وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست جموں و کشمیر میں آمدکا مقصد اگرچہ اس بار کئی اہم اور بڑے پروجیکٹوں کا افتتاح تھا تاہم وزیر اعظم کا کسی ریاست کا دورہ سیاسی مقاصد سے مبرا بھی نہیں ہوسکتا ،چنانچہ انہوں نے ایس کے آئی سی سی میں اپنی تقریر کے دوران کئی ایسی باتیں کہیں جو نئی دہلی کی کشمیر پالیسی اور ان کی اپنی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں ۔یہ بات ہر سیاسی تجزیہ نگار نے گرہ میں باندھ لی کہ اپنے گزشتہ دوروں کے برعکس اس بار ان کا لہجہ کافی حد تک مختلف تھا جس میں شفقت اور ہمدردی کے الفاظ کہیں زیادہ تھے ۔انہوں نے پاکستان ، دہشت گردی ، علیحدگی پسندی اور عسکریت پسندی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ جنگ بندی ، کشمیریت ، واجپائی ڈاکٹرین ، امن ، مذاکرات اور ترقی کے الفاظ کا برملا استعمال کیا ۔
یہ بات بھی محسوس کی گئی کہ ان کے مخاطب نوجوان تھے ۔انہوں نے اس کے باوجود کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ایجنڈا آف الائنس کا بار بار اور کئی بار برمحل تذکرہ بھی کرتی رہی اس پر نہ کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ اس کے بارے میں کوئی ایک جملہ بھی ادا کیا ۔اس طرح انہوںنے کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہا ۔ اپنی تقریر کے دوران جہاں وہ کشمیر کے حالات اور اس کے تمام دہکتے ہوئے پہلووں سے کنی کترا کر گزر گئے اور ایجنڈا آف الائنس کو بھی بائی پاس کیا وہیں انہوں نے قومی دھارے کے معنی بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔
انہوں نے نوجوانوں سے قومی دھارے میں شامل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ قومی دھارے میں شامل ہونے کا مطلب ملکی سیاست کا حصہ بننا نہیں بلکہ اپنے سماج کا حصہ بننا ہے ۔کشمیر کے نوجوانوں کا قومی دھارا ان کا اپنا گھر، اپنا خاندان اور اپنا سماج ہے جس کی تعمیر او ر ترقی ان کا فرض ہے ۔وہ یہ فرض ادا کرنے کیلئے خود کو تیار کریں ۔اس طرح وزیر اعظم نے یہ تاثر قائم کیا کہ کشمیر کے سنگین حالات کا علاج سخت گیری میں تلاش کرنا اب نئی دہلی کی سوچ اور پالیسی کا لب لباب نہیں ۔ اب شفقت اور محبت کے نئے آپشن تلاش کئے جارہے ہیں جن کا مرکزی ہدف نئی نسل ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نئی دہلی کی یہ نئی پالیسی اور نئی سوچ کشمیریوں کے تئیں محبت اور ہمدردی کا صلہ ہے یا ان حالات کا جبر ہے جنہوں نے آپریشن آل آوٹ کی کامیابی کو بھی ایسی ناکامی میں تبدیل کردیا جو حالات کو ابتری کی ایک نئی سطح پر لے آئے اورجس کے نتیجے میں نوجوانوں کی اکثریت عسکریت کی طرف مائل ہورہی ہے اور آبادیاں عسکریت پسندوں کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں لڑا رہی ہیں ۔جو بھی ہو بھاجپا حکومت کشمیر کو اب ایک نئے زاویہ نگاہ سے سمجھنے کیلئے کوشاں ہے ،جو اس کے اپنے روایتی نقطہ نظر کے خلاف تو ہے لیکن اس کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے ۔
اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں کشمیر بہرحال ایک اہم مدعا ہوگا اس لئے بھاجپا کی مجبوری ہے کہ کشمیر میں حالات پرسکون رہیں چاہے اس کے لئے اسے کشمیر سے متعلق اپنے نظریات کی قیمت ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔کرناٹک میں حکومت کے حصول کی ناکامی اور اپوزیشن کے متحد ہونے کے پیش نظر یہ اور بھی زیادہ ضروری ہوگیاہے ۔نئی پالیسی اور سوچ کے خاکے میں عسکریت پسندوں کو جان سے مارنے کے بجائے انہیں زندہ گرفتارکرنا مرکزی اہمیت رکھتا ہے تاکہ عوامی غیض و غضب کو ابھرنے کا کوئی موقع فراہم نہ کیا جائے جبکہ شہری ہلاکتوں سے پرہیز کیلئے ہر ممکن طریقہ کار اختیار کرنا بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس سوچ کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں کو قومی دھارے کے ساتھ وابستہ کرنے کیلئے قومی دھارے کا بیانیہ ہی تبدیل کیا جائے ۔ایسا اس لئے ضروری سمجھا گیا ہے کہ کشمیر میں قومی دھارا ایک قابل نفرین اصطلاح بن چکا ہے ۔زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو جو اب تک قومی دھارے کا مفہوم رہا ہے وہی موجودہ حالات کی سب سے بڑی بلکہ بنیادی وجہ ہے ۔قومی دھارے کی موجودہ تنظیموں میں سے ایک بھی نہیں جو عوام کے ساتھ جڑی ہو ۔اس لفظ کی اعتباریت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔اب اگر قومی دھارے کو نئے معنی اور مفہوم دئیے جاتے ہیں تو کیا ان زخموں کے مندمل ہونے کا کوئی امکان ہے جو اس دھارے نے کشمیر کے ہر جذبے اور ہر مفاد کو اپنے اقتدار کیلئے اس قوم کے انگ انگ کو دئے ہیں ۔اقتدار کا یہ دھارا کیا عوامی دھارے میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔ یہ نہایت حساس سوال ہے ۔
ما ہ رمضان کی جنگ بندی کے بعد حالات کی شدت اورحدت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس کا اظہار ڈی جی بی ایس ایف نے بھی کیا ہے اور ڈی جی پولیس نے بھی لیکن جنگجووں کی اپنی بھی سٹریٹجی ہے اور پاکستان کی بھی اپنی سٹریٹجی ہے ۔ اکثر بار ایسا ہوا ہے کہ عسکری حملوں میں اچانک کمی واقع ہوئی جسے حالات میں تبدیلی سے تعبیر کیا گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ حالات میں یہ کوئی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اور زیادہ ابتری کا انتظام تھا ۔بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن پر اس وقت پوری توجہ مرکوز ہے ۔ بی ایس ایف اور فوج دونوں کی توجہ کشمیر کے زمینی حالا ت سے ہٹ چکی ہے ۔جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ۔
پاکستان میں انتخابات نزدیک آرہے ہیں اور بھارت بھی انتخابات کی تیاری کررہا ہے اس لئے کشمیر کے زمینی حالات سے زیادہ دونوں سرحدوں کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ کشاکش کیا صورت اختیار کرتی ہے اس پر آنے والے وقت میں کشمیر کے حالات کا دار و مدار ہوگا ۔پی ڈی پی اور قومی دھارے کی دیگر مقامی جماعتیں موجودہ حالا ت اور نئی دہلی کا اپروچ سمجھنے اور اپنا کردار تلاش کرنے کی تگ و دو کررہی ہیں ۔ مزاحمتی خیمہ بھی فعال کردا ر کی تلاش میں ہے اور عوام صورتحال کااندازہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ آنے والے چند مہینے ہر سیاسی قوت کیلئے بڑے اہم ہیں اور بڑی تبدیلیوں کی توقع کرنا غلط بھی نہیں ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)