غلام حسن ڈار
حالانکہ گزشتہ زمانے کے مقابلے میں آج کے انسان کو مادی اعتبار سے لگ بھگ ساری ضروریات،ذرائع اور وسائل کی فراوانی حاصل ہے۔ محض روایتی طرز کی روٹی، کپڑا اور مکان ہی نہیں بلکہ خوردونوش کے لئے لذیذ اشیاء، زیب تن کرنے کے لیے اعلیٰ، عمدہ، معیاری اور قیمتی ملبوسات بھی میسر ہیں نیز آرام و آسائش کے لیے کشادہ، آرام دہ اور جدید ترین سہولیات سے لیس گھر بھی زیر استعمال ہے۔ تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ عصر حاضر کا انسان آسان، آرام دہ اور خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ سو اس دور کے انسان کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہونا چاہیے اور اس کے اندر حسد، کینہ، بُغض، نفرت، دشمنی اور ناشکری جیسے اوصاف رذیلہ بھی نہیں ہونے چاہیے تھے۔ گزشتہ ادوار کے لوگوں میں اگر ایسی چیزیں پائی جاتی تھیں تو اس کا جواز بھی تھا کہ ممکن ہے روٹی، کپڑا اور مکان کی عدم دستیابی نے ان کو مجبور کر دیا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل تو اس سب کا عام چلن ہے حتیٰ کہ تب جو حواس باختہ ہوتا تھا، اُسے سب ہی حواس باختہ ہی سمجھ کر اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ روا رکھا جاتا تھا۔ اُسے پاگل یا دیوانہ کہہ کر اپنے حال پر چھوڑا جاتا تھا لیکن اس کے برخلاف آج کے دور میں سب ہی آسائشیں اور سہولتیں میسّر ہونے کے باوجود بھی لوگ پچھلے لوگوں کے علی الرّغم عمومی طور پر اینکزائٹی، ڈپریشن اور دیگر ذہنی و جسمانی عوارض میں تشوشناک حد تک مبتلا ہیں۔ یہ صرف اسی لئےکہ انسان حد سے زیادہ حاسد، حریص اور لالچی بن چُکا ہے، اُسے اپنے کامیاب ہونے سے زیادہ دوسرے کی ناکامی خوشی دیتی ہے۔ نفرت اور حسد کی دہکتی آگ بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسے میں دنیا سے قدریں روپوش ہورہی ہیں، رشتوں میں وہ استواری نہیں رہی، محبتوں میں خلوص نہیں، غرض نئے کلچر اور نئے رویّوں نے انسان سے انسانی اوصاف چھین لئے۔ بے تکلفی ناپید ہورہی ہے، دُکھ، درد اور رنج و غم سینوں میں آتش فشان بن رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ غیض و غضب اور غصہ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ جس کسی دوسرے شخص سے بات کرو تو نہایت مختصر اور تول تول کر بات کرنا پڑتی ہے کہ کہیں بعد میں اس کا خمیازہ بُھگتنا نہ پڑے۔ زبانیں گنگ ہورہی ہیں، دل سُن ہورہے ہیں، جذبات ٹھنڈے پڑگئے ہیں، اندر یں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ والدین، بڑے اور اساتذہ خود ان ساری کیفیتوں کے سمندر میں شکستہ نائو لیے حیرانی و پریشانی کے عالم میں ایک طرف چھوڑ دوسری طرف لپک کر بے یارومددگار کسی غیبی مدد کے آرزومند نظر آرہے ہیں۔ نوجوان بے لگام، بے حیا اور بداخلاقی میں مبتلا نشوں کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ سیاست داں الگ سے جھانسے دے رہے ہیں۔ مبلغین اپنے مکتبِ فکر کے دفاع میں گلے پھاڑ رہے ہیں اور عام لوگ صحیح یا غلط طریقوں سے اپنا معیارِ زندگی مزید بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے گویا زمانۂ جاہلیت عود کر گیا ہے۔ ایسا کون سا کام، جرم اور گناہ رہ گیا ہے جو زمانۂ جاہلیت کے لوگ کر رہے تھے اور ہم اُس سے مُبریٰ اور مستثنیٰ ہیں۔ حالانکہ علم دنیا اور علم دین میں کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی بے مقصدی، ادھوراپن، خالی پن، انتشار، خلفشار ہمارا مقدر بن رہی ہے۔ ذہنی آسودگی اور سکون قلب غائب۔ سچ مانیں پہلے ایسا نہیں تھا، اُن کے پاس بہت کم تھا یا کچھ نہیں تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ اب دبائو ہے مجبوریاں ہیں اور بس!
ایسی صورتحال میں انسانوں اور انسانی معاشروں پر افسوس اور تشویش ہی ظاہر کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر ترقی یافتہ ذرائع اور رویّے انسانوں کے اندر مثبت سوچ و رویّوں کو ہی جنم دینے چاہیے تھے، ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی اور ہمدردی و محبت ہی کا اشتراک ہونا چاہیے تھا، لیکن پھر سے وہی حقیقت دہرانے کی مجبوری محسوس ہورہی ہے کہ انسان کے اندر خودپسندی خودغرضی اور لالچ کا مادہ بڑھ گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم بے چینی و بے قراری، مرضی، ذلت اور قرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں حیث القوم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر اپنے اور اپنے معاشرے کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ گھر اور معاشرہ میں پھیل رہی مختلف النوع معاملات، مسائل اور دیگر قسم کی زوال پزیری پر گہرائی سے غور کریں اور اُن مسائل و مصائب سے خود کو اور آنے والی نسلوں کو اس ناگفتہ بہہ انفرادی، سماجی اور نفسیاتی سطح کے نقصان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی و کوشش میں رہیں۔ ورنہ ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسمان
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
رابطہ۔9596010884
[email protected]