اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ نریندر مودی کمال کے ہوشیار آدمی ہیں۔بات کو کیسے گھمانا ہے،کوئی ان سے سیکھے۔اکثر و بیشتر یہ دیکھاگیا ہے کہ بات کچھ اور ہوتی ہے یا مسئلہ کچھ اور ہوتا ہے اور یہ حل کچھ اور تجویز کرتے ہیں یا غیر ضروری چیزوں کو اس کی جگہ پر لے آتے ہیں کہ بحث کا رخ کہیں اور مُڑ جاتا ہے اور اصل مسئلے سے لوگ توجہ ہٹا لیتے ہیں۔وزیر اعظم اپنی دانست میں ایسا سوچتے ہوں گے کہ چلو کچھ دن راحت کی سانس ملے گی۔بنابریں وہ آئے دن کچھ نہ کچھ شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں تاکہ لوگ باگ لفظوںکے انہی گورکھ دھندوںمیں الجھے رہیں اور یہ حضرت کیا کررہے ہیں ،اس بارے میں سوال نہ کریںلیکن جمہوریت میں یہ ممکن نہیں کہ یہ سوالوں کا جواب دینے کے لئے مجبور نہ ہوں بلکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے۔اگر یہ جواب نہیں دیں گے تو لوگ جواب دے دیں گے۔اسی لئے تو جمہوری نظام میں عوام کے ووٹوں کی اہمیت ہے اور عوام ہی یہاںمرکزیت رکھتے ہیں۔اگرچہ ملک ہندوستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے جس کی میعاد ۵؍برس ہوتی ہے لیکن مودی جی ہر وقت ۲۰۲۲ ء تک کی بات کرتے ہیں جب کہ گزشتہ الیکشن ۲۰۱۴ء میں انجام پایا تھا۔اس زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھئے تو یہ ۸؍سالہ مدت کار مانگ رہے ہیں جب کہ چن کر یہ ۵؍برسوں کے لئے آئے ہیں۔کس امید اور کس قانون کے تحت یہ ایسا ببانگ دہل کر رہے ہیں ،اس کی باز پرس ضروری ہے۔ بہرحال اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمہ وقت عوام کوبے وقوف بنانے کے درپے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میںصدارتی خطاب پر تحریک شکریہ کی تقریر میں وزیراعظم مودی جی اپنی حکومت کے کام گنوانے کے بجائے گانگریس کی ۱۰۰؍سالہ برائیاں گنواتے رہے۔ ندا ؔفاضلی کی زبان میں مودی جی نے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں کانگریس کو پھاڑ ڈالا،ایسا میڈیا کے بیشتر حلقوں نے بتلانے کی کوشش کی اور مودی جی کی تقریر کو ایک’’ کامیاب‘‘ تقریر قرار دیا لیکن میڈیا یہ بتانے سے قاصر رہا کہ ایسی تقریر کے لئے کیا وہ پلیٹ فارم مناسب تھا؟کیا یہ قطعی طور سیاسی تقریر نہیں تھی؟بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک الیکشن تقریر پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے کی گئی ۔ دوسرے لفظوں میں مودی جی نے انتخابی مہم کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کیا۔وہ بولتے گئے جو بھی جی میں آیا اور ذرابھی پارلیمنٹ کے وقار کا خیال نہیں رکھا اور نہ ہی اپنے ہی عہدے کا پاس رکھا۔ جب کانگریس کی ایک خاتون لیڈررینوکا چودھری کے قہقے کا یہ کہہ کر مذاق اُڑایا کہ ایسی ہنسی میں نے رامائن سیرئل میں سنی تھی۔بات دراصل یہ ہے کہ مودی جی کی باتیں ہی ایسی ہوتی ہیں جو بھکتوں کو چھوڑ کر سب کو ہنسنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ممکن ہے کہ رینوکا چودھری کی ہنسی میںوزیر اعظم کی تحقیر کا پہلو بھی رہا ہو،اگر ایساہے تو اس کے لئے رینوکا جی قابل ِگرفت ہیں لیکن ایک رُکن پارلیمان کے ردعمل پر وزیر اعظم کو یوں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۵۶؍انچ کا سینہ لئے ہوئے اندر سے کتنے کمزور ہیں کہ ایک خاتون کی ہنسی کو اپنی تضحیک گردانتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی تقریر دل پذیرسے بھی یہ اندازہ ہوا کہ یہ کانگریس سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں ۔ انہیں خوف ہے کہ کہیں اگلے الیکشن میںوہ ہارنہ جائیں،اس کی وجہ سے ان کے ذہن پر کانگریس سوار ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے اورتقر یریں جھاڑتے ہر جگہ کانگریس کو کوستے رہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ابھی تک انتخابی ماحول میں جی رہے ہیں ۔ اگرچہ انہوں نے ریاستوں پر ریاستیں جیت لی ہیں لیکن اب بھی ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسا مانئے اپوزیشن میں ہیں۔اگر انہوں نے اپنی اِس روش کو ترک نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں کہ حقیقتاً یہ اپوزیشن کا حصہ بن جائیںگے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسی خوف کے عالم میں کچھ کا کچھ نہ کچھ ہانکتے رہتے ہیں۔چونکہ ابھی تک بیشتر انتخابات یہ جیتتے رہے ہیں،اس لئے ہار کو یہ شاید برداشت نہ کر سکیں۔حالانکہ یہ تو زندگی کا لازمی حصہ ہے کہ جہاں جیت ہوگی وہاں ہار بھی ہو سکتی ہے۔اسی آفاقی حقیقت کو نہ ماننے کی وجہ سے ان میں یہ سارا تقریری خلفشار پیدا ہوا ہے۔ اصل یہ ہے کہ انہیں ڈر ہے تو صرف کانگریس سے ،کیونکہ کانگریس ہی انہیں شکست دے سکتی ہے جس کی موجودگی ملک کے ہر حصے میں ہے جہاں پر بی جے پی ابھی پاؤں پسار رہی ہے۔جہاں جہاں بی جے پی کا کانگریس سے راست مقابلہ ہے اور وہاں مقامی پارٹیاں نہیں ہیں یا نہ کے برابر ہیں،یہ دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کانگریس بازی نہ مار لے۔ایسا سیاسی پنڈت بتا بھی رہے ہیں کہ جو کارکردگی بی جے پی نے مودی جی کے بل بوتے پر ۲۰۱۴ء میں دکھائی تھی وہ ممکن نہیں ہے کہ ۲۰۱۹ء میں بھی دہرائی جائے۔جیسے مثال کے طور پر اُتر پردیش کی ۸۰؍سیٹوں میں سے بی جے پی نے ۷۲؍سیٹیں جیت لی تھیں،اسی طرح گجرات اور راجستھان کی تمام سیٹیں۔مدھیہ پردیش کی ۹۵؍فیصد سیٹیں اور مہاراشٹر کی بھی یہی حالت تھی لیکن آج حالات بدل گئے ہیں اور یہ مودی جی کو بھی لگنے لگا ہے کہ ویسی اتفاقی کارکردگی دوبارہ ممکن نہیں ہے۔ہر جگہ کانگریس اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ بی جے پی کو بھر پور ٹکر دے سکے کیونکہ اس نے گجرات اور ابھی ابھی ہوئے ضمنی انتخابات میں اپنا زور دکھا دیا ہے۔جب ہو ابی جے پی مخالف چلے گی تو یوپی میں بھی بی جے پی کو محدود سیٹوں پر روکا جا سکتا ہے۔
