جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔گجرات میں سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا لیکن کانگریس کے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر کے بیان سے جو نقصان کانگریس کو اُٹھانا پڑ سکتا ہے، اُس کا پتہ ۱۸؍دسمبر کے گجرات اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی چلے گا۔در اصل کانگریسی لیڈروں میں ہم آہنگی کی حددرجہ کمی ہے۔کون لیڈر کیا بیان دے رہا ہے اور اُس نے مرکزی کمیٹی سے کوئی منظوری لی ہے یا نہیں،کسی کو معلوم نہیں؟ اس میں شبہ نہیں کہ کانگریس ایک بڑی پارٹی ہے اور اس کے کیڈر اور ممبروںکی تعداد کروڑوں میں ہے لیکن جن کو کانگریس نے سوالوں کے جوابات دینے کے لئے مقرر کیا ہے،وہ جواب دینے سے پہلے اپنے پارٹی صدر یا میڈیا سیل کے صدر سے پوچھ تاچھ کرتے بھی ہیں؟اور جو پارٹی میں کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں اور جن کو پارٹی نے کسی طرح کے سوال و جواب کرنے کا کام سونپا نہیں ہے،وہ چونکہ ایک سینئرلیڈر ہیں اور ماضی میں وزیر اور بڑے عہدوں پرفائز رہ چکے ہیں،کیا ایسے لوگ پارٹی کی جانب سے بیان بازی کر سکتے ہیں جب کہ وہ صرف اس کے ابتدائی رکن ہیں؟اور ایسے لیڈروں کے بیانوں کی کوئی وقعت اور اہمیت بھی ہے؟کانگریس اور دیگر کے لئے بھلے ہی نہ ہو لیکن بی جے پی کے لئے اس طرح کے بیانات بڑے ہی کام کے بن جاتے ہیں اور خاص طور پر مودی اور امیت شاہ کے لئے سیاسی غذا فراہم کرتے ہیں۔کانگریس نے ایئر کو بھلے ہی معطل کر کے ایک (اچھی) نظیر پیش کی ہو لیکن مودی کے لئے یہ کہنے کو تو ہوگیا کہ تمام کانگریسیوں کا مزاج ایسا ہی ہے جیسا کہ ایئر کا ہے اور گجرات الیکشن کے پہلے مرحلے کی مہم کے آخری دن مودی نے اپنے جلسوں میں ایئرکے بیان کو ہی اہمیت دی اور اپنے حامیوں سے یہ کہا کہ ’’بے شک میںنیچ جاتی کا ہوں لیکن کانگریسیوں کی طرح نیچ کام نہیں کرتا۔‘‘
حالانکہ منی شنکر ایئر کا بیان اس مطلب میں نہیں تھا جس مطلب میں مودی اینڈ کمپنی نے اسے موڑ دیا۔اُنہوں نے تو یہ کہا تھا کہ مودی ایک نیچ قسم کے آدمی ہیں اور امبیڈکر کو لے کر وہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔اُن کی بات کچھ غلط نہیں تھی لیکن اُس کا وقت غلط تھا اور اسی لئے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے جلدکارروائی کی اور انہیں مجبوراً معافی مانگنی پڑی۔بعد میں اُنہوں نے یہ صفائی بھی دی کہ مجھے ہندی نہیں آتی اور ممکن ہے کہ میری کہی ہوئی بات کا ہندی میں کوئی اور مطلب نکلتا ہو۔اصل میں یہ ترجمے کے بگاڑکا معاملہ تھا لیکن جملوں اور لفظوں سے کھیلنے والے مہارتھیوں سے بھلا ایک سیدھا سادھا آدمی کیسے جیت سکتا ہے؟اُس کا تعلیم یافتہ ہونا،مہذب ہونا،بڑے عہدوں پر فائز ہونا،ملک اور بیرونی ملک میں اچھے لوگوں اور دماغوں کے درمیان رہنا سب خاک ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔اُس کی علمیت،اُس کی ذہانت، اُس کے مطالعات،اُس کے اختراعات اور خاص طور پر اُس کے کارناموں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی ۔وہ مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اُس کا سینئریعنی بوڑھا ہونا کہیں بوجھ تو نہیں۔
