وادی میں تازہ برفباری کے بعد درجہ حرارت میں بہتری کے ساتھ ہی برف تیزی کے ساتھ پگھلنا شروع ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے شہر سرینگر اور دیگر ضلعی صدر مقامات اور قصبہ جات کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بڑی مقدار میں پانی جمع ہوگیا ہے، جو ہمارےکمزور نکاسی نظام کی عکاسی کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برف اُس مقدار میں نہیں گری ہے، جو ماضی کی روایت رہی ہے لیکن اس کےباوجود بڑے بازاروں اور بستیوں میں نالیاں اس قدر پُر آب ہیں کہ جگہ جگہ سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو عبو ر و مرور میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ راہگیروں کےلئے سڑکوں پر چلنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ سڑکوں پر دوڑتی لاتعداد گاڑیوں سے اس قدر چھنٹیں اُٹھتی ہیں کہ ان کےلئے اپنا لباس بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر چہ شہر سرینگر کے فٹ پاتھوں سے میونسپل حکام نے برف صا ف کرنے کی کافی حد تک کاروائی کی ہے لیکن ایسے موسم میں ٹوٹے پھوٹے فٹ پاتھوں سے چلنابھی کوئی آسان کام نہیں، خاص کر اسکولی بچے، جو ٹیوشن سنٹروں کو جانے کےلئے مجبور ہیں، بڑی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال دراصل ہمارے شہروں اور قصبہ جات میں نکاسی آب کے ناقص نظام کا غماز ہے، جو اُسی وقت اپنا چہرہ کھل کر دکھاتا ہے، جب موسمی حالات میں تبدیلی آتی ہے۔ڈرینوں اور نالیوں کی ساری خامیاں ایسے ہی صورتحال میں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ آج شہر میں متعدد علاقوں میں بڑی ڈرینوں کے ساتھ ملنے والی چھوٹی نالیوں کا پانی گلی کوچوں کو ندی نالوں میں تبدیل کر چکا ہےکیونکہ بڑی ڈرینوں کی تعمیر کے وقت دونوں کی متناسب سطح پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔ لہٰذا اس عنوان سے دیکھا جائے تو برفباری اور بارشوں کا موسم ہماری سڑکوں، گلی کوچوں اور نالیوں و دڑینوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک قدرتی آڈٹ رپورٹ سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ محکمے اس ساری صورتحال کا جائزہ لیکر اُن خامیوں کی نشاندہی کریں جو اس کی وجہ بنتی ہیں اور موسم میں بہتری آنے اور تعمیراتی سیزن شرو ع ہونے کے بعد ان خامیوں کو دور کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ اس طرح ایک تو عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوگا اور دوسری جانب اخراجات کے درست استعمال کامزاج بھی پیدا ہوگا۔ فی الوقت حکومت اتنا کچھ کرسکتی ہےکہ جن مقامات اور علاقوں میں زیادہ پانی جمع ہوا ہے اور جہاں لوگوں کو زیادہ مشکلات درپیش ہیں وہاں پمپوں کے ذریعہ پانی کی نکاسی عمل میں لائیں تاکہ عبور و مرور کی مشکلات میں تخفیف ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اس کےلئے سرینگر میونسپل کارپوریشن ، مختلف میونسپل کمیٹیوں اور خاص کر میکنیکل انجینئرنگ ڈویژن کا کلیدی رول بنتا ہے۔ چونکہ یہاں کے موسمی حالات میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور روایتی موسمی مزاج میں تیزی کے ساتھ تغیر آرہا ہے، لہٰذا ایسی اور اس جیسی صورتحال کسی بھی وقت پیش آسکتی ہے، حتیٰ کہ موسم گرما میں ہونے والی بارشیں کبھی بھیانک رخ بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ لہٰذا ن سارے امکانات کو زیر نظر رکھ کر نکاسی آب کے لئے ایک ہمہ وقت اور ہمہ جہت پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے پاس ایسی کوئی پالیسی اور اس کے نفاذ کےلئے بنیادی ڈھانچہ میسر ہوتا تو شاید سال2014کے سیلاب کے بعد سرینگر کی متعدد بستیوں میں کئی کئی ہفتوں تک پانی جمع نہ رہتا ۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں رہائشی مکانات کو شدید نقصان ہوا اور جنکی تعمیر و مرمت میں لوگوں کا ذر کثیر صرف ہوا۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہ سبب تیزی کے ساتھ موسمی تغیر و تبدیل وقوع پذیر ہو رہا ہے اور ہماری سرزمین اس سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے ایک کثیر الجہت نظام ترتیب دیا جائے تاکہ کسی بھی غیر موزون صورتحال سے نمٹنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس کے لئے ہمارے ذمہ دار محکموں اور صیغوں کو ایسے حالات سے نمٹنے کےلئے دنیا میں موجود جدید نظام کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا چاہئے تاکہ کسی بھی غیر موزون صورتحال میں عوام الناس کی مشکلات کا ازالہ کرنا آسان ہو جائے۔