Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

موبائیل: تعلیم وتعلم کا ستیاناس

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 9, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
تلنگانہ کے ضلع محبوب نگر کے ایک اسکول کے طالب علم نے کلاس روم میں نیند کی جھپکی لینے والے ٹیچر کی فوٹو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (DEO) کی واٹس اَیپ پر بھیجی اور ڈی ای او نے فوری ٹیچر کو معطل کردیا۔ دوسرے دن اس اسکول کے بعض طلبہ کو پولیس کی جانب سے زدو کوب کرنے کی شکایت درج کی گئی۔ ان طلبہ میں وہ طالب علم بھی شامل ہے جس نے واٹس اَیپ پر فوٹو بھیجی تھی۔ ماں باپ کی شکایت ہے کہ گنیش جلوس کی تیاری کے سلسلہ میں یہ طلبہ اسکول کے احاطہ میں اکٹھا ہوئے تھے۔ پولیس نے انہیں محض اس لئے مار پیٹ کی کہ ان کا تعلق معطل شدہ ٹیچر سے تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسکول پرنسپل کی جانب سے شکایت کی گئی تھی کہ اسکول احاطہ میں کچھ طلبہ شراب نوشی کررہے ہیں‘ اسی شکایت کی بنیاد پر پولیس وہاں پر پہنچی تھی۔ بہرحال دونوں واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ پہلا واقعہ پڑھتے ہی بچپن میں پڑھی گئی ایک کہانی یاد آگئی جو کچھ اس طرح تھی۔
ایک بادشاہ کے محل کے دربان نے بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوکر عرض کیا ’’جہاں پناہ! میں نے رات بڑا بھیانک خواب دیکھا ہے کہ محل کے اُس حصہ میں جہاں آپ جلو افروز ہوتے ہیں‘ وہاں آگ لگ گئی ہے‘ خدا کے لئے آپ آج محل میں نہ رہیں۔ اپنے دربان کے اخلاص اور اس کی عاجزانہ التجاء سے متاثر ہوکر بادشاہ اپنے شاہی ارکان خاندان کے ساتھ دوسرے محل میں منتقل ہوگیا۔ اُسی رات محل میں آگ لگ گئی۔ اس طرح بادشاہ اور اس کے ارکان خاندان کی جان بچ گئی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اس نے دربان کو بلاکر انعام و اکرام سے نوازا اور پھر اسے نوکری سے برخواست کردیا۔ دربان نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا‘ زبان سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بادشاہ نے کہا تمہارے خواب کی بدولت میری زندگی بچ گئی، اس کا یہ انعام ہے۔ تمہاری ذمہ داری محل کی نگرانی کرنا ہے‘ سونا نہیں ہے۔ ملازمت کے دوران سونے کی سزا کے طور پر تمہیں نوکری سے نکالا جاتا ہے۔
اسکول کے طلبہ نے واٹس ایپ پرDEO  کو تصویر بھیجی۔ بے چارہ ٹیچر معطل ہوا۔ سوشیل میڈیا پر اس کا بڑا چرچا ہوا۔ لوگ اسکول کے بچوں کو شاباشی دے رہے ہیں۔ تاہم DEO نے ٹیچر کو معطل کرنے کا جو اقدام کیا وہ اپنی جگہ دُرست ہوسکتا ہے، تاہم محض ایک واٹس اَیپ مسیج کی بنیاد پر ایک ٹیچر کے خلاف اقدام کرتے ہوئے طلبہ برادری میں اسے شرمندہ کیا گیا، جانے وہ کونسی وجوہات رہی ہوںگی جس کی وجہ سے ٹیچر کو کلاس روم میں بچوں کے شور و غل کے درمیان نیند کی جھپکی لگی۔ جو بھی ہو ٹیچر کے اقدام کی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی ،تاہم ڈی ای او کو چاہئے تھا کہ ٹیچر کے ساتھ ساتھ اُن طلبہ کے خلاف بھی کاروائی کرتے جو کلاس روم میں بھی موبائیل فون  اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ یقینا یہ محض طلبہ کی اپنی کاروائی نہیں ہے‘ اس میں کچھ نہ کچھ پیشہ ورانہ رقابت کا بھی عمل دخل ضرور ہوگا ہوسکتا ہے کہ کوئی اور ٹیچر یا اسٹاف کے کسی ممبر کی ترغیب کی وجہ سے یہ فوٹو ڈی ای او کے واٹس اَیپ پر بھیجی گئی۔ ایک دیہی علاقہ کے ہائی اسکول کے طلبہ کے پاس ڈی ای او کا واٹس اَیپ نمبر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اسکولی طلبہ نے جو کام کیا جسے ان کا کارنامہ سمجھا جارہا ہے، یہ ان کے مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جانے یہ طلبہ کب سے موبائل فون پر کس کس کی تصاویر لیتے رہے ہوںگے؟ کلاس روم کی جو تصویر اخبارات میں شائع ہوئی ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کلاس میں طالبات بھی ہیں‘ کیا ان کے موبائل فونس میں طالبات کی تصاویر بھی ریکارڈ نہیں ہوںگی؟ ڈی ای او اور اسکول کے انتظامیہ کو نہ صرف طلبہ بلکہ ان کے سرپرستوں کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہئے۔ کیوں کہ انہی کی لاپرواہی اور اولاد کی سرگرمیوں سے غفلت کی بناء پر موبائل فون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اسکولس میں موبائل فونس پر پابندی پہلے سے ہے‘ تاہم اس پر سختی سے عمل آوری نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم سن طلبہ نے جن پر کوئی شک و شبہ نہیں کرسکتا وہ اپنے ساتھی طلباء و طالبات کے علاوہ اپنے ٹیچرس کی پرائیویٹ تصاویر اور ویڈیو کلپنگ کے ذریعہ کبھی بلیک میل کرتے ہیں تو کبھی مستقبل سے متعلق سوچے سمجھے بغیر ان تصاویر اور ویڈیو کلیپنگ کو سوشیل میڈیا میں عام کردیتے ہیں۔ یہ موبائل فونس اسکولس کے طلبہ تک ڈرگس کی رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس کی وجہ سے حیدرآباد کے کئی نامور کارپوریٹ اسکولس میں موبائلس بالخصوص اسمارٹ فونس کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوں تو کل ہند سطح پر تعلیمی اداروں بالخصوص اسکولس میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی ہے‘ اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح سے طلباء و طالبات اُسے اپنے ساتھ کلاس روم میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور جب ٹیچرس پڑھاتے ہیں یہ طلباء و طالبات سر جھکائے واٹس اَیپ، فیس بک اور دیگر سوشیل میڈیا کے استعمال میں مشغول رہتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی معیار تو متاثر ہوتا ہی ہے‘ ان کا اخلاق و کردار بھی گراوٹ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کے لئے والدین، سرپرست اور ٹیچرس ذمہ دار ہیں۔ اپنے فرائض سے تغافل برتنے کی وجہ سے طلبہ جسمانی طور پر تو کلاس روم میں موجود رہتے ہیں مگر موبائل فونس کی وجہ سے ان کے ذہن باہر کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ موبائل فونس کے زیادہ استعمال کے مضر اثرات سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا ہے تاہم اس کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ انسان کے وجود کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ آنکھ، دماغ، وقت اور زندگی کا بیشتر حصہ اس کی وجہ سے تباہ ہورہا ہے۔ اس کی کسی کو نہ تو فکر ہے نہ ہی پرواہ۔ اب تو مائیں شیر خوار بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل دے دیتی ہیں‘ اور اکیسویں صدی کے یہ شیر خوار بچے موبائل سے کھیلتے بھی ہیں، روتے روتے چپ ہوجاتے ہیں اور پھر اُسے استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جس طرح دولت مند گھرانے کی مامائیں، خادمائیں اور ملازمین بچوں کو شرارت سے روکنے اور انہیں سلادینے کے لئے بچوں کو افیون چٹادیتے تو کبھی کچھ اور طریقہ سے انہیں خاموش کردینے کے حربے استعمال کرتے تھے۔ اب مائیں بچوں کو قابو میں رکھنے کیلئے ان کے ہاتھوں میں موبائل فونس دے دیتی ہیں۔ دو سال کی عمر کے بچے بھی یہ جاننے لگے ہیں کہ موبائل آن کیسے کیا جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہ جان جاتے ہیں کہ انہیں اس چھوٹے سے کھلونے میں کہاں اورکیسے اپنے دل بہلانے کا سامان ملے گا۔ آج اسی موبائل کی بدولت چارپانچ سال کی عمر کے بچوں کی آنکھوں پر چشمہ لگ گیا ہے۔ یہ بچے لڑکپن سے سیدھے بوڑھاپے میں داخل ہوتے ہیں۔ کمزور بینائی، کمزور دماغ کیوں کہ موبائل کی لعنت نے انسان سے اس کی یادداشت چھین لیا۔ ایک دور تھا جب چھٹی اور ساتویں جماعت کے بچوں کو بیس تک کے پہاڑے یاد کرنے پڑتے تھے۔ آج دو دونی چار دیکھنے کے لئے موبائل فون میں موجود کیالکولیٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حال حال تک تو ہمیں بھی بے شمار ٹیلیفون نمبر یاد تھے‘ آج ہماری یادداشت کی جگہ موبائل فون کی میموری نے لے لی ہے۔ لہٰذا خود اپنا نمبر بھی کبھی اُسی میں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ 
محبوب نگر کے اسکولی طلبہ کے واقعہ کا جہاں تک تعلق ہے ‘ آج کے دور میں ایسے واقعات کی ستائش کی جاتی ہے۔ حالانکہ طلبہ کا اقدام اپنے ٹیچرس کو بے عزت کرنے کے مماثل ہے۔ایک دور تھا جب اخلاقیات نصاب کا ایک لازمی جز ہوا کرتے تھے۔ آج وہ دور نہیں ہے‘ آج اخلاقیات کے درس دینے والے کو بے باک ورڈ سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں سے سند یافتہ جاہل نکل رہے ہیں۔ سیاسی پشت پناہی‘ اثرات اور رسوخ کا استعمال تعلیمی اداروں کے معیار اور اخلاقی  اقدار میں گراوٹ کا سبب ہے۔جس طرح سے طلبہ کو اپنے مفادات کے لئے بعض عناصر اور طاقتیں استعمال کررہی ہیں اُس کے پیش منظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے اصل کردار کو تبدیل کرنے یا مسخ کرنے کیلئے اسکولی سطح سے بچوں کو ذہنی اور فکری طور سے اس قدر گراوٹ کا شکار کردیا جائے کہ یہ بچے آگے چل کر یاتو سیاست دان بنے یا پھر ان کے آلۂ کار۔
بچے ہمارے ملک اور قوم کا مستقبل ہے۔اسکول کے دور طالب علمی سب سے اہم ہوتا ہے۔ اسی دور میں اساتذہ بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں پروان چڑھاتے ہیں۔ یہیں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ بچہ آگے چل کر کامیابی کی کتنی بلندیاں طئے کرے گا یا اپنے اخلاق، کردار اور فطرت کے لحاظ سے مجرمانہ روش اختیار کرے گا۔ اکثر والدین تعلیم یافتہ نہیں ہوتے‘ اس لئے بچوں کی تعلیم و تربیت ‘ انہیں آدمی سے انسان بنانے کی ذمہ داری اساتذہ یا ٹیچرس نبھاتے ہیں۔ ٹیچرس کا رتبہ والدین کے مساوی ہوتا ہے۔ اس لئے ہندو دھرم میں بھی گرو کو برہما اور وشنو کہا گیا ہے۔استاد اور شاگرکا رشتہ مقدس ہوتا ہے مگر اس تقدس کا احساس دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ جو بچے استاد کا ادب نہیں کرتے وہ زمانہ کی ٹھوکروں میں رہا کرتے ہیں۔ 
ماں باپ‘ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو استاد کے احترام کی تلقین کریں کیوں کہ جو استاد کا احترام نہیں کرتا وہ والدین کا بھی نافرمان ہوتا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کے دونوں بیٹے مامون رشید اور امین رشید اپنے استاد کے جوتے اٹھانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کوشش کرتے تھے اور خلیفہ وقف اپنے بیٹوں کی استاد نوازی پر مسرور ہوتا تھا۔ آج حالات برعکس ہیں، استاد کی تضحیک کرنے والے بچوں کے بجائے اصلاح کرنے کے کبھی مسکراکر کبھی خاموشی اختیار کرکے ان کی ہمت بڑھاتے ہیں اور پھر آگے چل کر وہ خود کبھی خون کے آنسو بہاتے ہیں۔
……………………..
 مضمون نگار ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد ہیں۔ فون9395381226
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایف ایف آر سی کی جموں و کشمیر کے نجی اسکولوں کو ایڈوانس فیس لینے پر روک
تازہ ترین
لیفٹیننٹ گورنر نےCSRکے تحت رام بن اور اننت ناگ اضلاع کے اسپتالوں کیلئے ایمبولینسوں کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
وسطی ضلع بڈگام میں رات گئے آگ لگنے سے رہائشی مکان خاکستر
تازہ ترین
پی ڈی پی کاعوامی مسائل کو لیکر احتجاجی مارچ ناکام، معتدد رہنما گرفتار
تازہ ترین

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
کالممضامین

“درخواست برائے واپسی ٔ ریاست” جرسِ ہمالہ

June 30, 2025
کالممضامین

! ہمارا جینا اور دکھاوے کے کھیل

June 30, 2025
کالممضامین

مقدس امرناتھ جی یاترا | تاریخ اور بین ا لمذاہب ہم آہنگی کا سفر روحانی سفر

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?