ایک بوڑھا کانگریسی جو غلطی سے اگر سیکولر بھی ہے تو مودی کے دور میںملک کے حالات دیکھ کر وہ اندر سے کُڑھ رہا ہے ۔ ساتھ ہی اگر وہ با ضمیر بھی ہے تواس کے لئے موجودہ دور ایک عفریت سے کم نہیںاور وہ اُن میں سے بھی نہیں ہے جو مودی کے ساتھ سمجھوتہ کر لے جیسا کہ ایس ایم کرشنا، بہو گنابھائی بہن ،سکھ رام وغیرہ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔وہ حالات کی ملامت کر رہا ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ یہاں سے ہندوستان کدھرجا رہا ہے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل سے انتہائی متفکر ہے۔روز بروز جس طرح سے حالات بنائے جا رہے ہیں وہ اُن سے حد درجہ فکر مندبھی ہے۔یہی سبب ہے کہ جب ٹی وی والے کچھ پوچھ بیٹھتے ہیں تو اس کے دل کی بات زبان پر آجاتی ہے اور اس طرح وہ حالات کے تعلق سے بھلا برا کہہ بیٹھتا ہے۔اُس نے تو یہ سوچا بھی نہیں ہے کہ اس طرح کی باتیں کی جائیں گی۔ اُس نے نہرو ،شاستری،اندرا،دیسائی،راجیو،سنگھ ،واجپائی اور من موہن کا دور دیکھا ہے اور بہت قریب سے دیکھا ہے کیونکہ اکثر اوقات وہ حکومت میں شامل رہا ہے۔اُس نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ مندر اور مذہب اس طرح اہم ہو جائیں گے ۔وہ دیکھ رہا ہے کہ کہیں ہندوستان بھی اُنہی کے راستے پر چل کر اسی طرح تباہ و بربادنہ ہو جائے۔در اصل وہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں بابری مسجدرام جنم بھومی مقدمے کی شنوائی کی تاریخ ۵؍دسمبر بروز منگل کو پہلے سے طے تھی۔۶؍دسمبر کو بابری مسجد کی ماتمی برسی کے طور پر مسلمان مناتے ہیں اور چند ہندو تنظیمیں وجے دِوس کے طور پر اسے مناتی ہیں اور امبیڈکر کی برسی بھی اسی دن مقرر ہے۔یہ بات عدالت عظمیٰ کو معلوم ہے تو تاریخ آگے پیچھے بھی دی جا سکتی تھی۔یہ تو ایک بات ہوئی،دوسری بات یہ کہ الیکشن کمیشن کو اِن دونوں تاریخوں کے متعلق جب پہلے سے پتہ تھا تو گجرات کے الیکشن کو کیوں کر اِن تاریخوں کے آس پاس رکھا؟سیدھی سی بات ہے کہ اِن اوقات کے تصادم سے الیکشن کمیشن کسی خاص پارٹی کو فائدہ پہنچانا چاہتا تھا اور وہ فائدہ ملتا ہوا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ملک میںکپل سبل ایک سینئراور ذہین وکیل شمار کئے جاتے ہیں اور خیر سے وہ کانگریس کے لیڈربھی ہیں لیکن پتہ نہیں انہیںبابری مسجد مقدمے کی شنوائی کے دن کیا ہو گیا تھا کہ عدالت سے انہوں نے ۲۰۱۹ء کے جولائی مہینے کے بعداگلی تاریخ رکھنے کی سفارش کر ڈالی۔ویسے کانگریس نے اس سے اپنا پلہ جھاڑنے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ یہ ایک وکیل سبل کا خیال ہو سکتا ہے لیکن کانگریسی سبل کا نہیںلیکن یہاں بھی دل کی بات زبان پر آہی گی اور اِس عمر میں سبل جی گچہ کھا گئے۔
