‘(مولانامودودی اپنی اوردوسروںکی نظرمیں۔ص۲۳۹)
صد حیف مولانا کی قدر مذہبی ’’ رہنمائوں‘‘ نے جانی اور نہ ہی ادبی دنیا کے ’’سورماؤں‘‘ نے اس جانب نظر التفات کیا۔ حالانکہ مولانا مودودی کی نثر نگاری کی کرامت ہے کہ جو با ت کہی وہ ہمارے ذہن کو استدلال کی بنیاد پر متاثر کرتی ہے اور قاری کی طبیعت کو حسن ِاظہار کی بنیاد پر تسلیم کراتا ہے۔ اردو دنیا اُن کے پایے کا نثر نگار، ادیب و انشاء پرداز لانے میں قاصر ہے۔مولانا مودودی کے اسلوب اور فن کے بارے میں غیر جانبدارانہ رائے یہی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے بعد ڈیڑھ صدی تک مولانا کے علاوہ کوئی ایسا ادیب، محقق اور قرآن و حدیث کا ماہر نہیں ملتا جس نے ان جیسا اسلوب اختیار کیا ہو اور جس کی اپروچ اس قدر منطقی ہو کہ قائل ہوئے بغیر چارہ نہ رہے۔
……………………..
رابطہ:ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو،کشمیریونیورسٹی سرینگر