ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی فرار ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ذی روح کو کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان، امیر ہو یا غریب، طاقتور ہو یا کمزور۔ موت کی یہ حقیقت ہمیں زندگی کی فانی اور عارضی حیثیت کا احساس دلاتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں۔
موت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ یہ زندگی اور موت کا چکر کیسے کام کرتا ہے۔ ہر انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک ایک مقررہ وقت مقرر ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بارہا بیان کیا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت 185 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ اس آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی انسان موت سے بچ نہیں سکتا۔موت کے بعد کی زندگی کا تصور اسلام میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی یہ زندگی عارضی ہے اور موت کے بعد ایک دائمی زندگی ہے جہاں انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنی زندگی کو اس طرح گزارنے کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنے اعمال کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال سکیں۔ نیک اعمال کرنے والوں کے لیے جنت اور برے اعمال کرنے والوں کے لیے جہنم کی وعید دی گئی ہے۔موت کے بعد کی زندگی کا تصور دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ عیسائیت، یہودیت، اور ہندو مت سمیت مختلف مذاہب میں موت کے بعد کی زندگی کا نظریہ موجود ہے۔ ہر مذہب میں موت کے بعد کی زندگی کا تصور مختلف ہو سکتا ہے، لیکن سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے: انسان کو اس بات کا احساس دلانا کہ اس کی دنیاوی زندگی کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔موت کا خوف ایک عام انسانی جذبات ہے۔ ہر انسان موت سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ ایک نامعلوم حقیقت ہے۔ لیکن اگر ہم موت کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں تو یہ خوف کم ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی رضا پر بھروسہ ہمیں موت کے خوف سے نجات دلا سکتا ہے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اس میں ہماری بہتری ہوتی ہے۔
موت کی یاد ہمیں اپنی زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے۔ یہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہم یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں، بلکہ ایک مقررہ مدت کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے، اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اچھے اعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، انہیں محبت اور احترام دینا چاہیے، اور ان کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔
دنیا میں جو کچھ بھی ہے، وہ فانی ہے۔ خوبصورتی، دولت، شہرت، سب کچھ ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ انسان کے ساتھ صرف اس کے اعمال ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اچھے اعمال کریں اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ ہماری زندگی کا مقصد صرف دنیاوی کامیابیاں حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں آخرت کی کامیابی کے لیے بھی محنت کرنی چاہیے۔
موت کا سامنا کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کو اس طرح گزارنا چاہیے کہ جب ہمارا وقت آئے تو ہم مطمئن ہوں کہ ہم نے اپنی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنایا۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں گزار رہے ہیں یا نہیں۔
موت کی یاد ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، انہیں محبت اور احترام دینا چاہیے، اور ان کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔ یہ یاد ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے مفید بنانا چاہیے، تاکہ مرنے کے بعد بھی ہمارا نام اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
موت کا خوف ایک فطری امر ہے، لیکن اگر ہم اسے صحیح معنوں میں سمجھیں اور قبول کریں تو یہ خوف کم ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی رضا پر بھروسہ ہمیں موت کے خوف سے نجات دلا سکتا ہے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ موت کے بعد ایک نئی زندگی ہے جو کہ اس دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ موت کی یاد ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو بامقصد اور مفید بنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں گزار رہے ہیں یا نہیں۔
موت کی حقیقت کو قبول کرنا اور اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا ایک مشکل کام ہے، لیکن یہ ہماری زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اچھے اعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مرنے کے بعد بھی ہمارا نام اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔اختتاماً، موت ایک ایسی حقیقت ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں موجود ہے۔ یہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اچھے اعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مرنے کے بعد بھی ہمارا نام اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(موصوف ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں )