گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندرمودی نے بھاجپا کوچڑھتے سورج کی شعاعوں سے تشبیہ دیتے ہوئے اس پارٹی کی کا میابیوں اور کامرانیوں کی پیش گوئی کی تھی اور اسے ہندوستان کی ناقابل تسخیر قوت قراردیاتھا۔ یہ اُسی قسم کی پیش گوئی او ر دعویٰ بلادلیل ہے جیسا اٹل بہاری واجپائی دور کے اواخرمیں اس وقت کئے نائب وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی نے ــــ’’درخشاں ہند وستان‘‘ کا خواب دکھا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکامی کا سامنا کرناپڑاتھا۔ البتہ آثار وقرائین سے ظاہر ہوتاہے کہ نریندرمودی اور بھاجپا کے لئے طلوع آفتاب کی شعاعیں نہیںبلکہ عملاً غروبِ آفتاب کی کرنیںنمودار ہونے لگی ہیں۔ اس رحجان کی غمازی گزشتہ دنون ضمنی انتخابات کے دوران شمالی ہندوستان کی ریاستیں (جو سیاسیاتِ ہند کا محور رہی ہیں اور جہاں گزشتہ لوک سبھا کے انتخابات میں بھاجپا کو ناقابل یقین کامیابی حاصل ہوئی تھی) میںہوئے حالیہ انتخابات سے ہوتاہے۔ ڈھلتے سورج کی ان کرنوں کا آغاز گجرات کے اسمبلی کے انتخابات سے ہوگیاتھا جہاںمرکزی حکومت کے تمام وسائل، نریندرمودی کی زبردست تگ ودَو ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بلند قامت مجسمہ کی تعمیر کرکے گجراتی شاو نزم کو درجۂ کمال تک پہنچایا گیاتھا، خود گجراتی ہونے کی حیثیت میں ایک ہم وطن گجراتی وزیراعظم کی عزت بچانے کاواسطہ دیا گیاتھا،کذب وافتراء اور لغو بیانی کی انتہاء کی گئی تھی ،فرقہ وارانہ جذبات کو برانگیختہ کرکے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن باوجود ان سب کاوشوں کے انتخابی نتائج سے بھاجپا کی سیاسی پسپائی صاف ظاہر ہوگئی تھی۔بے شک گجرات میں اقتدار حاصل کرنے میں بھاجپا نے ضرور کامیابی حاصل کرلی لیکن ان انتخابات کے ذریعہ بھاجپا کے چراغِ سحری ہونے کے واضح اشارے ضرور مل گئے تھے۔ اس کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش، اُترپردیش، بہار وغیرہ میں اسمبلی کے انتخابات میں بھاجپا کی جوگت بنی ہے، وہ بھاجپا کے آمادہ ٔ زوال ہونے کے اشاروں کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ ان ضمنی انتخابات سے پیشتر پنجاب میںبھاجپا اور اُس کے اتحادی اکالی دل کی شکست نے بھی اس زوال کے اشاروں کی نشاندہی کردی تھی اور پھر پنجاب کے بلدیاتی اداروںمیں جنہیںبھاجپا کے گڑھ سمجھا جاتاتھا، وہاں اس پارٹی کو جو ہزیمت اُٹھانی پڑی ہے، اُس سے ہرکوئی بخوبی جانتاہے۔
حال ہی میں اُترپردیش کے ضمنی انتخابات میں بھاجپا کو جس طرح منہ کی کھانی پڑی ہے،اُس سے مستقبل کے متعلق بھاجپا کا کھاتہ بند ہونے کی اچھی طرح نشاند ہی ہوتی ہے۔ لوک سبھا کے گزشتہ انتخابا ت میں اُترپردیش سے لوک سبھا کی 80سیٹوں میں بھاجپا نے 73 سیٹوں پر قبضہ کرلیاتھا۔ ابھی صرف ایک برس پیشتر اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میںجس طرح لاثانی کامیابی بھاجپا نے حاصل کرکے ریاستی اقتدار پر قبضہ کیاتھا، وہ بھی ابھی کل کی ہی بات ہے لیکن حالیہ لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں خود اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حلقۂ انتخاب گورکھپور میں بھاجپا اُمیدوار کو جس طرح شکست فاش ہوئی ہے ، وہ آئندہ رونما ہونے والے سیاسی حالات کا پیش خیمہ کہلا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ بننے سے پیش تر یوگی آدتیہ ناتھ خود اس حلقہ سے لوک سبھا کے ممبر رہے تھے اور وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں اُن کے استعفیٰ کے باعث اس سیٹ پر ضمنی انتخاب لازم ہواتھا۔ 