یو این آئی
نئی دہلی//شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ منشی نول کشور یادگاری خطبے میں معروف ادبی نقاد اور دانشور پروفیسر انور پاشا نے منٹو کی جمالیات کے عنوان سے ایک پر مغز اور فکرانگیزخطبہ پیش کیا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں جمالیات کے نظری مباحث اور سعادت حسن منٹو کے جمالیاتی پہلوں کو انتہائی گہرائی اور بصیرت کے ساتھ پرکھا ۔انہوں نے منٹو کی تحریروں میں پوشیدہ انسانی نفسیات، معاشرتی تضادات، طبقاتی تصادم اور معاشرے کی حقیقی صورت حال کو اجاگر کرنے کی منفرد صلاحیت پر مفصل روشنی ڈالی۔ اس حوالے سے انہوں نے منٹو کو ایک مشاق صیقل گر قرار دیا جو قاری کے حس جمال کی صیقل گری کرتا ہے کیوں کہ وہ ایک ایسے انسان کا نقش گر ہے جو بظاہر مکروہ اور بدطینت ہے لیکن باطن میں ازلی و ابدی انسانی جوہر سے مالامال ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ منٹو کے حس جمال کی گردش کا محور ذاتِ انسان اور جوہرِ انسان کے عرفان پر ہے۔ منٹو کی جمالیات صرف الفاظ کی خوبصورتی تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کے چہرے پر موجود داغوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ منٹو کے یہاں جمالیات کا تصور روایتی تصور جمال سے مختلف ہے کیوں کہ ہر منظر ناظر کے لیے مختلف تناظر رکھتا ہے، لہذا منٹو ناظر کی حیثیت سے خوبصورتی کو تلخ حقائق میں ڈھونڈتا ہے اور یہی اس کی عظمت ہے۔ بظاہر مکروہ اور بد طینت و بداعمال انسانوں میں وہ عرفان ذات اور جوہر ذات کے اعلی مظاہر تلاش کرتا ہے۔فاضل مقرر نے کہا کہ منٹو کے کردار محض کاغذی کردار نہیں ہیں، بلکہ وہ معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اورمنٹو کا ہر کردار اپنی مکمل انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔صدر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر کوثر مظہری نے صدارتی خطاب میں موضوع پر مہمان مقرر کی گرفت اور موضوع کے قابل فہم اظہار کی ستائش کی۔ خطبے کی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے انھوں خطاب کو انتہائی معلوماتی اور فکری اعتبار سے مالا مال قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس خطاب نے منٹو کے فن کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا اور اس کے افسانوں میں پنہاں فکری گہرائی اور اعلی انسانی اقدار کو سمجھنے میں مدد دی۔ صدر شعبہ نے طلبا کو شکیل الرحمن کی کتاب منٹو شناسی کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا اور منٹو فہمی کے حوالے سے اس کتاب کو بے حد اہم قرار دیا۔اس یادگاری خطبے کے کنوینر پروفیسر سرورالہدی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطبے کے آغاز میں منشی نولکشور کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی ادبی اور اشاعتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