امة الله فاطمه كبروي
ہمارا اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔جس نے انسان کو حلال اور حرام چیزوں سے بخوبی آگاہ کیا ہے ۔ اسلام نے حرام اور حلال چیزوں کے حوالے سےبھی تمام باتوں سے آگاہ کردیا ہے اور اُن حرام چیزوں سے بچنے کی تاکید و تلقین کردی ہے،جن میں منشیات بھی شامل ہیںجو انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں اور لاغر و معذور بنادیتی ہے۔دین ِ اسلام میںحرام چیزوں کا استعمال کرنے والا انسان نہ دین کا رہ جاتا اور نہ ہی دنیا کا۔ نہ گھر کا رہ جاتا اور نہ ہی گھاٹ کا۔اس لئےمنشیات کابھی استعمال اسلام میں مکروہ وممنوع ہے،کیونکہ یہ بھی حرام چیزوں میں شامل ہے۔یعنی ہر وہ چیز جو انسان کو مدہوش کر دے،انسانی دماغ کو ماوف کردے،انسان کو اپنے ربّ سے دور کر دے،اسلام نے اُس چیز کا استعمال حرام قرار دیا ہے ۔ظاہر ہے نشے کی بد مستی میں انسان ،انسان نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات حیوان سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔گویا منشیات کا عادی انسان نہ تو اپنے دین کی پاسداری کرتا ہے اور نہ دنیا داری نبھا تا ہے،جس کے باعث اُس کی دنیا میں رُسوائی ہوجاتی ہے اور آخرت بھی بُرباد ہوجاتی ہے۔نشہ کوئی بھی ہو، نجس ہوتا ہے۔جس چیز کے استعمال سے انسان اپنی حِس کھوجائے،اپنے آپے میں نہ رہے،اپنے آپ کو بھول جائے،وہ حرام ہے۔جس چیز کے استعمال کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں، رشتے داروں اور معاشرے کو بھول جائے یا انہیں نقصان پہنچائے،وہ حرام ہے۔بلا شبہ آج پوری دنیا میں نشہ عام چیز ہوگئی ہے۔یہ لعنت پوری دنیا کی نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر رہی ہے ۔افسوس! اسلام نے مسلمانوں کے لئے جس چیز کی ممانعت کی ہے ، مسلمانوں میںاُسی چیز کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ منشیات کا دھندہ اور منشیات کا استعمال کرنے والے اب یہ حرام اور غیر قانونی کام ہر جگہ پر کھلے عام کررہے ہیں ،بغیر کسی خوف و کھٹکے اس غلیظ،ناجائز اور غیر قانونی دھندے کو ہر محلے اور ہر گلی میں پھیلایا جارہا ہے۔منشیات کے مختلف اقسام ہیں، جس میں سگریٹ ،شراب، آیوڈیکس،گٹکا، تمباکو،چرد ،گانجھا،نشہ آور دوائیں اور ہیروئن و کریک وغیرہ ،یہاں تک کہ گٹر کا سڑا ہو غلیظ و گندا پانی بھی شامل ہیں، جسے دوسرے نشہ آور ویکسین کی طرح سرینج کے ذریعے انسانی رگوں میں بھر دیا جاتا ہے۔کچھ لوگ تو بوٹ پالش اور رنگ و روغن میں کام آنے والی مایہ نُما اشیا بھی نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جس کے نتیجے نتِ نئی لاعلاج بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔جن میں ایچ آئی وی، ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں بھی شامل ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شے کی زیادہ مقدار نشے کا باعث ہو،اس شٔے کی کم مقدار بھی حرام ہے ۔یہ نہایت اہم بات ہے کیونکہ عام طور پر انسان میں کسی بھی نشے کی عادت،اس کےتھوڑے مقدار سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں لت پڑجانے سے اس کی مقدار بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ وہ اُس کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔موجودہ دورمیں نوجوان نسل کی ایک خاصی تعداد کونشیلی ادویات کے انجکشن کے بغیر سکون ہی نہیں ملتا،جبکہ ایک بڑی تعداد دوسرے نشے آور چیزوں کے استعمال کی عادی بن چکی ہے۔نوجوانوں میں نشے کی لت کا ایک محرک نشے باز ساتھیوں کی صحبت و رفاقت بھی ہے ۔بُری صحبت کے بدترین منفی اثرات اب معاشرے میں بدنما داغوں کی شکل میں نمایاں ہورہے ہیں۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے آدمی اپنے دوست کے طریقے پر کاربند ہوتا ہے۔اس لئے دوستی سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ کس سے دوستی کی جا رہی ہے۔سلف صالحین کے اقوال میں ہیں دل کے لیے بُروں کی صحبت اور ان کے بُرے افعال کو دیکھنے سے زیادہ ضرر رساں چیز کوئی اورچیز نہیں ہے۔
عموماً مشاہدہ میں یہی آرہا ہے کہ جب کوئی انسان،منشیات استعما ل کرنے والے دوستوں کی صحبت میں آجاتا ہے،تو اُس کی زندگی بھی اس لعنت سے آلودہ ہوئے بغیر نہیں رہ جاتی ہے۔خاص طور پر بے روز گاری کے اس دور میں کوئی بھی انسان پریشانیوں کے عالم میں منشیات کا دھندہ کرنے والوں کی نذر چڑھ ہی جاتا ہے۔افلاس کی حالت میں ،وہ ایس ے کام کر بیٹھتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ ناجائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کی مستی اور مایوسی و اضطراب کی کیفیات میں مبتلا انسان ، دونوںمنشیات کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ایک طرف عیاشی اور دوسری طرف لاچاری ،دونوں چیزیں انسان کو نشے کا عادی بنا سکتی ہے۔اس لئے معاشرے سے بے روزگاری کے خاتمے کی مہم میں سب کا حصہ ہونا چاہیے ۔کسی بے روزگار کو روزگار فراہم کرنا یا اس ضمن میں تعاون کرنا اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اعلی درجے کا عملِ خیر ہے اور گناہوں سے بچانے کا بابرکت کام بھی۔
دنیا میں رائج الوقت معاشی نظام تجربات کے بعد ناکام ثابت ہو چکے ہیں، معاشی ناہمواریوں اور غربت و بے روزگاری کا خاتمہ اگر کسی نظام کے ذریعے ہو سکتا ہے تو وہ اسلام کا برکت اور عدل و مواسات پر مبنی معاشی نظام ہے۔معاشرے کی ذمہ داران کو اس حوالے سے بھی حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
[email protected]