سرینگر//نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر نئی دلی کے مسئلہ کشمیر سے متعلق غیر حقیقی اور متکبرانہ اپروچ کی بڑی وجہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی صدر اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی کشمیر سے متعلق گزشتہ روز کی تقریر پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی تقریر کا ایک ایک لفظ گویا مسئلہ کشمیر سے متعلق سچ بولنے والوں کے لئے دھمکی تھی۔انہوں نے الزام لگایا کہ ناشری میں ٹنل کے افتتاح کی تقریب پر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی وزیر اعظم کے پی ایس او کی طرح شامل تھیں جبکہ گورنر ووہرا وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ تھے جو کہ جمہوری طور منتخبہ وزیر اعلیٰ کی تذلیل اور نئی دلی کے جموں کشمیر کو ایک نو آبادی کی طرح لینے کی سوچ کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ دراصل نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی علاقائی جماعتوں نے ہمیشہ ہی نئی دلی کے ڈھنڈورچیوں کا کردار ادا کرنے کے علاوہ کشمیریوں کو اپنے خاندانی ریوڑ کی طرح لیا ہے اس بات سے نئی دلی کی کشمیر کے تئیں،نو آبادیاتی سوچ میں مزید بگاڑ آیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے کشمیریوں کی خواہشات کی باتیں کرنے اور سنگھ پریوار کے خلاف بیان دینے سے دراصل خود کا مذاق بنایا ہے کیونکہ وہ بھول گئے ہیں کہ جب انکی سرکار کی منظور کردہ اٹانومی کی قرارداد کو ردی میں پھینک دیا گیا تھا تو انہوں نے سنگھ پریوار کی ماتحت این ڈے اے سرکار سے اپنے وزیر مملکت بیٹے عمر عبداللہ کو استعفیٰ دینے کے لئے کہنے تک کی ہمت نہیں کی تھی۔انہوں نے کہا کہ مساوی طور محبوبہ مفتی نے جموں کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ کو مزید بے اعتبار کردیا ہے کیونکہ وہ بی جے پی کی اپرگراونڈ ورکر کی طرح کام کر رہی ہیں۔انجینئر رشید نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ محبوبہ مفتی کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیئے کہ ادھمپور ریلی کے دوران انکی پارٹی کا ایک بھی جھنڈا کیوں نظر نہیں آرہا تھااور وزیر اعظم کی جئے جئے کار کے دوران ان کے نام کا کہیں سے ایک بھی نعرہ کیوں سنائی نہیں دیا۔نریندر مودی کی تقریر میں کشمیریوں کے نام کی دھمکیوں اور نصیحتوں کومسترد کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ وزیر اعظم کو پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر انگلیاں اٹھانے سے قبل معلوم کرنا چاہیئے تھا کہ حد بندی لکیر کے اُس پار لوگوں کو اس حد تک بہتر بنیادی سہولیات دستیاب ہیں کہ ہر طرح کی سہولیات کے لئے ترسنے والے گریز،کیرن،کرناہ اور اوڑی کے لوگوں نے تنگ آکر کئی بار وہاں مدد کے لئے پکارنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اُس پار کے کشمیر میں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ صدر کا ادارہ بھی قائم ہے اور آزاد کشمیر کا اپنا پرچم، پاکستانی پرچم کے ساتھ ساتھ ہر جگہ،یہاں تک کہ سرحد پر قائم فوجیوں چوکیوں پر بھی لہرارہا ہے۔انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ وزیر اعظم مودی اور بھارتی میڈیا کچھ اس انداز سے کشمیر کی تصویر پیش کرتا ہے کہ جیسے کشمیری پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہوں اور ترقی کے سفر میں دنیا کے شانہ بشانہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہوں حالانکہ صورتحال اس سے مختلف بلکہ برعکس ہے۔کشمیر میں سنگبازی کرنے والوں کا ٹنلوں کی تعمیر کے لئے پتھر پھوڑنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کو غیر ضروری اور بے جا بتاتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ جس دن بھی نئی دلی نے جموں کشمیر کو متنازعہ مان لیا اس دن یہاں ہونے والی سنگبازی نیک خواہشات اور باہمی احترام میں بدل جائے گی۔اس دوران سرینگر کے ہوائی اڈے پر ایک فوجی جوان کی تحویل سے دو دستی بم برآمد کئے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت مل گیا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں بذات خود مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کو دیکھ کر یہاں تک بھی سوچا جاسکتا ہے کہ مذکورہ فوجی جہاز کو اغوا کرکے اس واقعہ کوکشمیریوں کی عوامی تحریک کو بدنام کرنا چاہتا ہو۔