گزشتہ دنوں وادی میں معمولی برف باری سے عوام کو خاص کر بجلی بریک ڈاؤن کا شدیدبحران سہنا پڑا۔ اس وجہ سے لوگ باگ سوال کر تے ہیں کہ جب گورنر انتظامیہ پر دوانچ برف باری اتنی بھاری پڑی تو تین چلّوں کے دوران اس کا کیا حال ہوگا جب کڑاکے کی سردی اور جمود وتعطل روایتی طور کشمیر کا مقدر بن کر عام آدمی کے مسائل کوا ور زیادہ پیچیدہ بناتے ہیں ۔ بہر صورت اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ گورنر انتظامیہ ابھی سے پیش آئند نامہربان موسم سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل سے نمٹنے کے لئے جنگی پیمانے پرتیاریاں کرے گی۔ ہم یہی دیکھتے ہیں کہ روایتاً دربار مو کے بعد وادی کو مفلوج انتظامی مشنری کے سبب شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ا س باراگر کوئی دوسری کرامت نہ ہوئی تو ماضی کی طرح دربار مو کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ وادی بھر میں مسائل اور مصائب اگلے چھ ماہ تک لوگوں کا کچو مر نکالتے رہیں گے۔ ا س وقت یہ کہنا مشکل ہوگا کہ امسال تین چلّے کشمیری عوام کے لئے عذابوں اور پر یشانیوں کی کیاکیا سوغات لے کر یہاںقدم رنجہ ہوںگے اور کون سے گل کھلا کر رخصت ہوں گے۔ عیاں راچہ بیاں کے مصداق عام آ دمی کو بخوبی معلوم ہے کہ برف باری اور یخ بستہ موسم اس کے لئے ہر سال نئی اذیتیں اور آفتیں لے کر وا ردہو تا ہے اور نئے نئے گھاؤ دے کر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ رواں برس چلّوں سے بہت پہلے نومبر کے آغاز میں موسم کی پہلی برف باری کے تیکھے تیور دیکھ کر لوگ پیش بینی کرنے لگے ہیں کہ آنے والا جاڑا مقابلتاً کچھ زیادہ ہی شدید ثابت ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک جانب مہنگائی کا گراف بتدریج بڑھتا جارہاہے ، ساگ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ، قصاب، پنساری ، نانوائی، گوالے ، پولٹری والے گراں فروشی کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں، گیس اور تیل خاکی کی بلیک مارکیٹنگ بھی خیر سے جاری ہے، گرم ملبوسات اور کوئلے منہ مانگے داموں بک رہے ہیں ، جب کہ سرما سے متعلق روزمرہ دیگر اہم ضروریات بشمول سر مائی امراض بری طرح عوام کے گلے پڑ رہی ہیں ۔ خود ہی سوچئے ایک جانب شدید سرما میں غریب لوگوں کے اخراجات ان حوالوں سے روزافزوں بڑھ جائیں ، اوپر سے گراں بازاری کا دور دورہ بھی ہوتو لوگوں کی قوتِ خرید ہر گزرتے پل کے ساتھ کم ہونا قدرتی امر ہے ۔ لوگوں کو ان بلاؤں سے راحت دلانے کی غرض سے اگرچہ گراں فروشوں، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو قابو میں رکھنا سرکاری حکام کا اہم فریضہ بنتاہے او ر بے ضابطگیوں کے مرتکب دوکانداروں کی لوٹ کھسوٹ کا بروقت تدارک کر نا ان کی ناقابل التواء ذمہ داری ہے مگر یہ حضرات سرما میں علی الخصوص خوابِ غفلت میں پڑے رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے جب گاہکوں کو بد دیانت عناصر سے بچانے کے لئے کوئی روکنے ٹوکنے والا ہی نہ ہو تو ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں کیوں نہ ہوں ؟ بہر حال سردیوں کابگل بجتے ہی اب گزشتہ کچھ عرصہ سے بجلی کا غیر اعلانیہ کٹوتی شیڈول آہستہ آہستہ بے یقینی اور بے اعتباری کا اشتہار بنتا جارہاہے ،اس لئے جوں جوں ٹھنڈ کی شدت میں اضافہ ہورہاہے ، بجلی کی سپلا ئی پو زیشن بتدریج نا تسلی بخش ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں جب ارباب ِحل وعقد کے یہاںعوامی مشکلات اور لوگوں کے سلگتے مسائل نظر انداز کر ناان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہو تو اصلاح ِ احوال کی کس سے توقع رکھی جائے؟ ناقابل تردیدسچ یہ بھی ہے کہ جاڑے میںوادی ٔ کشمیر جب شدید سردیوں کی لپیٹ میں ہو تی ہے تو یہاں ہر فرد بشر کی زندگی پریخ بستہ ہواؤں اور ٹھٹھراہٹ سے جمود و تعطل کی کیفیت خود بخود طاری ہو جاتی ہے ۔ ان پیچیدہ حالات میں بلاشبہ بجلی کی کھپت بڑ ھنا قدرتی بات ہے مگر یہاں چونکہ ہر معاملے میں اُلٹی گنگا بہتی ہے، اس لئے سر ما کے شروع ہوتے ہی سب سے پہلے پاور کی بے وفائی سے شہر ودیہات کا یکساں پالا پڑتا ہے۔ اندازہ کیجئے ایک جانب سرما کی سختیا ں لوگوں کی زندگیاں بے کیف بنا رہی ہوں، دوسری جانب یکایک بجلی دغا دے بیٹھے تو کیا یہ صورت حال جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف نہیں کہلاسکتی ؟ بے شک سرما میں کچھ بجلی کے ناجائز استعمال سے اور کچھ ضرورت سے زیادہ کھپت کے علاوہ ندی نالوں میں سطح ِآب میں کمی آنے کے باعث برقی رو کی جنریشن اور سپلائی پوزیشن بہت متاثر رہتی ہے ۔اس سے حالات کی گھمبیر تا بھی متوقع طور حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس حوالے سے جہاں محکمہ بجلی کو کلی طور موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتاہے ، وہاںتمام صارفین کو بجلی چور ٹھہرانا بھی قرین انصاف نہیں ۔ بہر صورت بجلی کے حوالے سے روایتی علتوں کی نشاندہی کر ناہی متعلقین کاکام نہیں بلکہ ان کا تیر بہدف علا ج تجویز کر نے سے بھی دامن نہیں چھڑا یا جانا چاہیے۔ ہمارے سیاسی اور انتظامی اکابرین کو اس بات کا لا زماً علم ہوناچاہیے کہ بجلی چوری کی وبا کو ئی الگ چیز نہیں بلکہ اس کا سرشتہ بہ حیثیت مجموعی اس بدعنوان نظم ونسق اوربے ہنگم سیا ست کا ری سے جڑا ہواہے جس کی گہر ی جڑ یں یہا ں کی سیاسی وانتظامی تاریخ میں پیو ست ہیں۔ عوامی حا فظے میں یہ اب بھی یہ بات تروتازہ ہے جب ماضی ٔ بعید میں قائد ین انہیں یہ پٹی پڑھاتے تھے کہ بجلی لا ئین مین اگر بجلی کھمبے سے سیڑ ھی لگائے تو نیچے سے سیڑ ھی نکا ل دو۔ اس لایعنی طرز سیاست سے بجلی کے ناجا ئز استعمال کی عادت جب لوگو ں کی گھٹی میں پڑی ہو تو انہیں اب موثر سے موثر تر دلیل بھی غلطی سے بازآنے کی قائل کرسکتی ہے نہ قاعدے قوانین کی گردانیں سدھار سکتی ہیں۔ لہٰذ متعلقہ حکام کا فرض منصبی ہے کہ وہ پاور کرائسس کے کسی مستقل اورحقیقت پسندانہ علا ج ڈھونڈنے کو وقت کی پہلی ترجیح بنائیں ۔ ریاست میں گزشتہ کئی سال سے پاور پروجیکٹس کی واپسی پر کافی سیاست بازی ہوتی رہی مگر مرکزی حکومت نے ہمیشہ اس مطالبے کی اَن سنی کر دی اور آج بھی یہی صورت حال جوں کی توں باقی ہے۔ عقل وتدبر کا تقاضا ہے کہ ریاستی حکو مت اس اہم مسئلے کے نپٹارے کے لئے کوئی ایسا طویل مدتی روڑ میپ اورکوئی ایسی قلیل مدتی موثر و کارگر حکمت عملی وضع کرے کہ بجلی کے بحران سے ریاست کو مستقل بنیادوںپر گلو خلاصی مل سکے۔ یہ اہم کام ایڈہاک اِزم سے عبارت نہ ہو نا چاہیے تبھی اس کے بہتر اور مستقل ثمرات حا صل ہو سکتے ہیں ۔ اس تعلق سے عوام کی ضروریات، مجبوریاں اور ان کی اجتما عی نفسیات کو بھی مدنظر رکھا جاناچاہیے۔ یہ امر واقع بھی ارباب حل وعقد کے زیر نظررہنا چاہیے کہ جس ریاست کے سیا سی و انتظا می صیغوں میں بد عنوانی کا پیپ اور کورپشن کاسر طا ن مو جو د ہو، وہاں کوئی جا دو ئی چھڑی گھما کر بجلی محکمے یا بجلی صارفین کو یک قلم فرض شناس نہیں بنا یا جا سکتاہے، نہ گراںبازاری کے مجرمین کا مکمل قلع قمع کیا جاسکتا ہے ، بلکہ اس صورت حال کے تدارک کے لئے سرکاری سطح پر ایک واضح دستورا لعمل درکار ہونا لازمی امرہے ۔ ہمارے یہاں کورپشن کی وبا کے خاتمے کے لئے بظا ہر ایک مسیحا کے لئے سارا سٹیج منتظر ہے جو بدعنوانی کے مہا سا گر میں ڈبکیاں ما رنے والے مگرمچھوں کو اوپر سے نیچے تک قابو کر نے کی کرشماتی قوت سے مالامال ہو،تب جا کر یہ تو قع کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کا بھوت ہو، عوامی سطح پر بجلی چو ری کی ناپسندیدہ روش ہو ، خزانۂ عامرہ کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ ہو ، سرکاری رقومات کو ہتھیانے کا غیر اخلا قی گورکھ دھندا وغیرہ امراض کاکسی حد تک علاج ومعالجہ ہو گا۔ بہر کیف ا س وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قابو کر نے کے ساتھ ساتھ، بجلی سپلائی میں معقولیت لانے اور طاق ِنسیاںکی زینت بنائے گئے تمام حل طلب عوامی مسائل کے ازالے کے لئے بھر پور اور برمحل توجہ دی جائے ۔نیز ریاستی انتظامیہ کودربار مو کے ساتھ ہی وادی کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے سرمائی سیکرٹریٹ کو مسائل کے حقیقی ازالے کا پلیٹ فارم بنادینا چاہیے تا کہ لوگوں کو یہ لگے ان کا کوئی والی وارث بھی ہے ۔