موجودہ جدید دور میں بھی وادیٔ کشمیر کا ہر فرداس بات پر حیران ہے کہ جہاں دنیا بھر کے بیشتر ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے تحت اپنے عوام کی بہتری،ترقی و خوشحالی اور اُن کی زندگی کوآسان بنانے کے لئے سہولیات کی فراہمی کے لئے زمین و آسمان کو کھوج رہے ہیںاور وہ سامان تلاش کررہے ہیں،جن سے اُن کے عوام ہر سطح پر کامیاب اور پُرسکون زندگی گذار سکیں ۔ وہیں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے ،جسے ہندوستان اپنا تاج کہتا ہےاور اپنا اہم انگ جتلاتا ہے،آج بھی اُنہیں درپیش مسائل و مشکلات سے دوچار ہے،جن کا سلسلہ پچھلی نصف صدی سے چلتا آرہا ہے،جس کے سبب آج بھی یہ خطہ زیادہ تر اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔چنانچہ جونہی وادیٔ کشمیر میں موسم سرما شروع ہوتا ہےتو نہ صرف یہاں کے عوام کو درپیش مشکلات و مسائل میں اضافہ در اضافہ ہوجاتا ہےبلکہ بجلی کی فراہمی کا معاملہ دن بہ دن پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ظاہر ہےکہ موجودہ جدید دور میں بجلی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔
روز مرہ زندگی میں صبح سے شام تک جتنی بھی چیزیں عام طور استعمال میں آتی ہیں،زیادہ تر چیزوں کا انحصار بجلی پر ہی ہوتاہے۔اسی لئے اگر ترقی پذیر ملکوں میں پانچ دس منٹ کے لئے بجلی چلی جاتی ہے تو وہاںہاہا کار مچ جاتی ہے،زندگی تھم سی جاتی ہےاور نظامِ زندگی کاتقریباً ہر شعبہ متاثر ہوجاتا ہے ،جس کے نتیجے میںوہاں کی حکومتیں ہِل جاتی ہیں۔لیکن اگر جموں و کشمیر خصوصاً وادیٔ کشمیر کی بات کریں تو یہاںنہ صرف گرمیوں میںبجلی کی صورت حال ناپائیدار رہتی ہے بلکہ سردیوں میںبجلی کی موجودگی بالکل غیر یقینی بن جاتی ہے،جس سے یہاں کاعوام بُری طرح متاثر توہوجاتا ہے، لیکن حکومت کا کچھ بھی نہیںبگڑ جاتا ہے۔ بجلی کی عدم موجودگی کے خلاف جب عوامی ردِعمل سامنے آتا ہے تو سرکاری انتظامیہ وہیں روایتی باتیں سُنانا شروع کردیتی ہے جو یہاں کی سرکاریںپچھلی نصف صدی سے سُناتی چلی آرہی ہیں۔ جب بجلی کی کمیابی ،اس کی پیداوار میں کمی ،اس کی چوری ،فیس کی وصولیابی ،شمالی گرڈ کے قرضے اور مزید بجلی خریداری کے متعلق سرکاری رپورٹیں ، تفاصیل، دلیلیں اور وضاحتیں عوام کے سامنے لائی جاتی ہیںتو مجبوراً صارفین بجلی کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔پھرسرکاری انتظامیہ کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ سردیوں کے موسم میں میٹر شدہ اور غیر میٹرشدہ علاقوںکے صارفین ِ بجلی کو شیڈول کے مطابق بجلی فراہم ہوگی اور مقررہ شیڈول کے نفاذ پر سختی کے ساتھ عملدرآمد ہوگا۔
چنانچہ صارفین ِبجلی سرکاری اعلانات پر اکتفا کرکے مقررہ شیڈول کے تحت اپنے روز مرہ زندگی کے کام کاج نمٹانےکا طریقہ اپنا لیتے ہیںتاکہ انہیں بجلی کی عدم دستیابی کے پیشِ نظر درپیش مسائل و مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہوجائے۔لیکن ہوتا یہی ہےکہ صارفین بجلی کونہ مقررہ شیڈول کے مطابق بجلی مل جاتی ہے اور نہ شیڈول کے دوران بغیر خلل سپلائی جاری رہتی ہے۔جبکہ غیر میٹر شدہ علاقوںمیںمقررہ شیڈول کا کوئی شیڈول ہی نہیں رہتا ہےبلکہ کٹوتی میں بھی کٹوتی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حالانکہ مقررہ فیس سختی کے ساتھ وصول کیا جاتا ہے لیکن بجلی سپلائی شیڈول کے تحت فراہم کرنے میں نافذپابندی پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔جس سےیہی محسوس ہورہا ہے کہ جموں و کشمیر کی حکومت اور یہاں کا بجلی محکمہ کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کرتا ہے،جس سے صارفین بجلی کومقررہ شیڈول کے تحت بجلی مہیا ہوسکے۔گویامحکمہ بجلی کے ذمہ داران نہ اپنے سسٹم میں کوئی واضح تبدیلی لاتے ہیںاور نہ ہی نظام کو درست کرناچاہتے ہیں۔ بَس اپنی ناقص روایتی حکمتِ عملی اور بوسیدہ پالیسیوں کے تحت کام چلاکرمحکمہ کے تمام ملازمین اپنی تنخواہیں ڈھکار لیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں صورت حال ویسی ہی رہ جاتی ہے جو یہاں عرصۂ دراز سے چلی آرہی ہے۔اگرچہ وادی بھر میں بجلی کے ناجائز استعمال پر قدغن لگ چکی ہے،صارفین بجلی پہلے سے بہت زیادہ فیس بھی ادا کررہے ہیں،شہروں،قصبوں اور دیہات کے بیشتر علاقوں میں میٹر بھی نصب کئے جاچکے ہیں، کٹوتی شیڈول بھی مرتب ہورہے ہیں،پھر بھی بجلی سپلائی مقررہ شیڈول کے مطابق جاری نہیں رہتی ہے۔ضرورت اس بات کی جموں وکشمیر کی انتظامیہ بجلی کی فراہمی کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کریںاور صدق دلی و دیانت داری کے ساتھ صارفین بجلی کو شیڈول کے مطابق بجلی مہیا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریںتاکہ اس سرما میں صارفین بجلی کسی حد تک راحت حاصل ہوسکیں۔