1989سے لے کر اس حلقۂ انتخاب سے یوگی آدتیہ ناتھ بھاجپا اُمیدوار کے طورپر اس حلقہ سے متواتر منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن اب کی بارتمام تر کوششوںاور سرکاری اثر ورسوخ کے استعمال ، مذہبی پرچار اور بھاجپا کا روایتی گڑھ ہونے کے باوصف اس حلقہ میں بھاجپا کی شکست انتہائی معنی خیز ہے۔ اسی طرح اُترپردیش کے لوک سبھا حلقہ انتخاب پھول پور سے اُترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کے استعفیٰ کے بعد یہاں ضمنی انتخاب ناگزیر ہواتھالیکن وہاں بھی بھاجپا کو شکست وریخت کا منہ دیکھنا پڑاہے۔ ان ہر دو نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست جس میں لوک سبھا کی 80سیٹیںہیں، میں بھاجپا کی کیا حالت ہوگئی ہے۔ کیا اس سے بھاجپا کا سورج غروب ہونے کی علامتیں ظاہر نہیںہوتیں؟ اسی طرح بہار کی ریاست میں رایا نام کی لوک سبھا کا ضمنی انتخاب ہوا ۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کو لالو پرشاد یادو سے الگ کرنے کے بعد بھاجپا لیڈر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور اس ضمنی انتخاب میں اس نشست کو بھا جپا اپنی جیب میں خیال کرتے تھے لیکن باو جویکہ لالو پرشاد یادو جیل میںقیدہیں، اُن کی بیٹی اور بیٹے پر مقدمات چلا کراُنہیں بدنام کیا جارہاہے، پھر بھی وہاں بھاجپا کو کراری شکست ہوئی اور راشٹر جنتادل لالو پرشاد یادو کی پارٹی کا ایک مسلم اُمیدوار سرفراز عالم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا ہے۔ پیشترازیں راجستھان کی اجمیر اور الور کی دو سیٹوں سے بھاجپا ئی اُمیدواورں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑاہے۔ جہاں سے گزشتہ انتخابات میں بھاجپا کے اُمیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخاب میں جہاں کے وزیراعلیٰ نے ایک سیٹ کو سیاسی وقارکا سوال بنایاتھا، میں بھی بھاجپا کو شکست فاش ہوئی ہے۔ان یکے بعد دیگرے واقعات سے کماحقہ یہی ظاہر ہوتاہے کہ عوام نریندرمودی کے جادو سے باہر آرہے ہیں اور اسی مناسبت سے بھاجپا کا ستارہ گردش میںہے۔
بھاجپائی قیادت اپنی شکستوں کو شمال مشرق کی تین ریاستوں میںکامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹ کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہی ہے لیکن وہاں کی’’ کامیابی‘‘ بھی بناوٹی ہے۔ تری پورہ کوچھوڑ کر باقی دو ریاستوں میگھالیہ اور ناگا لینڈمیں وزارتیں علاقائی پارٹیوں کی قیادت میں بنی ہیں اور وہ بھی سیاسی ہارس ٹریڈنگ کے باعث ،مثلاً میگھالیہ میں اکیلی سب سے بڑی پارٹی کانگریس پارٹی تھی۔ بھاجپا کو وہاں صرف دو اسمبلی سیٹیںملی تھیں۔ قواعد کے مطابق گورنر کو وزارت سازی کے لئے کانگریس پارٹی کو دعوت دینی چاہے تھی لیکن بھاجپا نے چال بازی سے ایک علاقائی پارٹی کا پچھلگو بن کر ایسی پارٹی کو دعوت دلوائی جس کے خلاف اُس نے اسمبلی انتخابات میں خود الیکشن لڑاتھا۔ کیا دو ممبری پارٹی ایک علاقائی پارٹی کا دُم چھلابن کر گورنر سے غیر آئینی طورپر وزارت کی دعوت حاصل کرنے کو ’’کامیابی ‘‘کادعویٰ کرسکتی ہے ؟اور اس پر ’’فتح ‘‘کے ڈنکے بجاسکتی ہے؟ اسی طرح ناگا لینڈ میں بھی ایک علاقائی پارٹی کی وزارت بنی ہے اور بھاجپا اُس کی قیادت میں ادنیٰ حصہ دار کے طورپر شامل ہے۔ البتہ تری پورہ میں اُس نے سی پی ایم کو ضرور شکست دی ہے لیکن وہ اس لئے کہ وہاںکے عوام سالہا سال سے سی پی ایم سے نالاں ہوچکے تھے اور کسی متبادل کی تلاش میںتھے۔ تری پورہ میں بھاجپا کی کامیابی مثبت نہیں ہے بلکہ منفی ووٹ کی بنیاد پر ہے۔ دراصل تری پورہ میں بھاجپا نے کانگریس کو ملنے والا ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔ اُس پر اس قدر اُچھل کود کر نا اور شور شرابہ کوئی سیاسی دیدہ وری نہیںہے۔
پھر غور کیجئے کہ ان تینوں ریاستوں میںایک ایک ممبر لوک سبھا منتخب ہوتا ہے۔ ایک ایک ممبری ریاستوں میںکامیابی اور وہ بھی سیاسی چالبازیوں کے ذریعہ بہار، اُترپردیش، راجستھان ، مدھیہ پردیش، پنجاب جیسی کثیر التعداد لوک سبھا ممبروں کی حامل ریاستوں میں بھاجپا کی شکست کے رحجان کا متبادل نہیں بن سکتے اور ان کثیر آبادی والوں ریاستوں میں شکت کے رحجان ایک ایک ممبری حامل ریاستوں میں کامیابی کا بدل ثابت نہیںکیا جاسکتا۔بھاجپا کی اتحادی پارٹیاں بھی نالاں ہیں اور الگ تھلگ ہونے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ مہاراشٹر کی شو سینا جوکہ سب سے دیرینہ بھاجپا کی اتحادی پارٹی ہے۔ بسااوقات بھاجپا کی برسر اقتدار قیادت کے خلاف تیکھے تنقیدی تبصرے کررہی ہے اور اب اُس نے کھلم کھلا کہہ دیاہے کہ 2019کے انتخابات بھاجپا سے الگ اپنے بل بوتے پر ہی انتخابات لڑے گی۔
آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے پہلے اپنے وزراء مودی کابینہ سے الگ کرلئے ہیں اور اس پارٹی کی لیڈر آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو نے برملا کہہ دیاتھا کہ آل انڈیا سطح پر بھاجپا کی قیادت زوال پذیر ہورہی ہے او ر اس کے بعد تیلگو دیشم پارٹی این ڈی اے سے الگ ہوگئی ہے۔ وہ مودی کے خلاف علامتی طور ہی سہی وہ لوک سبھا عدم ا عتماد کی تحریک لانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ اکالی دل کے لیڈروں نے بھی کئی بار بھاجپا لیڈر شپ سے ناراضگی کا اظہار کیاہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھاجپا قیادت اپنے اتحادیوں کااعتماد اور بھروسہ بھی کھوتی جارہی ہے۔ یہ نشانیاں طلوع ہونے والے سورج کی شعاعوں کی نہیں بلکہ ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنوں کی علامات ہیں۔ خود بھاجپا کے اندر بھی نریندرمودی اور امت شاہ قیادت کے خلاف جذبات دل ہی دل موجزن ہورہے ہیں۔ لال کرشن ایڈوانی اور جوشی جیسے لیڈر بھی کنارہ کشی ہوکر بیزار بیٹھے ہیں۔ اب یشو نت سنہا اور شتروگھن سنہا نے بھی مرکز برسراقتدار قیادت کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ہے ۔ توگڑیا جیسے وشو ہندو پریشد کے سخت گیر لیڈر نے بھی اس قیادت کے خلاف اُسے ہلاک کرنے کی سازش کے الزامات عائد کرنے شروع کردئے ہیں۔ سبھرامنیم سوامی بھی اس قیادت کے خلاف گاہ بگاہ بیان بازی کررہے ہیں۔ غرض یہ کہ خود بھاجپا کے اندر ونی صفوں میں بھی نریندرمودی اور امت شاہ قیادت کے خلاف ناراضگی اور بیگانگی کی مضبوط روپائی جاتی ہے جو اگراور تقویت پکڑگئی تو بھاجپا قیادت کے انحطاط پر منتج ہوگی۔نریندرمودی اور بھاجپا کے خلاف عام مزدوروں، کسانوں، چھوٹے سرمایہ داروں ، تاجرین اور دیگر محنت کش طبقوں، غرباء بے روزگاروں اور تعلیم نوجوانوں میںسخت ناراضگی اور مایوسی پائی جاتی ہے کیونکہ اس قیادت نے 2014کے لوک سبھا انتخابات میںعوام سے اچھے دن کے جو بڑے بڑے وعدے کئے تھے، اُن کو پورا کرنے میں یہ ناکام رہی ہے، جب کہ کانگریسی ودر سے کئی سوگنا مہنگائی آج بازاروں کی پہچان بن چکی ہے۔
