عبدالرشید سرشار
اکتوبر کے ابتدائی ایام چل رہے ہیں۔ گرمی رخصت ہونے کو ہے۔
لمبی سفید داڑھی، اونی چادر اوڑھے، سر پر گرم ٹوپی، گلے میں گلوبند، پیروں میں چمڑے کے موزے، مصنوعی سمور والے گرم جوتے، اور ہاتھوں میں جدید ٹارچ والی لاٹھی…
یقیناً! آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ ہمارا مہمان کون ہے؟
ویسے تو مہمان فقط تین دن ٹھہر کر چلا جاتا ہے، مگر جن مہمانان گرامی کی آمد آمد ہے، وہ خدا جھوٹ نہ بلوائے، چھ مہینے تک خستہ حال لوگوں کے ہاں قیام بالجبر فرمائیں گے۔ ہر روز ایک نئی شان کے ساتھ بیدار ہوں گے اور ہر شام الگ ہی مزاج اور تیور دکھائیں گے۔
یہ دیکھیں، موصوف جلوہ افروز ہوئے:
سردی: “بہن! کیسے بیتے آپ کے شب و روز؟”
گرمی: “بھائی جان، کچھ مت پوچھئے۔ ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا آپ کا کام ہے۔ اپریل میں اس سرزمین کشمیر کے درشن کیا ہوئے کہ آپ سے رہا نہ گیا۔ لوگ جو نصف سال سے آپ کی خدمت کرتے کرتے عاجز آچکے تھے، ان کے کپڑے سوختہ اور جلے ہوئے تھے۔ گرم پانی کی بوتلیں استعمال کرتے کرتے ان گنت لوگوں کے پیٹ امراض جلد سے متاثر دکھائی دیتے تھے۔ بید کی کانگڑیوں سے کتنے معصوم پھول مرجھائے ہوئے تھے، بزرگوں میں اسٹروک اور سینے کے امراض بڑی تعداد میں ریکارڈ ہوئے تھے۔ کتنی مائیں اور چاند سی بہنیں رسوئی گیس کی نکاسی سے متاثر ہوئیں۔ حمام جلانے کے لئے کتنے درخت کاٹنے پڑے! پانی گرم کرنے کے لئے کتنے بوائلروں اور گیزروں نے اپنی جان کی قربانی دی!”
“افوہ مولیٰ! بڑے بھائی کی کتنی تعریفیں کروں؟”
“آخر بھائی ہی تو ہیں! ایک ہی ماں باپ کے بچے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ بڑے ہیں اور میں آپ سے عمر میں چھوٹی ہوں۔”
سردی: “بہن! سچ سچ بتاؤ! آخر بڑے بھائی کا رتبہ باپ کے برابر ہے۔ میں نے ہمیشہ تجھے اپنے سائے میں رکھا۔ کیوں میری ناک کٹوانے پر تلی ہوئی ہو؟”
گرمی: “بڑے بھیا! آپ کا احترام سر آنکھوں پر! میں نے کب آپ کی برائیاں کی ہیں؟ جو صفتیں آپ میں ہیں، ‘من و عن آپ کے سامنے کہنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ پرانی کہاوت ہے کہ ‘آوازِ خلق نقارۂ خدا:کبھی لوگوں کی بات سنی ہوتی تو آپ کو احساس ہوتا کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ غریب ریاست کا آدھا بجٹ بجلی کی خرید پر صرف ہوتا ہے تاکہ تیرے زمانہ قیام کے دوران لوگ مصیبتوں سے کسی حد تک محفوظ رہیں۔ ٹرانسفارمر اِدھر انسٹال کیا، اُدھر فیوز اڑ گیا۔ سڑکیں تیری وجہ سے بند رہتی ہیں۔پانی نلکوں میں ہی جم جاتا ہے۔کتنا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے!”