بی جے پی اب پوچھ رہی ہے کہ کانگریس کا رام جنم بھومی یعنی مندر کی تعمیر کے تعلق سے موقف کیا ہے؟ کانگریس نہ صرف بغلیں جھانک رہی ہے بلکہ بی جے پی کے اس طرح کے سوالات سے پریشان بھی ہو گئی ہے ۔سبل صاحب عدالت میں اگر یہ کہتے کہ بابری مسجد کی مسماری اور اس کے بعد پھو ٹ پڑنے والے فسادات میں جو ہلاک تیںہوئیں اور جو نقصانات ہوئے ،پہلے اُن کا فیصلہ ہو جائے پھر اراضی کا فیصلہ ہو تو بات بنتی کیونکہ ایک بار قطعۂ اراضی(دیوانی) کا فیصلہ ہونے کے بعدفوجداری معاملے کی کوئی اہمیت اور ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی۔مندر یا مسجد یا دونوں کی تعمیر ہو جانے کی صورت میں ملزموں کو بری کرنا پڑ جائے گا۔کانگریس یہ بھی موقف پیش کر سکتی ہے کہ جو فیصلہ عدالت عظمیٰ کا ہوگا اسے قابلِ قبول ہوگا۔لیکن پتہ نہیں ایسابھی کہنے سے کانگریس کیوں گھبرا اور کترا رہی ہے۔
یہ تو بڑے،سینئر اوربوڑھے کانگریسیوں کی بات ہوئی لیکن نوجوان راہل گاندھی کو کیا ہو گیا کہ انہوں نے مہنگائی کے تعلق سے اپنے ٹویٹر پر غلط حساب کتاب پیش کئے یعنی جو چیز ۷۵؍فیصد مہنگی ہوئی تھی اسے ۱۷۵؍فیصد بتلایااور اسی طرح تمام اشیاء میں ۱۰۰؍فیصد کا اضافہ کر دیا۔بی جے پی نے اس کا بہت مذاق بنایا اور کہا کہ جو صحیح اعداد و شمار نہیں جانتا وہ دیش کیا چلائے گا؟راہل گاندھی کو حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔اگرچہ انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور پھر سے اعداد و شمار ٹویٹر پر پیش کئے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ’’میں ایک انسان ہوں اور مجھ سے غلطیاں ہو سکتی ہیں ،میں کوئی مودی نہیں‘‘۔۔۔یہ سب باتیں مناسب نہیں ہیں۔کانگریس کو پتہ ہے کہ گجرات کے انتخابات میں بی جے پی کو کوئی موضوع ابھی تک ہاتھ نہیں لگا ہے اور وہ ہر ایک بات کو موضوع بنا نے کے لئے کوشاں ہے،اس لئے کانگریس کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔یہی بات جب میں اپنے ایک باخبر دوست سے کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ کانگریسی کچھ بولیں بھی نہیں۔میرا ان کو جواب ہوتا ہے کہ خاموش رہنے سے اگر کام چل جائے تو کوئی ضروری نہیں کہ غیر ضروری طور پر کلام کیا جائے۔بی جے پی کو اندر کی رپورٹ معلوم ہے کہ وہ گجرات کا الیکشن ہار رہی ہے،ورنہ مودی جی کو یہ کہنا نہیں پڑتا کہ منی شنکر ایئر نے اُن کے قتل کی سپاری پاکستان کو دی ہے۔یہ انتہائی فرسٹریشن کی علامت ہے!لیکن یہ حال کے ۳؍ واقعات کانگریس کو کہیں نقصان نہ پہنچادیں، اس لئے کانگریس کو چاہئے کہ ہر بات ناپ تول کر کرے کیونکہ اس سے پہلے بھی موت کے سوداگر،زہر کی کھیتی ،خون کی دلالی اور چائے والے کو بی جے پی کامیابی کے ساتھ بھنا چکی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883