بانہال//مہو منگت علاقے سے تعلق رکھنے والے درجنوں لوگوں نے آج بانہال میں اپنی دیرینہ مانگوں کو لیکر مظاہرے کئے اور تحصیلدار بانہال کے دفتر کے سامنے اپنے مطالبات کو لیکر نعرے بازی کی۔ ان لوگوں کا الزام ہے کہ ضلعی اور سب ضلعی حکام سے ملاقاتوں کے باوجود بھی ان کے دیرینہ مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور ہزاروں کی آبادی مسلسل گٹھن اور سخت زندگی جینے پر مجبور کئے جارہے ہیں۔ ماسٹر علی محمد کی قیادت میں لوگوں نے بانہال میں نامہ نگاروں سے بھی ملاقات کی اور اس کے بعد انہوں نے تحصیلدار بانہال کے دفتر کے احاطے میں اپنی مانگوں کو لیکر ہم کیا چاہتے ہیں انصاف اور بانہال۔ منگت رابطہ سڑک کو جلد از جلد مکمل کرنے کے نعرے لگائے۔ کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے منگت کے لوگوں نے بتایا کہ علاقہ منگت کے ایک درجن دیہات اور گاوں بانہال کے مغرب میں پندرہ کلومیٹر دور آباد ہیں اور برفباری کے دوران یہ علاقے کم از کم چار ماہ تک باقی دنیا سے کٹ کر رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنہ 2007 عیسوی میں پرائم منسٹر گرامین سڑک یوجنا کے تحت پندرہ کلومیٹر لمبی بانہال۔ منگت روڈ کے ٹینڈر کرنے کے بعد کام شروع کیا لیکن آج دس سال کا طویل عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اس رابطہ سڑک کی کھدائی بھی مکمل نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہم اور بارہ مہینے چلنے والی سڑک ہولن ، بنکوٹ، چاپناڑی ، ٹھاچی ، امکوٹ ، سراچی ، ٹینکہ ، ارم ڈھکہ ، کڈجی اور منگت اور مہو کے تیس کے قریب بڑے گاوں کو جوڑے گی لیکن محکمہ پی ایم جی ایس وائی اور اس کام پر معمور ٹھکیداروں کی ملی بھگت کی وجہ سے کام پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور کام مسلسل بند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفد سے ملاقات کے بعد محکمہ پی ایم جی ایس وائی کے ایکسئین سے جب ڈپٹی کمشنر رام بن نے اس رابطہ سڑک کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کام جاری ہے کی غلط بیانی کرکے ڈپٹی کمشنر رام بن کو گمراہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رابطہ سڑک پر نام کیلئے ایک مشین کھڑی ہے اور کام مسلسل بند ہے اور پرائم منسٹر گرامین سڑک یوجنا کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور لاکھوں روپئے کی رقم کو مبینہ طور ہڑپ کیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ محکمہ پی ایم جی ایس وائی کی ڈھیلی گرفت کی وجہ سے ٹھکیدار من مرضی کا مظاہرہ کرکے ہزاروں لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں اور محکمہ کے راشی افسر تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سڑک کی تعمیر ان کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ منگت بیلٹ کے درجنوں دیہات اکیسویں صدی کے اس جدت کے زمانے میں بھی مشکلات بھری کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھڑی کو تحصیل کا درجہ ملنے کے بعد منگت کو نیابت کا درجہ دیا گیا لیکن تین سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی وہاں نائب تحصیلدار اور دیگر عملہ تعینات نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں ضرورتمندوں کو میلوں کا پیدل سفر طے کرکے معمولی کاغذی کام نپٹانے کیلئے تحصیل ہیڈ کواٹر کھڑی کا رخ کرنا پڑتا ہے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے درجنوں مریض اور در ذہ میں مبتلا خواتین لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزراء سے لیکر ڈپٹی کمشنر رام بن اور ایس ڈی ایم بانہال تک بانہال۔ منگت رابطہ سڑک کی جلد از جلد تعمیر اور نیابت منگت میں نائب تحصیلدار اور دیگر ملازمین کو تعینات کرکے اسے فعال بنانے کی گذارشات پیش کی گئیں لیکن اب تک کسی بھی قسم کے مثبت نتائج سامنے نہیں ائے ہیں جس سے لگتا ہے کہ غریب اور پسماندہ لوگوں کی آواز سننے اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے حکام میں سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقوں میں آباد لوگ ابھی تک بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور حکومت اور لیڈران اخباری بیانوں کے ذریعے لوگوں کو مسلسل بیوقوف بنانے تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور زمینی صورتحال اور لوگوں کے درد کا انہیں کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