سردی: “آگے ایک لفظ بھی جو منہ سے نکالا تو بتیسی توڑ دوں گا۔ ہاں! یہ بتاؤ، تم کب جا رہی ہو؟
ناز نخرے مت کرو، میری جگہ چھوڑو! تم نے چھ چھ مہینوں تک غریب لوگوں کو لُو سے پریشان کیا۔ مچھروں سے کٹوایا۔ پسینے میں شرابور کیا۔ لوگوں کو دن کے چین اور رات کے آرام سے محروم رکھا۔ تیری وجہ سے لوگ گھونٹ بھر پانی کے لئے ترستے رہے۔ چشمے سوکھ گئے۔ دریا اور ندی نالوں میں پانی ندارد۔ لوگوں کی کھیتیاں ویران ہو گئیں۔ فصل برباد ہو گئی۔ بارش کیا ہوئی کہ سیلاب آیا۔ غریب جنتا کی تو نے کمر توڑ کے رکھ دی۔ اور بھی کچھ سننا ہے یا اتنا کافی ہے؟”
گرمی: “بھیا! کچھ تو خدا کا خوف کرو!
ابھی مجھے رہنے دو۔ دھان کی فصل کاٹنی باقی ہے۔ سرخ سرخ سیبوں سے درخت لدے ہوئے ہیں، سیب اُتارنے دو۔ مکئی کے بُھٹے دو شالہ پہن کر دعوت نظارہ دے رہے ہیں، ابھی مکئی کاٹنے دو۔ مرغزاروں میں خوب گھاس اگی ہوئی ہے، اسے کاٹنے دو۔ لوگ سال بھر کی محنت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ گرم گرم رضائیاں لوگوں کو خریدنے دو۔ کھڑکیوں پر سفید پالیتھین چڑھانے دو۔ ہیٹر اور بخاریوں کا انتظام کرنے دو۔ گرم کپڑے، جیکٹ، جرسیاں، تھرماکول اور فیرن خریدنے دو۔ بھالن اور لکڑی کا انتظام کرنے دو۔ میرے ہوتے ہوئے لوگ ایک جوڑے لباس کے عادی ہو چکے تھے، ان پر رحم کھاؤ! ظلم کرنا اچھی بات نہیں ہے۔”
سردی: “بہن! تیرے لچھن اچھے نہیں ہیں۔ خدا مغفرت کرے ابا مرحوم کی!
میں بار بار ان کی خدمت میں عرض کرتا تھا کہ اس کے سر پر نام کا دوپٹہ ہے، اصل میں وہ گلوبند بن جاتا ہے۔ باریک ریشمی لباس سے جسم کی نمائش ہوتی تھی۔ تہذیب جدید نے اور بھی غضب ڈھایا اور لباس، لباس نہ رہا۔ ابا مرحوم نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا! بھلے ہی تیری بہن نے فیشن کے نام پر اچھا نہیں کیا، تو اپنے جسم کو پوری طرح ڈھانپنا۔
اب یہاں سے رخصت ہوجاؤ اور مجھے چھ مہینے کے لیے وادی میں قیام کرنے کی اجازت دو۔”
کیونکہ طویل خشک سالی سے جنگل جل رہے ہیں،
مجھے اس آگ کو بجھانا ہے۔
وادی کشمیر سیر سپاٹے کی جگہ ہے،ہزاروں سیاح برف باری کا لطف اٹھانے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں مجھے ان کا من بہلانا ہے۔
سیر و سیاحت سے وابستہ افراد کا چولہا جلائے رکھنا ہے۔
برف پہاڑوں پر جم جائیگی اور گرمیوں میں یہی برف پگھل کر دریاؤں میں پانی بن کر رواں ہوگا جس سے زراعت پیشہ افراد کی روزی روٹی چلے گی۔
ڈل جھیل اور ولر میں میری وجہ سے شکاریاں اور ہاؤس بوٹ مست دیکھیں گے۔
میں خالی سردی نہیں ہوں بلکہ کشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہوں۔
محترمہ ‘گرمی اور عالی قدر ‘سردی کی بات چیت سے ‘مست فقیر پر چودہ طبق روشن ہوئے اور اس نے کمبل اوڑھ کر “اللہ ھُو” کا نعرہ لگایا۔
���
ویری ناگ، اننت ناگ سرینگر،موبائل نمبر؛7006146071