پاکستان کے بارے میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسی بظاہر غیر یقینیت، گومگو اور تذبذب کا شکار نظر آتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس صورت حال کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے انتخابی جیت کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان، ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کا خواہاں ہے اور اگر ہندوستان نے اس راہ میں ایک قدم بڑھایا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے فی الفور عمران خان کو ان کی انتخابی فتح پر مبارک باد کا خط بھیجا جس میں انہوں نے بامعنی اور تعمیری تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے نریندر مودی کو لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا وہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے جو دسمبر 2015 کو ہندوستان نے پٹھان کوٹ پر حملہ کا پاکستان پر الزام لگا کر منقطع کر دیا گیا تھا۔ عمران خان نے اپنے خط میں کشمیر مسئلے کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔ اس کے جواب میں ہندوستان کی حکومت نے فی الفور جمعرات 20 ستمبر کو پاکستان کو مطلع کیا تھا کہ وہ نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزارئے خارجہ کے درمیان ملاقات کے لیے تیار ہے لیکن چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پُر اسرار انداز سے حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اعلان کیا کہ ہندوستان نے وزرائے خارجہ کی مجوزہ ملاقات منسوخ کردی ہے۔ اس فیصلہ کے جواز میں پاکستان کے رینجرز پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے جموں میں ہندوستان کے ایک پولیس ہیڈ کانسٹبل کو قتل کر کے اس کا گلا کاٹ دیا ہے اور اسی کے ساتھ اس پر احتجاج کیا کہ پاکستان نے کشمیری حریت پسندبرہان وانی کی یاد میں ڈاک کے بیس ٹکٹ جاری کئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام آباد اپنی راہ تبدیل نہیں کرے گا اور بقول بھارتی ترجمان کے اسلام آباد کے پروپیگنڈے نے نئے وزیر اعظم عمران خان کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ ہندوستانی ترجمان نے نیویارک میں سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی ملاقات کی منسوخی کا اعلان جمعہ 21 ستمبر کو کیا اور جواز جموں کے مبینہ واقعہ کو بنایا گیا جب کہ جموں کا مبینہ واقعہ بتایا جاتا ہے جمعرات 20 ستمبر کی دوپہر کو ہوا تھا اور اسی روز ہندوستان نے نیویارک کی ملاقات کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستانی میڈیا نے انکشاف کیا کہ جمعرات 20 ستمبر کی دوپہر کو پاکستان کی رینجرز کے اہل کاروں نے ہندوستان کی بارڈر سیکورٹی فورس کو ٹیلی فون کر کے تردید کی تھی کہ ہیڈ کانسٹبل نریندر سنگھ کے قتل میں رینجرز کا کوئی ہاتھ ہے۔ مجوزہ نیو یارک ملاقات کی منسوخی کے سلسلے میں ہندوستان کی منطق اس لحاظ سے بے حد عجیب و غریب نظر آتی ہے کہ پہلے تو جس روز جموں کا مبینہ واقعہ پیش آیا اسی روز ہندوستان نے نیویارک میں وزرائے خارجہ کی ملاقات پر رضا مندی ظاہر کی، دوسرے ملاقات کی منسوخی کے سلسلے میں ہندوستان نے پاکستان میں برہان وانی کی یاد میں ڈاک کے ٹکٹوں کے اجراء کا معاملہ اٹھایا۔ بتا یا جاتاہے کہ ڈاک کے یہ ٹکٹ 24؍ جولائی کو جاری ہوئے تھے۔ اس وقت ہندوستان کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس وقت کوئی احتجاج کیا گیا تھا جب نریندر مودی نے عمران خان کو ان کی فتح پر مبارک باد پیش کی تھی اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی نیو یارک میں ملاقات پر ہندوستان نے رضا مندی ظاہر کی تھی۔ یہ تذبذب نہیں تو اور کیا ہے جو نریندر مودی کی پاکستان پالیسی سے جھلکتا ہے؟ نریندر مودی ہی تھے جو ممبئی دہشت گردانہ حملہ کے باوجود جس کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے اور جس کے ردعمل میں اسلام آباد سے تمام سفاری اور سفری روابط منقطع کر دئے گئے تھے، 2015 میں کرسمس کے دن نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد پیش کرنے اور ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے اچانک کابل سے دلی جاتے ہوئے راستہ میں لاہور میں اُترے تھے۔ پھر دوستی کے اس اظہار کے فوراً بعد تحقیق طلب پٹھان کوٹ حملہ کے پس منظر میں مودی سرکار نے پاکستان سے تمام روابط منقطع کردئے بلکہ لائین آف کنٹرول کے پار مبینہ طور سرجیکل آپریشن کے نام سے پاکستان پر فوجی حملہ کر دیا۔ اس دوران نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیراجیت دووال نے کھلم کھلا پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ بقول اُن کے پاکستان ممبئی پر ایک حملہ کر سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان صوبہ بلوچستان کو کھو سکتا ہے۔ نیز نریندر مودی کی حکومت نے بڑے بھر پور انداز سے پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کو شہ دینے والا ملک قرار دینے کی اپنی مہم شروع کی اور اعلان کیا کہ جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دیتا رہے گا، ہندوستان پاکستان سے کسی سطح پر بات چیت نہیں کرے گا۔ اسی کے ساتھ نریندر مودی نے پاکستان کو سارک سے نکال کر نہ صرف جنوبی ایشیاء میں تنہا کرنے کی کوشش کی بلکہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر بندوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے پروگرام کے ذریعے اقتصادی، فوجی اور سیاسی طور پر اپنا اثر جمانے اور پاکستان کے خلاف محاذ قائم کرنے کی حکمت عملی شروع کی۔ خلیج کی ریاستوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات اورعمان میں ہندوستان اپنا فوجی اثر ورسوخ قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس سال فروری میں ہندوستان نے عمان کے ساتھ اہم فوجی معاہدے کئے ہیں جن کے تحت الدقم کی بندر گاہ میں ہندوستان کی بحریہ اور فضائیہ کو اڈوں کی سہولت حاصل ہوگی۔ الدقم بندر گاہ عین گوادر کی بندر گاہ کے سامنے واقع ہے جہاں سے اس پورے علاقہ میں ہندوستان کی فضائیہ اور بحریہ کڑی نگاہ رکھے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ہندوستا ن کو امریکا کی بھی آشیر باد حاصل ہے کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس علاقے میں ہندوستان کی بحریہ اور فضائیہ چین کی بحری موجودگی پر چوکسی رکھے۔ پاکستان کا محاصرہ کرنے، اسے دھمکیاں دینے اور پاکستان پر دہشت گردی کو شہ دینے کا الزام لگانے کے ساتھ اچانک پاکستان کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کے اظہار اور پھر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بات چیت کی منسوخی کے پیش نظر بظاہر پاکستان کے بارے میں مودی سرکارکی پالیسی خلفشار کا شکار دکھائی دیتی ہے لیکن بیش تر مبصرین کی رائے ہے کہ یہ خلفشار دکھاوے کا ہے اور اس کے پس پشت پاکستان کے خلاف بڑی ضرب کاری والی حکمت عملی پوشیدہ ہے۔
نوٹ: مضمون نگار بی بی سی سے وابستہ عالمہ شہرت یافتہ براڈ کاسٹر ہیں