اس وقت پور ی دنیا میں منشیات کے استعمال کا جو عام رواج چل پڑا ہے، خاص طور سے نوجوان نسل جس بری طرح سے نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے، وہ ہر صاحب فکر کے لئے بے حد تشویش ناک صورت حال ہے، تمام احتیاطی تدبیروں کے باوجود منشیات کے استعمال کی شرح میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلام میں جن کاموں سے منع فرمایا گیا ہے ، ان میں نشہ کا استعمال بھی ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف اسے حرام بلکہ نا پاک قرار دیا ہے ۔ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی ۔ہمارے معاشرے میں منشیات کی وباء عام ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایمانی جذبات کمزور اور سرد پڑگئے ہیں، بے خوفی اورجرأت بڑھ گئی ہے، اللہ کا خوف رخصت ہورہا ہے، موت کی یاد سے غفلت عام ہے، آخرت کی فکر اور بارگاہ ِرب العزت میں حاضری اور جواب دہی کا استحضار باقی نہیں رہا اورلوگ گناہوں کی طرف سرپٹ دوڑے جارہے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب انسان دین و شریعت کی لگام اپنے اوپر سے ہٹا دیتا ہے توپھروہ اللہ کی امان سے محروم ہوجاتا ہے۔ہاں! حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق اُسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے دل میں حق کی طلب ہو، اگر کسی کے دل میں حق کی طلب ہی نہ ہو، غفلت کی حالت میں زندگی بسر کررہا ہواور نفس کا غلام بن چکا ہو تووہ حق سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ،اُسے عمل خیر کی توفیق نہیں ملتی اور وہ اپنی مجرمانہ غفلتوں میںمبتلا رہتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں منشیات کے استعمال کا عام ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اُمت ایمانی قوت سے محروم اور بارگاہ الٰہی میں باز پُرس کی حقیقت سے بے فکر اور بے خوف ہوچکی ہے۔سب جانتے ہیں کہ اولاد کو بنانے یا بگاڑنے میں سب سے نمایاں کردار گھر کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا ہوتا ہے، اگرو الدین یا ذمہ داران اپنی اولاد کی ٹھوس اور پختہ دینی تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی تربیت کی فکر کریں، ان کے شب و روز کی تمام مشغولیات کی حکمت کے ساتھ نگہداشت رکھیں ، انہیں منکرات اور فواحش کے راستوں پرجانے سے روکیںتوایک صالح و صحت مند معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے ہنگاموں اور مشغولیات میں والدین کو اپنی اولادکی دینی و اخلاقی تربیت کے لئے فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی اس کے ضروری ہونے کا انہیں احساس ہے۔اولاد بے حیائی کی راہ پر جارہی ہے اور منشیات کی لعنت میں مبتلا ہورہی ہے، اس کی اُنہیںکوئی فکر نہیں ہے، نتیجہ سامنے ہے کہ نوجوانوں کی وہ نسل سامنے آرہی ہے جو منشیات کی رسیا اور بگاڑ کا مرکب ہے۔موجود ہ حالات میں جب معاشی بد حالی کا دور دورہ ہے، ایک بہت بڑاطبقہ بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہے اور مایوسی، نفسیاتی کرب اور اضطراب کا شکار ہے تو یہ کرب بھی بسا اوقات نوجوان نسل کواپنے غم غلط کرنے کے لئے منشیات کے مہلک راستے پر لے جاتا ہے۔نوجوانوں میں نشے کی لت کا ایک محرک نشے باز ساتھیوں کی صحبت و رفاقت بھی ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں اپنے نام نہاد’’اسٹیٹس‘‘ کو بحال رکھنے کے لئے اپنے دوستوں کا جو’ ’ سرکل‘‘ بنانے کا فیشن چل پڑا ہے، وہ عیاش، بے حیا، اخلاق باختہ، شراب و کباب کے عادی نوجوانوں کا سرکل ہوتا ہے، وہاں کسی دین دار، با شرع، صالح، دینی خدمات سے وابستہ جوان کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی اُنہی بُروں کے رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔معاشرےمیں بڑھتے ہوئے منشیات کے رواج کو مٹانے اور تما م بُرائیوں کے سدباب اور ہر نوع کی مجرمانہ عادتوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایمانی جذبات بیدار کردیئے جائیںاوراللہ کا خوف جگا دیا جائے۔ بُرائیوں سے نفرت پیدا کرنے کا سب سے کارگر نسخہ ایمانی جذبات کی بیداری اوراللہ کی بارگاہ میں جواب دہی کا مکمل استحضار ہے۔اللہ کا خوف اور فکر آخرت وہ مضبوط زنجیر ہے جو انسان کو معاصی کے راستے پر چلنے سے بالکل روک دیتی ہے۔اسی طر ح بے روزگاری اور پھر اس کی وجہ سے آنے والے افلاس کی صورت حال انسان سے وہ سب کچھ کرا سکتی ہے جو نہیں کرنا چاہئے، مایوسی اور اضطراب کی کیفیات انسان کو منشیات کا عادی بھی بنادیتی ہیں، اس لئے معاشرے سے بے روزگاری کے خاتمے کی مہم میں سب کا حصہ ہونا چاہئے، کسی بے روزگار کو روزگار فراہم کرنا یا اس ضمن میں تعاون کرنا اسوہ ٔ نبویؐ اور اعلیٰ درجہ کا عمل خیر ہےاور گناہوں سے بچانے کا بابرکت کام بھی۔ دنیا میں رائج الوقت معاشی نظام تجربات کے بعد ناکام ثابت ہوچکے ہیں، معاشی ناہمواریوں اورغربت و بے روزگاری کا خاتمہ اگر کسی نظام کے ذریعہ ہوسکتاہے تو وہ اسلام کا برکت اور عدل و مواسات پر مبنی معاشی نظام ہے۔ معاشرے کے ذمہ داران کو اس حوالے سے بھی حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