اسی لئے اپنی تقریروں میں چاہے وہ پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا باہرمودی جی کانگریس کو کوستے رہتے ہیں اور زیادہ تر ایک ہی بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’ایسا ہوا ہوتا تو ملک کی حالت ایسی نہیں ہوتی‘‘۔ممکن ہے کہ ان کے دل میں ملک کے تئیں مثبت جذبہ ہو لیکن یہ کیوں ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ جو بیت گیا وہ ماضی کا حصہ ہے اور کسی طرح سے بھی اُس سوئی کو اُلٹا نہیں گھمایا جا سکتا۔جیسے مودی جی نے کہا کہ سردار پٹیل اگر ہندوستان کے وزیر اعظم بنائے جاتے تو آج ملک کی حالت کچھ اور ہوتی اور کشمیر پورا کا پورا ہمارا ہوتا۔یہ جواہر لال نہرو کی وجہ سے ایسا ہوا کہ آدھا کشمیر پاکستان نے لے لیا۔مودی جی غالباً بہت بڑی غفلت میں ہیں ۔اِنہیں تو نہرو کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہئے کہ آج کشمیر کا جو حصہ ہمارے پاس ہے اُنہی کی وجہ سے ہے ورنہ پٹیل اگر پی ایم بنائے گئے ہوتے تو کشمیر کیا بہت سارے حصے آج ہمارے پاس نہیں ہوتے کیونکہ یہ بات دستاویز سے ثابت ہے کہ ایک موقع پرسردار پٹیل جونا گڑھ اور حیدر آبادکے ہندوستان سے الحاق کے بدلے میں رضاکارانہ طور پرپورا کشمیر پاکستان کو دینے کے لئے تیار تھے۔یہ تو نہرو کی دور بینی تھی کہ آج ہندوستان ایک لبرل ملک ہے ورنہ پٹیل کے وزیر اعظم ہونے کی صورت میں آج ہمارا بھی حشر پاکستان جیسا ہوتا۔یہ اور بات ہے کہ مودی جی یہ کہیں کہ پٹیل ہوتے تو پاکستان ہی نہیں ہوتا، اُس کے بعد نہ ’حشر‘ کی بات آتی لیکن یہ جان لیں کہ پٹیل کسی بھی طرح پاکستان بننے سے روک نہیں سکتے تھے کیونکہ بادی النظر میں پاکستان بننے اور ملک کے بٹوارے میں اُن کا بھی ہاتھ ہے۔ہندوستانی کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ اُن کی نظر میں نہرو کیسے ہیں تو جواب یہ ملتا ہے کہ نہرو ایک ویلن سے کم نہیں جنہوں نے شیخ عبداللہ کو برسہا برس قید میں رکھ کر کشمیر کی تحریک کو روندا۔کشمیریوں کی نظر میں نہرو کبھی بھی معتبر نہیں رہے۔اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مفاد میں نہرو نے وہ سارے کام کئے جو اُنہیں کرنے تھے اور اِس پر ہم تمام ہندوستانیوں کو بشمول وزیر اعظم مودی کو ناز ہونا چاہئے۔
مودی جی کو چاہئے کہ اپنی ۴۴؍مہینے کی کارکردگی کی بات کریں۔راہل گاندھی صحیح کہتے ہیں کہ کانگریس پر تنقید کرنے سے ووٹ تو مل جائیں گے لیکن ملک کے حالات نہیں بدلیں گے۔مودی جی کو ملک کو درپیش شدید مسائل کے تعلق سے پارلیمنٹ میں تقریر کرنی چاہئے تھی۔کسانوں کے مسائل، بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت دینے،رافیل سودے کی لین دین اور (ہجومی )تشدد کی روک تھا م جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ۱۷؍فیصد بڑھ گئے ہیں اور جو خاص طور پر اُن ریاستوں میں بڑھے ہیں جہاں پر بی جے پی کی حکومت ہے، اِن مسائل کا اپنی تقریر میں احاطہ کرنا چاہئے۔۴۴؍مہینوں بلکہ اس سے پہلے سے بھی کانگریس کو بھلا بُرا کہہ کر اپنی دکان تو چمکا لی ہے اب اس کی چمک کو بھی برقرار رکھنے کے لئے یہی حربے کام آئیں گے،ایسا لگتا تو نہیں ہے!غالبؔ کے اِس مصرعے پر اگر ذرا سا کان دھر لیں تو ممکن ہے کہ مودی جی کے لئے کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں ع
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883