نئی دہلی// کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے مسلسل نظر انداز کرنے ، کسان بہبود کے ضروری منصوبوں میں کٹوتی اور بدنیتی سے کئی ریاستوں کو 'ڈیزاسٹر ریلیف' فراہم نہ کیے جانے سے کسانوں میں زبردست مایوسی ہے جس کی وجہ سے زرعی برآمدات میں زبردست کمی آئی ہے ۔ کانگریس نے مودی حکومت کے تین سال کی مدت میں کسانوں کی حالت کے بارے میں 'انن داتا۔ مرتیو کی ابھیشاپ' نام سے آٹھ صفحے کی ایک کتابچہ شائع کیا ہے ۔ کتابچے میں کسان کو سرکار کی بے رغبتی سے متاثرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس دوران روزانہ 35 کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ صرف 2015 میں 12 ہزار 602 کسانوں اور کسان مزدوروں نے خود کشی کی جبکہ 2014 میں 12 ہزار 360 کسانوں اور کھیت مزدورں و نے خود کشی کی تھی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2016 میں یہ تعداد کے 14 ہزار تک پہنچ گئی ہوگی۔ کسان کا قرض معاف کرنے کی بی جے پی کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے پارٹی نے کہا ہے کہ مودی حکومت نے چند سرمایہ کار دوستوں کا 154000 کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے لیکن قرض میں ڈوبے ملک کے کسان کا قرض معاف کرنے سے انکار کیا گیا ہے ۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ملک کی 62 فیصد آبادی کسان ہے اور اگر ان کا قرض معاف کیا جاتا تو ملک میں اناج کی پیداوار کی شرح بڑھتی اور زراعت برآمد میں اضافہ ہوتا۔ کانگریس نے لوک سبھا سوالنامہ سے حاصل اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں ملک کے زرعی برآمدات میں زبردست کمی آئی ہے ۔ پارٹی نے اسے بی جے پی کا نکماپن بتایا اور کہا کہ کانگریس کے دور میں زرعی برآمدات 32955 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن مودی حکومت کے دور میں یہ گھٹ کر 13380 لاکھ ڈالر کی سطح تک پہنچ گیا ہے ۔ ان تین سالوں کے دوران ملک کے زرعی برآمدات میں ہر سال کمی رہی جسے روکنے کے حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی۔ پارٹی نے یہ بھی الزام لگایا کہ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے کسانوں کے ساتھ اس دوران زیادہ امتیازی سلوک ہوا ہے ۔ گزشتہ تین سال میں مسلسل خشک اور قحط کے باوجود مودی حکومت نے بدنیتی سے کام کیا اور غیر بی جے پی حکومت ریاستوں کو ڈیزاسٹر ریلیف فراہم کرنے میں کمی کی۔ پارٹی کا الزام ہے کہ تمل ناڈو میں17۔ 2016 کے لئے 39565 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اسے کچھ بھی راحت نہیں ملا۔ کانگریس نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دارالحکومت کے جنتر منتر میں دھرنا دینے والے تمل ناڈو کے کسانوں کی کوئی خبر نہیں لی۔ کتابچہ میں ایک طرف مظاہرہ کرنے والوں کسانوں کی نیم عریاں تصویر چھپی ہے جبکہ دوسری طرف ان کے درمیان بیٹھے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی تصویر شائع کی گئی ہے ۔الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ کرناٹک نے 17۔ 2016 کے دوران 8013.37 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا اور انہیں 1782.44 کروڑ روپے دیے گئے ۔ اسی طرح سے آندھراپردیش نے 2281.79 کروڑ روپے مانگے اور اسے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ کتاب میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے ضروری منصوبوں میں کٹوتی کا بھی الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کٹوتی بی جے پی حکومت کی کسان مخالف ذہنیت کا نتیجہ ہے ۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن کے تحت 2014 میں 1799 کروڑ روپئے دیے گئے جو16۔ 2015 میں گھٹ کر 1067 کروڑ اور پھر 2016 میں یہ محض 998 کروڑ روپے رہ گئے ۔ اسی طرح سے قومی زرعی ترقی کی منصوبہ بندی کے لئے ۔15 2014 میں 8363 کروڑ روپے دیے گئے جو سال17۔ 2016 میں گھٹ کر 3559 کروڑ روپے رہ گئے ۔ پارٹی نے کہا ہے کہ قومی ہرٹی کلچر مشن کے تحت15۔ 2014 میں 1068 کروڑ روپے مختص کیا گیا جو سال 16۔2015میں گھٹ کر 770 روپے رہ گیا۔ اسی طرح سے رینفیڈ ایریا ڈیولپمنٹ کے لئے گزشتہ تین سال میں الاٹمنٹ کو 304 کروڑ روپے سے کم کرکے 184 کروڑ روپے کر دیا گیا جبکہ قومی بیبمو مشن کے تحت 15۔2014 میں جاری 125 کروڑ روپے کی رقم گھٹ کر17۔ 2016 میں محض 66 کروڑ روپے رہ گئی۔ روایتی زرعی ترقی کے لئے 16۔ 2015 میں 225 کروڑ جاری کئے گئے جسے 17۔2016 میں کم کرکے 121 کروڑ روپے کیا گیا ہے ۔ کتابچہ میں دالوں کو لے کر بھی حکومت پر حملہ کیا گیا اور کہا کہ16۔ 2015 میں بی جے پی حکومت نے 44 روپے فی کلو کی شرح پر دالوں کی درآمد کی اجازت دی تھی جبکہ دالیں 230 روپے فی کلو کی شرح تک مارکیٹ میں فروخت ہوئیں۔ اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملک میں17 ۔2016 کے دوران دالوں کی اچھی پیداوار ہے اس مدت میں 221 لاکھ ٹن دال کی پیداوار ہوا ہے اس کے باوجود حکومت نے 44 روپے کی شرح سے 54 لاکھ ٹن دال خریدی۔