’اسٹنٹ ‘یعنی کرتب دکھانے والے موٹر سائیکل سواروں کے خلاف سرینگر پولیس نے حالیہ ایام میں مہم چھیڑرکھی ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے بائیک کی رفتار کا مزا جان لیوا ہے اور اسٹنٹ و کرتب دکھانے کے چکر میں نوجوان حادثوں کا شکار ہوتے ہیں، اس جان لیوا شوق پر روک لگانے کیلئے یہ کارروائی عمل میں لائی گئی جو مستقبل میں بھی جاری رہے گی ۔پولیس نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوںکی نشو ونما پر خاص نظر گزر رکھنے کے علاوہ کم عمری میں انہیں گاڑی چلانے کی اجازت نہ دیں۔غور طلب ہے کہ سرینگر کی سڑکوں پر موت سے پنجہ آزمائی کا یہ رقص کھلے بندوں جاری ہے ۔کرتب بازی کے نتیجہ میں موت سے پنجہ آزمائی کے ان واقعات میں درجنوں نوجوان اپنی متاع جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب یہ کرتب دکھانے والے ٹریفک پولیس کے ناک کے نیچے مولانا آزاد روڈ پر بھی دل دہلا دینے والے کرتب کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ شوقیہ کرتب گری سے شروع ہونے والایہ سلسلہ اب باضابطہ ایک جوے اور جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے اور روزانہ ہزاروں روپے کا سٹہ ان کرتب گروں پر لگایا جاتا ہے۔یہ کرتب گر سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر اپنے کرتبوں کی تصویریں جاری کرتے ہوئے لوگوں سے داد بٹورنے کے لالچ میں اپنے کرتبوں کی نہ صرف عکس بندی کرتے ہیں بلکہ ویڈو گرافی کر کے فیس بک، ٹوئیٹر اور یوٹیوب جیسی ویب گاہوںپر جاری کرتے ہیں۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کرتب دکھانے والوں میںسے اکثر ابھی بلوغت میں نہیں پہنچے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی موجود نہیں ہوتی۔عوام بھی ان کرتب گروں کے حیرت ناک کرتب دیکھ کر خوف زدہ اور تنگ آچکی ہے ۔شہر کا ہر سنسان علاقہ ان بائیک گینگوں کی آماجگاہ بن گیا ہے جہاں پر بغیر کسی روک ٹوک کے یہ نوجوان اپنی جانوں پر کھیلتے ہیں۔ان میں سے 90فی صد نوجوان ابھی 18سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے ہوئے ہیں اور بس چند لمحے کے جوش کیلئے یہ خطر ناک کرتب کرتے ہیں۔ان کرتب گروں کے پاس جدید ترین موٹر بائیک ہوتیں ہیں جن میں کرتب کرنے کیلئے تبدیلیاں کی گئی ہوتی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ بچے اتنا پیسہ خودخرچ کرتے ہوں۔یہ واضح ہے کہ ا ن کو یہ بائیک خریدنے ، اس میں تبدیلیاں کرنے اور تیل کا پیسہ اپنے والدین سے ہی ملتا ہے اور پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی والدین اس وقت ہائے واویلا کرتے ہیں جب ان کے بچوں کو کوئی چوٹ لگتی ہے۔ موٹر بائیکوں پر کرتب دکھانے والے یہ نوجوان بلوارڈ، فور شور روڈ، گپکار،راج باغ اور90فٹ روڑ پرکھلے بندوں نظر آجاتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سڑکوں پر دوسری گاڑیوں اور عام راہگیروں کی آمدورفت کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا جس وجہ سے نہ صرف یہ نوجوان خود بلکہ دوسرے لوگ بھی خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔سماجی رابطہ کی ویب گاہوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان سب حرکتوں کے پیچھے خود ستائش کا جذبہ کار فرما ہے۔یہ نوجوان اپنے ’دلیرانہ ‘کرتبوں کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈال کر نہ صرف صنف مخالف کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ لوگوں سے داد بٹور کر خود کو بہتر تصور کرنے کی تاک میں ہوتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت سے پنجہ آزمائی کے جنون میں مبتلا ان نوجوانوں کو کون سدھارے گا؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جیسے بیشتر نوجوانوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے اور اس کے باوجود بھی یہ شہر کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے رہتے ہیں جس کیلئے ٹریفک پولیس محکمہ کو کافی حدتک ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے تاہم موت سے کھیلنے کے اس عمل کے اصل ذمہ دار والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اتنا سرچڑھا رکھا ہے کہ وہ اپنی جان سے کھیلنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ہمارا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بچوں کو سہولیات میسر نہ رکھی جائیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین لاڈ پیار سے بچوں کو ہی بگاڑ دیں۔موٹر بائیکوں پر کرتب بازی کرنے والے کمسن نوجوانوں کو بگڑے ہوئے ہی قرا ر دیا جاسکتا ہے کیونکہ اگر ان میں ذرا بھی احساس ہوتا تو وہ اس طرح موت سے نہیں کھیلتے۔وقت آچکا ہے کہ جب والدین کو ایسے بچوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی ورنہ ایسے ہی جنازے نکلتے رہیں گے اور یوں ہی ماتم چلتا رہے گا۔یہاں ٹریفک پولیس محکمہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہر میں کرتب بازی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کیلئے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرے۔اس ضمن میں جہاں ایسے نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لانا ایک حل ہوسکتا ہے وہیں لائسنسوں کی اجرائی کا عمل بھی فول پروف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا لائسنس حاصل نہ کرسکے ۔وقت کی پکار ہے کہ دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے ایسی کرتب بازی کرنے والے نوجوانوں کی فوری اصلاح کی جائے اور انہیں راہ راست پر لانے کے جتن کئے جائیں ورنہ یہ تشویشناک رجحان ایک ناسور بن جائے گاجس کا پھر کوئی سدباب نہیں ہوسکتا ہے۔