رضوان احمد طارق
اقوامِ متحدہ سے وابستہ دنیا کےممتاز ترین ماہرینِ ماحولیات اور آب و ہوانے خبردار کیا ہے کہ اگر بارہ برسوں میں ہم نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج محدود کرنے سمیت دیگر اہم اقدام نہ اٹھائے تو دنیا بھر میں سیلاب، طوفان، موسمیاتی شدت، خشک سالی اور فصلوں کی تباہی کا عمل تیز ہوسکتا ہے جس کے پورے سیارے پر غیرمعمولی طورسے منفی نتائج پڑیں گے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی) کے ایک رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ ہمارے سیارے کے اوسط درجہ حرارت میں ایک درجہ سینٹی گریڈ کاپہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے۔ اب اگر اس میں 1.5 سینٹی گریڈ کامزیداضافہ ہونے سے روکنا ہے تو آج ہی سےہمیںجرأت مندانہ اقدام اٹھانے ہوں گے۔بہ صورتِ دیگر اس اضافے سے خشک سالی، قحط، شدید گرمی، موسمی شدت، جنگلات کی آگ، سیلاب اور طوفان جیسی آفات میں اضافے سے دنیا بھر میںکروڑوں افراد متاثر ہوں گے کیوں کہ زمین کا انتہائی نازک اور حساس نظام اس گرمی سے کئی طرح سے متاثر ہوگا۔واضح رہے کہ جب اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے انیسویں صدی کے بعد سے درجہ حرارت میںہونے والا اوسط اضافہ۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں پیرس کے معاہدے پر عمل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس معاہدے کے بعد سائنس اور سیاست کی نہ رکنے والی بحث شروع ہوگئی تھی اور زمین پر گرمی بڑھانے والی گرین ہاؤس گیس، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سب سے بڑے مخرج، امریکا نے اس سے جان چھڑانے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا، پیرس کے معاہدے پر عمل کرنےکاپابند نہیں رہا۔دراصل یہ معاہدہ رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال میں کمی کے علاوہ منصوبہ بندی، انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، زراعت، شہری امور وغیرہ میںاہم اصلاحات کرنےپر بھی زور دیتا ہے۔ لیکن اب پوری دنیا آب و ہوا میں تبدیلی کے ہول ناک اثرات دیکھ رہی ہے۔ کئی برسوں سے ہم گرمی کے ریکارڈ ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس سال دنیا کے بڑے سمندروں میں آنے والے ہولناک طوفان بھی ہمارے سامنے ہیں۔چنانچہ مذکورہ رپورٹ کے اجراء کے ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک ویب سائٹ پر اپنے مضمون میں کہاہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سردمہری سے سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے جس کا عالمی حل ڈھونڈنا ہوگا۔ آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک کی جانب سے سست روی پرانہوںنےشدید مایوسی کا اظہار بھی کیا ۔ واضح رہے کہ ناسا کے ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انیسویں صدی کے بعد سے اب تک عالمی درجہ حرارت میں 0.9 فی صد اضافہ ہوچکا ہے جسے ایک درجے سمجھنا بہتر ہوگا۔ ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی بقا و سلامتی کےلیےہمیں سخت اقدام اٹھنے ہوں گے ۔ رپورٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ عالمی حِدّت اندازوں سے کہیں زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہے اور تباہ کن صورت حال سے بچنے کے لیےوقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس کے اثرات پہلےسے لگائےگئے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں ۔لہٰذا معاشروں ميں لوگوں کے طرز زندگی اور اقتصاديات ميں اسقدر وسيع ترتبدیلیاں درکارہیں کہ ان کے بارے ميں سوچا بھی نہيں جا سکتا ۔ اکیانوے مصنفین کی تیار کردہ اُس خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی حِدّت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی حد کے میںرکھنے کے لیے دنیا بھر کی معیشتوںمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ماہرین پہلے ہی خبر دار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات بہت تباہ کن ہوں گے۔ان کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں مسلح تنازعات، بھوک، سیلاب اور ہجرت جیسے مسائل بھی شدت اختیار کر جائیں گے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گرین ہاؤس یا سبزمکانی گیسز کے اخراج میں کمی نہ کی گئی اور کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا، جس کے مالیاتی اثرات کئی ٹریلین ڈالرز کے مساوی ہو سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق زمین کے درجہء حرارت میں ہر ایک ڈگری کا اضافہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تباہی بڑھانے کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچے گا بلکہ انسانی، حیوانی اور نباتاتی صحت پر بھی نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ماہرین دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ درجہء حرارت میں اضافے سے پیدا ہونے والے اثرات شدید، تباہ کن اور ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔
جاپانی شہر یوکوہاما میں چار سال قبل پانچ روز تک جاری رہنے والےایک اجلاس کے بعد آئی پی سی سی کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے سخت ترین تنبیہ جاری کی گئی تھی۔ اُس وقت جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ رواں صدی میں زمینی درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ تین سے چار اعشاریہ آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتاہے، جس سے سمندروں میں پانی کی سطح 26 تا 82 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اگر صنعتی انقلاب سے قبل کے مقابلے میں زمینی درجہ حرارت دو درجے سینٹی گریڈ بڑھا تو اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی کل آمدن کا صفر اعشاریہ دو فی صد تا دوفی صد حصہ خرچ ہو گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ زمینی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل کے دور کے درجہء حرارت کے مقابلے میں رواں صدی میں ہونے والے اضافے کو دو درجے سینٹی گریڈ تک روکا جاسکے۔اس سلسلے میں ایک جائزہ 2007ء میں شایع کیا گیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس مطالبے میں شدت آئی تھی کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوئی مربوط معاہدہ ناگزیر ہے۔ اسی بابت 2009ء میں کوپن ہیگن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی۔ تاہم اس کانفرنس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی۔
اُس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک، بہ شمول چین نے سبز مکانی گیسز کے اخراج میں کمی کے حوالے سے عالمی مطالبات مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس مسئلے پر ترقی یافتہ ممالک قائدانہ کردار ادا کریں کیوں کہ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنی شرح نمو اور صنعتی ترقی کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔
ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آبادی میں اضافے سے بھی ہماری پانی کی ضرورت اور ترسیل کےنظام پر دباؤ بڑھا ہے۔تاہم اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں۔ کسی با ضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔ صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا، مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقرر نہیںکیے گئے، لہٰذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے مواد زیر زمین پانی میں شامل ہو گئے۔ سیمنٹ اور چمڑے کی فیکٹریز نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نہروں کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور نہری سلسلے میں آب پاشی کے دوران تقریبا 50 فی صدپانی ضائع ہوتا رہا۔ سیم اور تھور کی روک تھام بھی نہیں کی جا سکی۔
حضرتِ انسان کے عروج کے چرچے آسمانوں پر ہیں۔ وہ کیا ہے جو ہم نے حاصل نہیں کرلیا، پرندوں کی مانند ہوا کا سینہ چیرتے ہوائی جہاز، سمندروں کی چھاتی پر ہچکولے لیتے بحری جہاز، پردیس کی باتوں کو کان کے پردوں پر انڈیلنے والے موبائل فون، جھرنوں کی آوازوں کے اثرات پیدا کرتے ہوئے موسیقی کے آلات، جامِ جمشید کی مانند ہر لمحہ خبر دینے والے ٹیلی ویژ ن، گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنے والی گاڑیاں، موسموں کی شدت کو کم کرنے والے لباس۔ غرض یہ کہ وہ کیا نہیں ہے جو اس ابنِ آدم کے تخیل میں تھا اور اس نے حاصل نہ کر لیا ہو ۔مگر دور دیس کے خوابوں میں اپنے جہاںکے مسائل فراموش کرتا چلا گیا، ستارہ سحری کی خبر رکھنے والا ہم سائے کے حال سے بے خبر ہوتا چلا گیا اوراس کی مسکراہٹیں محدود ہوتی چلی گئیں۔
اب عالم یہ ہے کہ گندم کی بالیاںاور سرسوں کے پھول مہکتے تو ہیں، مگر ان پر استعمال ہونے والے زہروں کااثر ہماری نسل کو ذہنی اور جسمانی طور پرتباہ کیے جا رہا ہے۔ دودھ فروخت کرنےوالوںنےجب سے انجکشنز کے دم پر جانوروں سے دودھ حاصل کرنا شروع کیاہے اسی دودھ سے بیماریاں جنم لینے لگی ہیں۔جب ویکسین ہی زہر بن جائے،دردکم کرنے والی دواوں سے درد بڑ ھتا ہو ،دودھ اور پانی کی بوتلوں میں بیماریاں بٹتی ہوں، جب ترقی کی روشنی سے اپنے ہی بچوں کے مستقبل چندھیا جانے کا اندیشہ ہو، جب ہر تازہ سبزی کرم کش زہروں سے دھلی ہو، ہر نیا پھول کسی ہارمون کی وجہ سے کھلا ہو، فراوانیِ رزق تو ہو، مگر خوراک جزوبدن نہ بنتی ہو، وٹامن کی بوتلیں لوگوں کے چہروں پر نظر کی عینکیں سجاتی ہوں،مصنوعی گھی کی وجہ سے ہڈیوں میں جان نہ پڑتی ہو، جب ہر چکنائی کولسٹرول بڑھاتی ہو اور ہر مٹھاس سے ذیابطیس ہو جانے کا اندیشہ ہو تو انسان کو ایک لمحے ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ چاند کی چاہ میں وہ اپنے گھر کے چراغوں کا قاتل کیوں بنتا جا رہا ہے۔
ماہرینِ ماحولیات باربارمتنبہ کررہے ہیں کہ ہمیں پھر سے وہ بستیاں بسانی ہیںجہاں پودوں کا ہرا رنگ کسی پینٹ کا نہیں بلکہ قدرت کے کلوروفل کا مرہون منت ہو۔ ہمیںپھر سے اپنے جانوروں کو ایسی خوراک دینی ہے جو فطری اجزا پر مشتمل ہو تاکہ ان سے حاصل ہونے والا گوشت اور دودھ ہماری صحت کا ضامن بن سکے نہ کہ د شمن ۔ اور پھر سے زمینوں کو ایسی غذائیت دینی ہےکہ وہ انسان کےلیے متوازن اور صحت بخش خوراک کا بندوبست کر سکے۔ اگر ہمیں اپنی نسلوں کی بقا عزیز ہے تو زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ورنہ ایک روز سب چراغ بجھ جائیں گے اور کرہ ارض پر ہر طرف اندھیرے کا راج ہوگا۔
حضرتِ انساں چاند پر تو پہنچ گیا ،لیکن اس نے زمین کی فضا اتنی آلودہ کردی ہے کہ اب سانس لیتے ہوئے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا اب کہیں ہوا صاف کرنے والی مشین بن رہی اور فروخت ہورہی ہے اور کہیں صاف ہوا فروخت ہورہی ہے۔حال ہی میںنیوزی لینڈمیں تازہ ہوا کی فروخت شروع ہوگئی ہے جس پرشدید تنقید کی جارہی ہے۔
����������������