ہوا کے تھپیڑوں سے پانی تیز لہروں کی صورت میں جھیل کے کنارے شور کررہا تھا۔کان میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اگر کچھ سن یا محسوس کر رہا تھا تو وہ کلائی پر بندھی گھڑی کی ٹک ٹک ،ٹک ٹک! کرتی آواز بھی۔لکڑی سے بنی سیڑھی پر مچھوارے گول ٹوپیاں پہنے ہاتھوں میں کانٹے لگی بانس کی لمبی چھڑیاں لئے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ۔سر زانوں پہ رکھے ،نظریں پانی کی لہروں پے سوار، میں بھی اکیلے ان ہی سیڑھیوں پہ تماشائی بن کے بیٹھا تھا۔اس پرسکون جگہ کی چاروں اور بھر پور دنیا بسی تھی۔ ہریالی اور خوشگوار موسم ،بچے کھیل میں مصروف ،بزرگ گفتگو میں محو ،دسترخوان بچھے ہوے کشمیری وازوان کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی۔ میں تنہائیوں کی باہوں میں لپٹا چنار کے زرد پتوں کے مانند خاموش سب کچھ دیکھ کے اَن دیکھا کر رہا تھا۔میری نظروں نے پانی کی گہرائی میری سوچ میں اُتار دی جو مجھے اپنی اور کھنچے جارہی تھی ۔نہ جانے وہ انگنت خیال میرا من کہاں سے اُٹھالاتے آتے ہی آغوش میں لے لیتے اور جاتے ہی تنہا کردیتے ۔دور برف کی چادر اوڑھے ہوئے پہاڑوں پہ سورج ایک سپاہی کی مانند اکڑا ہوا کھڑا تھا، جس کا عکس میری انکھوں میں بس گیا۔میں الجھنوں اور کشمکش کے سیلاب میں ڈوبتا جارہا تھا کہ اچانک میری نظر بائیں اور گئی۔ ایک چاند سا چہرا میری آنکھوں کا عکس بنا!!!ایسا تو نہیں تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ میں نے کبھی دیکھا نہ تھالیکن نہ معلوم کیوں اس چہرے سے میری نظر ہٹتی نہیں تھی۔اس کی آنکھیں نم تھیں اور سانسیں مدہم ۔خزاں کے زرد پتوں کی طرح نمی کی کمی اس کے ہونٹوں سے صاف نظر آرہی تھی ۔زلفوں کی ایک لڑی اس کی دائیں آنکھ کو پریشان کررہی تھی ۔وہ اسے جھٹکے کی کوشش تو کررہی تھی پر ہوا تیز تھی جو اُسے کرنے نہ دے رہی تھی ۔اس کی مدہوش نظریں پانی کی لہروں پہ تھیں ۔ایک احساس کا لمحہ مجھے چھو کے نکل گیا۔ ایسا لگاکہ ان کی نم آنکھوں نے سارے درد کو نچوڈ کر میرے سامنے رکھ دیا ہو ۔معصوم چہرے پہ مایوسی صاف نظر آرہی تھی۔ شاید اُسے بھی میری طرح پانی کی گہرائی اپنی طرف کھینچے جارہی تھی اور وہ ان گنت سوالوں کا بوجھ لئے لکڑی کی سیڑھیوں پہ بیٹھی جواب تلاش کر رہی تھی ۔ میں محسوس کر رہا تھا وہ ہر سوال کا جواب مجھ سے طلب کرتا چاہتی ہے۔ میں بھی اُس کے من کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔میرے ہونٹوں کو من کے آنگن کی اُداسی نے سوائے تھرتھراہٹ اور خاموشی کے کچھ نہ دیا۔
ہوا کی رفتار جوں جوں تیز ہوئی زلفوں نے بکھرکر اس کے چہرے پہ گھر کر لیا ۔میرے دل میں خیال کی لہر اُٹھی کہ کاش ہوا کا ایک اور تیز جھونکا آتا اور اسکے پھول جیسے چہرے سے زلفوں کو ہٹا لے جاتااور اسکے چاند جیسے چہرے کا دیدار پھر ایک بار ہوتا۔افسوس !!!!ہواکے ان جھونکوں میں اتنی طاقت کہاں جو اسکے چہرے پر بکھری زلفوں کو ذرا بھر بھی ہلا سکیں !اب تو چاند بادلوں کی نظر ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ نہ جانے کن خیالات کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی اور میں آہستہ آہستہ اسکی جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبتا چلا جارہا تھا ۔میں منہ سے ایک لفظ نکالنے کی ہمت جٹلا رہا تھا لیکن میرے ہونٹ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔میری ہمت میرے جسم کو دلاسہ دے رہی تھی مگر لاکھ کوشش اور ہزار جتن کے بعد ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا تھا۔ میں اُسے جاننے کی کوشش کیوں کر رہا تھا۔ یہ بے چینی ،اضطراب اور کشمکش سب ایک ساتھ اُمڈ کر میرے پیچھے کیوں پڑی تھی۔ واللہ؟ اگر میرے پاس ایسے سوالوں کے جواب ہیں۔
اچانک اس مجسمے نے حرکت کی۔ ایسا لگا کسی نے اس میں روح پھونک دی ہو۔ اپنی نرم انگلیوں سے چہرے پہ زلفوں کو ہٹانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چاند بادلوں سے نکالا رہا ہوں ۔میں اسی عالم میں تھا کہ تیر جیسی نظریں مجھ پہ پڑیں۔ اُس کی ہلکی سی مسکراہٹ دل میں گھر کر گئی۔ میرے سارے جسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہو گئی۔ماتھے پہ پسینے کی بوندیں پھوٹنے لگی۔ میں تھوڑا شرمانے لگا لیکن جلد ہی نظریں جھکا لیں۔ وہ بے شرموں کی طرح مجھے دیکھے جا رہی تھی ۔شائد وہ مجھ سےبات کرنا چاہتی تھی۔
اچانک! ایک آواز آئی !!ہم دونوں نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کے دیکھا۔ کوئی اُسے بلا رہا تھا۔ اس نے ایک ادھوری نظر میری طرف کی اور ہارے ہوئے قدموں سے چلنے لگی۔ چلتے چلتے کبھی میری طرف اور کبھی سامنے دیکھتی! اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی! وہ ناکام سا لمحہ مجھے عمر بھر کا درد دے گیا۔ وہ تو پتہ نہیں کہاں چلی گئی لیکن میں آج بھی لکڑی سے بنی سیڑھیوں پر اُس کا انتظار کر رہا ہوں۔ سو سوال ہزار خواہشات لیے بس یہی سوچتا ہوں کیا وہ پھر سے آئے گی۔۔۔
کیلر شوپیان ،موبائل نمبر؛9906700711