غازی عرفان خان۔گاندربل
زندگی کب اور کیسے ختم ہوگی کوئی نہیں جانتا۔انسان دنیا میں اسی لیے زندگی بسر کر رہا ہے کیونکہ اس کو مرنا ہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ انسان کی عمر چاہیے کتنی بھی ہو،بالآخر اُسے دنیا سےرخصت ہونا ہے۔ ہر ایک نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ یہاں تک کہ فرشتوں کی روح بھی قبض کی جائے گی اور آخر پر حضرت عزرائیلؑ کی بھی موت ہوگی۔اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر کیا ہے، جس سے کوئی فرار نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔’’کہہ دو جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ تمہیں لاحق ہو کر رہے گی پھر تم حاضر و غائب کو جاننے والے کے پاس لوٹائے جاؤ گے۔پس وہ تم کو خبر کرے گا تمہارے اعمال کی۔‘‘ (سورہ الجمعہ۔آیت نمر ٠٨).
سچ ہے کہ موت سے بھاگا اور موت میں گرا ۔کہاوت ہے کہ جو بچنے والا ہوتا ہے ،اسے سمندر میں بھی راستہ مل جاتا ہے اور جب قضا آجا ئے تو کوئی بھی چیز موت کا سبب بن سکتی ہے۔اس لئے یاد رہےکہ موت کبھی بھی آسکتی ہے ،اوروہ بول کر نہیں آتی،نہ اُس کے آنے کی کوئی نشانی نہیں ۔ ضروری نہیں کہ پہلے ہم بوڑھے ہونگیں پھر بیمار اور پھر موت آجائے! نہیں ہر گز نہیں!! موت بچپن میں بھی آسکتی ، جوانی میں بھی آسکتی اور بُڑھاپے میں بھی آسکتی ہے ۔موت اُس وقت بھی آسکتی ہے جب ہم صحتیاب ہوں۔موت خلوت میں بھی آسکتی ہے اور جلوت میں بھی۔ صبح کے وقت آسکتی ہے اور شام کے وقت بھی۔ الغرض موت کبھی بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
شیخ علی طنطاوی نے اپنے سماعات و مشاہدات میں لکھا ہے کہ شام کے ایک آدمی کے پاس لاری تھی۔اس کے ساتھ ایک آدمی لاری پر سوار ہوا۔اس کے اوپری حصہ میں ایمبولینس تھی ،جس میں ضرورت کی لئے ایک بادبان بھی تھا۔بارش ہوگئی پانی بہا، یہ سوار کھڑاہوا اور ایمبولینس میں داخل ہوگیا اور اپنے کو بادبان سے ڈھک لیا ۔اتنے میں ایک اور سوار ہوا، جو ایمبولینس کی جانب چلا گیا، اسے معلوم نہ تھا کہ اس میںپہلے سے بھی کوئی آدمی موجود ہے۔بارش پڑتی رہی، اچانک پہلے والے نے یہ دیکھنے کے لئے کہ بارش تھمی یا نہیں ،اپنا ہاتھ باہر نکالا؟ دوسرا بے چارہ اس کے چمکتے ہاتھ کو دیکھ کر سمجھا کہ مردہ زندہ ہوگیا، اس پر گھبراہٹ اور خوف طاری ہوگیا۔اپنے آپ کو بھول گیا اور شدید گھبراہٹ میں گاڑی سے نیچے گر پڑا، جس سےاس کا بھیجہ پاش پاش ہوا۔گویااس کی موت جس طریقےپر لکھی تھی، وہ آکر ہی رہی۔
صبح ہوئی تو شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہوئی تو صبح کا انتظار نہ کریں۔بس آج اور ابھی پر نظر رکھیں ،جو اچھا بُرا گزر چکا ،اُ سے یاد نہ رکھیں، جو ابھی آیا نہیں،اُسے یاد رکھیں۔ اپنے آپ کو اس نظریہ کا عادی بنائیں کہ’’میرا صرف آج ہے، میں بس آج ہی زندہ رہوںاور آج ہی میری موت کا دن ہے۔‘‘ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے پھر آپ موت کے لیے سامان تیار کرو گے۔ اپنے آپ کو ہر لغزش سے دور رکھو گے، نیک کام انجام دو گے، نماز پڑھو گے، قرآن کی تلاوت کرو گے، ماں باپ کی خدمت کرو گے، ہمسائیوں کا حق ادا کرو گے، صدقہ کرو گے، اللہ کا خوف دل میں رکھو گے ۔ موت کو کثرت سے یاد کرو گے اور اپنی اصلی زندگی کے لیے بہترین زادِراہ تیار کرو گے،اسی سے آپ کی اصل زندگی کی کی ابتداء ہوگی۔اگر آپ اپنی موت کو بھول گئے، اس بات کو ذہن سے نکالا کہ مجھ کو کبھی موت کا مزا چکنا ہے تو ظاہر سی بات ہے آپ کے دل سے اللہ کا خوف ختم ہوگا، آپ کے دل کو زنگ لگ جائے گا اور ان کاموں سے دور رہو گے، جس سے اصل زندگی (یعنی آخرت) اچھی بنے گی۔ اور پھر جب موت آجائے گی پھر اپنے آپ پر پچھتاوا کرو گے کہ میں نے اپنی قیمتی زندگی کہاں گزاری۔اس وقت کو غنیمت جانو کیونکہ اس وقت آپ حیات ہو،جب موت دروازے پر ہوگی تو پھر آپ اللہ سے وقت کی درخواست مانگو گے مگر وقت نہیں ملے گا، آپ توبہ کرو کے مگر اس کی کنجائش نہ ہوگی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’دنیا میں اس طرح رہو، جیسے تم ایک (راہ چلتے) مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے: ’’جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت سمجھو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو۔‘‘ (بخاری:6414)
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انسان کو جو لمحات میسر آئے ہیں، انہی لمحات میں وہ موت کے بعد کے لیے زادِراہ تیار کرتا ہےاور جب موت لاحق ہوجاتی ہےتو پھر یہ لمحات ختم ہوجاتے ہیں اور کوئی نیک عمل نہیں کیا جاسکتا۔ایک انسان جب ان لمحات کو ضائع کرتا ہے تو موت کے وقت وہ نادم و پشیمان ہو جاتا ہےاور مزید مہلت کی درخواست کرتا ہے۔‘‘(مجموعہ احادیث: پانچ باتیں ، مجاہد شبیر احمد فلاحی صاحب)
ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی طاقتور لوگ آئے، موت کا مزا چکھ گئے۔دوسروں کو موت کی دھمکی دینے والے خود موت کی آغوش میں چلے گئے۔بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والے، اونچے اونچے مکانات میں رہنے والے،آسمانوں میں اُڑنے والے اور سمندروں کی تہہ تک جانے والےبالآخر مر گئے۔ امیر ہو یا غریب، کمزور ہو یا طاقتور ، چھوٹا ہویا بڑا ، کافر ہو یا مسلمان ہر ایک کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے:’’ہر ایک نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔‘‘(القرآن)
اب ذرا اپنے آپ پر نظر ڈالیں کہ ہم نے موت کے لیے کیا سامان تیار کیا ہے۔دنیاوی زندگی گزارنے کے لیے ہم نے رات دن کو ایک کیا، بڑے بڑے مکانات بنائے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی، الغرض اپنی دنیاوی زندگی کو آرام دینے کے لیے ہم نے بہت محنت و مشقت کی جو کہ ایک ضرورت بھی ہے مگر یہ ہم اس زندگی کے لیے کر رہے ہیں جو کہ عارضی ہے۔اب یہ دیکھیں کہ اس عارضی زندگی میں ہم نے ابدی زندگی(موت کے بعد کی زندگی) کے لیے کیا زادِ راہ تیار کیا ہے۔کیا ہم نے اتنا سامان تیار کیا ہے جو ہماری قبر کو روشنی دے؟ کیا اتنا سامان تیار کیا ہے جو ہمیں جنت کی طرف لے جائے؟ کیا اتنا سامان تیار کیا ہے جس سے اللہ راضی ہوجائے؟
اپنے آپ کاحتساب کریں اور دیکھیں ہم کہاں ہیں؟اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی گزاریں۔اسی میں ہماری فلاح ہے۔
[email protected]