2014کے لوک سبھا انتخاب کے دوران انتخابی مہم میں رشوت، بھرشٹاچار، گھپلے، گھوٹالے، سکینڈل ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے لیکن مودی راج میں بھی کانگریسی راج کی طرح ان کا دور دورہ ہے بلکہ بنکوں میںڈاکہ زنیاں کرکے بڑے بڑے سرمایہ دار رفو چکر ہوکر غیر ممالک میں داد ِعیش دے رہے ہیں۔ للت مودی ، نیرومودی اور وجے مالیہ اس کی زندہ اور منہ بولتی مثالیں ہیں ۔ بے کاری اور مہنگائی میںکوئی کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے مودی کو دوسرا محمد تغلق ثابت کردیاہے۔ معیشت تباہ حال ہے۔ لوگوں میںزبردست بے چینی ہے اور عوام جس طرح کانگریس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خواہاںتھے، اُسی طرح اب مودی راج سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے خواہش مند لگتے ہیں۔انہی حقائق کا نتیجہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں بھاجپا ہر جگہ پچھڑرہی ہے۔ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں نریندرمودی کی قیادت میں بھاجپا کا دوبارہ برسرِ اقتدار آنا مشکوک دکھائی دیتاہے۔ تمام تر ناکامیوں، وعدہ خلاف ورزیوں، عوام دُشمن اقدامات، مہنگائی پر روک لگانے میں ناکامی، بے روزگاری دورکرنے میں نااہلیت وغیرہ ، یہ سب مسائل حل کرنے میںمودی سرکار کی ناکامی کے باعث عوام ان مسائل پر برسرِاقتدار گروہ پر کوئی بھروسہ اور اعتماد کرنے پر ہرگز تیار معلوم نہیںہوتے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بھاجپا قیادت کو بھی اس امر کا یقین ہوچکاہے۔ اس لئے خطرہ ہے کہ حسب سابق انتخابات جیتنے کے لئے پھر ہندوتو کا راگ شدت سے نہ شروع کردیا جائے۔ بعض سیاسی مبصرین کاکہناہے کہ حکومتی طبقہ انتخابات سے پیشتر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ کرکے اور دیگر فرقہ وارانہ معاملات اُبھار کر انتخابات جیتنے کی کوشش کرسکتاہے۔ اس لئے رائے عامہ کو باخبر رہ کر اِن عزائم کو ناکام کرنے کی کوشش کرناہوںگا، وگرنہ یہ ملک فرقہ وارانہ آگ کی بھٹی میں بھسم ہوجائے گااور ہماری عزت وناموس داؤ پر لگے گی ، تعمیرو ترقی کا سارا سلسلہ ٹوٹ جائے گا اور مردم بیزاری کی فضا میںہمارے مسائل دوگونہ بڑھیں گے۔ اس صورت حال کا تدارک ہماری دانست میں یہی ہے کہ بھاجپاا ورنریندرمودی کے متبادل دیگر پارلیمانی پارٹیاں یک جا ومتحدہوکر انتخابات لڑنے کی تیاریاںکررہی ہیں لیکن لٹیرے طبقوں کی اِن بورژوا پارٹیوں پارلیمانی پارٹیوں سے بھی کسی بہتری اور بہبودی کی توقع نہیںرکھی جاسکتی۔ کانگریس سمیت وجودمیں آنے والے نئے سیاسی اور انتخابی گٹھ جوڑ بھی آزمودہ ہیں اور آزمودہ اور آزمودن خطا رست کا محاورہ مکمل طورپر ہم پر صادق آتا ہے۔ عوامی بہبودی اور بھلائی کا صرف ایک راستہ ہے کہ لٹیرے حکمران طبقوں کی پارلیمانی پارٹیوں میں سے کسی پر بھی اعتماد وبھروسہ نہ کیا جائے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے ملک میںلٹیرے حکمران اتحاد وثلاثہ سامراج ، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈازم کے نظام کے خلاف انقلابی اور عوامی جدوجہد تیز کی جائے۔