شگفتہ حسن
کچھ وقت پہلے تک سوشل میڈیا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا تھا لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا مگر آج کل سوشل میڈیا نوجوانوں، گھریلو عورتوں اور بچوں میں گندگی فحاشی پھیلانے کا کام کر رہا ہے۔ لوگ جانتے بوجھتے بھی اس کے شکار بننے سے اپنے آپ کو نہیں روک پاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا لوگوں میں فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ کچھ لوگ پیجز بنا لیتے ہیں پھر ریلس اور سٹیٹس سٹوریز پہ گانے شیئر کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے، ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑیگا جبکہ فحاشی پھیلا کر ایک تو ہم خود گناہ گار ہوتے ہیں اور ساتھ میں دوسروں کو بھی گناہ گار بناتے ہیں۔ اور جو لوگ میوزک کے شوقین ہوتے ہیں وہ بھی ہر وقت ان میوزک ویڈیوز سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں موسیقی ناسور کی طرح پھیل گئی ہے۔ آج کل مرد کی آواز کو عورت کی آواز کی طرح بنانا اور عورت کی آواز کو مرد کی طرح بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ ان لوگوں کو نہیں پتہ کہ ہم میوزک کے ساتھ ساتھ بےحیائی اور مغربی تہذیب پھیلا رہے ہیں۔ چناچہ اگر ہم قرآن یا حدیث سے رجوع کریں تو ان کے اندر موسیقی سے متعلق کوئی واضح حکم نہیں ہے تاہم بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ موسیقی سے دور رہنا چاہیے اور اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ میوزک حرام ہے۔
ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزواً اولئک لھم عذاب مھین۔ (سورۃ لقمان آیت ۶)
ترجمہ: ’’ اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں، تاکہ اُن کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائے، اور اُس کا مذاق اڑائے۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا‘‘۔ بعض علماء نے لہو الحدیث (بیکار گفتگو ) سے موسیقی کو مراد لیا ہے۔ حالانکہ احادیث میں متعدد مواقع پر موسیقی کا ذکر آیا ہے لیکن ہمیشہ ناموافق طریقے سے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ شریف)
فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب” فتاوی تتار خانیہ” میں لکھا ہے کہ لھوولعب کی چیزوں یعنی ساز اور باجو کا سننا حرام اور سخت گناہ ہے۔نبي رحمت صلى الله عليه وسلم بقول: ليكوننَّ من أمتي أقوام، يستحلُّون الْحِرَ والحرير، والخمر والمعازف۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات و احادیث ہیں جن سے موسیقی میوزک کا حرام ہونا ثابت ہے۔ (بخاری)
حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا :اے نافع کیا تم کچھ سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں! انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریمؐ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا، جیسا میں نے کیا۔ (مشکوٰۃ شریف)
بعض لوگ موسیقی اور گانے سننے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ کھانا کھانے کے وقت، چلتے پھرتے، کام کرتے، جم کے اندر، گاڑیوں میں، دکانوں میں، گھروں میں، یہاں تک کہ سوتے وقت بھی گانے سنتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں، جن کا سفر میوزک سنے بغیر نہیں گزرتا۔
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جو شخص موسیقی اور گانے سننے کا عادی یا شوقین ہوتا ہے، وہ دین سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں موسیقی صرف اس وجہ سے حرام تھی کہ اس میں راگ اور راگنیوں کی آوازیں شامل ہوتی تھیں لیکن آج تو اس میں عیاشی اور فحاشی کی طرف مائل کرنے والے پس منظر پیغام بھی شامل ہوتے ہیں ،لہٰذا موسیقی پہلے سے کئی گنا زیادہ درجے کی حرام ہوگئی ہے۔ پہلے زمانے میں موسیقی سننے والے کے اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا تھا آج تو موسیقی سننے والے کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا موسیقی سننا حرام ہے۔
میوزیک کے بہت نقصانات ہیں ۔ یہ ایک شیطانی عبادت ہے اوریہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو ہمارے روحانی دل کو کانوں کے ذریعے تباہ کرتی ہے۔یہ ہمارے وقت کو ضایع کرتا ہے۔اس سے انسان بے حس ہو جاتا ہے، والدین جتنی نصیحتیں کریں وہ اس پر اثر ہی نہیں کرتیں۔اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے ، یہ قلب و روح کے مرض، اس کی سختی اور اخلاقی فساد کا جڑ ہے۔ یہ ذکرِ الٰہی، قرآن پاک کی تلاوت اور نماز سے دور کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ مومن وہی ہے جو اس کے قریب بھی نہ جائے۔ہمیں اس قسم کی بےحیائی سے بچتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت اور زیادہ سے زیادہ سننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں میوزک جیسی لاحاصل چیز سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے اور ہر گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین