اسلام آباد//پاکستان نے امریکا۔بھارت مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ تحریک آزادی کو دہشت گردی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حامی کو دہشت گرد قرار دینا ناقابل قبول ہے۔پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکر یا نے کہا کہ خطے میں کشیدگی کی وجہ جانے بغیر مشترکہ اعلامیہ مزید مسائل کا باعث بنے گا اور یہ اعلامیہ خطے میں دیرپا امن واستحکام کے قیام میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے درمیان ملاقات کے بعد امریکہ-بھارت مشترکہ اعلامیہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں کشیدگی کی وجہ جانے بغیر مشترکہ اعلامیہ مزید مسائل کا باعث بنے گا اور یہ اعلامیہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے قیام میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ۔مودی ملاقات کے دوران خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے ایک اچھے موقع کو ضائع کردیا گیا جہاں امریکا نے بھارت کی جانب سے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے نریندر مودی کی پالیسیوں کو ترک کرنے کا بہتر موقع بھی گنوا دیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو جدید ملٹری ٹیکنالوجی کی فروخت پر شدید تشویش ہے، اس قسم کی ٹیکنالوجی کی فروخت سے خطے میں فوجی عدم توازن پیدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرکے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ اس صورت حال میں بھارت پاکستان مخالف جارحیت اور مہم جوئی میں مزید اضافہ کرے گا۔خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے سرحد پار سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے خلاف پراکسی وار کے طور پر استعمال کیا ہے اس لیے پاکستان اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے بھارتی عزائم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں وہ خود ہی پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کے لیے تیار ہے۔