گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں سب سے زیادہ متاثر ہمارے چہرے کی جلد ہوتی ہے۔ براہِ راست سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں سے نہ صرف چہرے کا رنگ خراب ہوتا ہے، بلکہ زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے سے مختلف جِلدی امراض بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ دھوپ کے علاوہ گرمیوں کی دوپہر کی گرم ہوا جِسے ’لُو‘ بھی کہا جاتا ہے، ہمارے چہرے کی جِلد کو بُری طرح جُھلسا دیتی ہے۔ ہماری جلد کی تین تہیں ہوتی ہیں جب دھوپ کی شعاعیں انسانی جلد میں داخل ہوتی ہیں تو یہ جلد کی پہلی تہہ میں موجود آزاد مگر حفاظتی ریڈیکلز کے ساتھ مل کر کلوجن اور ایلسٹن میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو جلد کے لیے سانس لینے کے راستوں کو بند کر دیتے ہیں اور یوں ہمارے چہرے کی جلد جھریوں، داغ دھبوں، خشکی اور تِلوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ دھوپ کی وجہ سے ہمارے جسم کا پانی کم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چہرے کی جلد کا پانی بھی تیز دھوپ میں اُڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے جِلد پانی کی کمی کا شکار ہو کر ڈھلک جاتی ہے اور اپنی عمر سے زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ عمل جُھریوں کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پرانے وقتوں میں گرم ہوا اور دھوپ سے بچنے کے لیے لوگ ململ کے سفید کپڑے کو پانی میں بھگو کر اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپ لیتے تھے تاکہ جِلد براہِ راست دھوپ کی شعاعوں سے کم متاثر ہو، اور ہلکے رنگوں، خصوصاً سفید رنگ کے لباس کو ترجیح دیتے۔ کیونکہ سفید رنگ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو منعکس کر دیتا ہے جبکہ گہرا یا کالا رنگ ان شعاعوں کو جذب کرتا ہے اور گرمی کی حدّت کو بڑھاتا ہے۔ اسکے علاوہ لسی، ستو اور ایسے ہی ٹھنڈے مشروبات اور رس دار پھلوں کا استعمال کیا جاتا تھا تاکہ دھوپ کی تمازت کو ختم کرنے کے لیے اندرونی نظامِ تحفظ کو مضبوط رکھا جا سکے۔ زمانۂ جدید میں دھوپ کی شعاعوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اینٹی آکسیڈینٹ کو اپنے کھانے اور متاثرہ جِلد پر لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آکسیڈینٹ کے علاوہ وٹامن اے اور موئسچرائزر کو بھی جلد کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ موئسچرائزر میں پائے جانے والے عناصر ’ہیومنکٹنٹ اور لیپیڈز‘ ہماری جلد میں پانی کو روکنے اور کلوجن کو بنانے کے لیے اہم عنصر ہیں۔ بہترین موئسچرائزر میں کریم اور سیلی کانز دونوں موجود ہوتے ہیں۔ جو پانی کو جلد میں لاک کر دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں مختلف برانڈ کے سن اسکرین لوشن، سن بلاکس میں ’Sun protection Factor‘ یعنی SPF کی مختلف رینجز کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ فارمولاز ٹھنڈے ملکوں کی گرمیوں میں وہاں کے باشندوں کے لیے بہترین ہوتی ہیں مگر گرم اور مرطوب علاقوں، جہاں سورج کی حدّت تیز ہوتی ہے، ان کے استعمال سے خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ پسینے سے جلد پر لگی کریم یا موئسچرائزر بہہ جاتا ہے۔ کچھ افراد پراڈکٹ کے خلاف اور کچھ پیسے کے ضیاع کے حوالے سے نالاں نظر آتے ہیں۔ کچھ افراد کی جلد ان پراڈکٹ کے استعمال کی وجہ سے ایکنی، خشکی اور چہرے کے رنگ خراب ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ابھی تک ایشیائی ممالک کے کسی صنعت کار، سائنس دان، بیوٹیشن، ماہرِ جلد نے اس طرف توجہ نہیں دی اور کوئی قابلِ قدر پراڈکٹ ان خطوں کے عوام کے لیے سامنے نہیں آسکی۔
گرمیوں میں چہرے کی جلد کی شادابی برقرار رکھنے کے لیے کچھ زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی، کچھ عادات کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا کر ہم اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ زمانۂ قدیم سے مشرق(برِصغیر) میں دھوپ کی تمازت، الٹراوائلٹ شعاعوں سے بچنے کے لیے گھریلو نسخوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چند آزمودہ نسخے زیر نظرِ سطور دیے جا رہے ہیں۔ ان گھریلو نسخوں کے استعمال سے ہم اپنی چہرے کی جِلد اور جسم کے ایسے حصے جو سورج کی براہِ راست شعاعوں کا شکار ہو تے ہیں۔ انہیں دھوپ کے منفی اثرات سے بچا سکتے ہیں۔ہمیں روزانہ اوسطاً 10 سے 12 گلاس پانی پینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ پانی پینے کی مقدار کے حوالے سے پوری دنیا میں عموماً ایک کلیہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں انسان کو اوسطاً اپنے وزن سے آدھے پاؤنڈ کے نمبرکے برابر، اونس کی مقدار میں پانی پینا چاہیے۔جتنی بار ممکن ہوسکے چہرے کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں یا چھینٹے لگائیں۔ چھینٹے لگانے سے چہرے کے مساموں میں رُکے مردہ خلیے دُھل جاتے ہیں اور جلد کی دوسری تہہ سے تازہ خلیے چہرے کے اوپر کی سطح پر آ کر چہرے کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس عمل سے چہرے کا رنگ بھی متاثر ہونے سے بچ جاتا ہے۔دھوپ میں نکلنے سے قبل اور بوقتِ ضرورت عرقِ گلاب کو چہرے پر چھڑک لیں۔ یہ قدرتی آکسیڈینٹ کا کام کرتا ہے اور چہرے کا پانی ختم ہونے سے بچاتا ہے۔ خواتین بیگ میں اور مرد حضرات اپنے دفتر کی میز میں عرقِ گلاب شاور رکھ سکتے ہیں۔ یہ اب بہ آسانی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ عرقِ گلاب کو قدرتی سن بلاک بھی کہا جاتا ہے۔گرمیوں میں کھیرے، تربوز، خربوزہ اور ایسے تمام پھل جو قدرتی پانی رکھتے ہیں ان کا استعمال بڑھا دیں۔ یہ بھی قدرتی آکسیڈینٹ کا کام کرتے ہیں، ان میں پائے جانے والے قدرتی عناصر چہرے کی جلد کو تر و تازہ رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ پھلوں کے جوس پینے سے زیادہ، کھانے کا فائدہ زیادہ ہے۔ سبز پتوں کی کچی سبزیاں، سلاد کی آئیٹمز کو کھانے کے معمول میں شامل کریں۔