ریاست کےمختلف علاقوں سے منشیات کی ضبطی اور اس کاروبار میں ملوث افراد کےخلاف کاروائیوں کاعوامی حلقوں میںخیر مقدم کیا جا رہا ہے نیز یہ اُمید کی جارہی ہے کہ یہ کاروائیاں مشتے از خروارے کے اصول پر نہیں کی جائیں گی بلکہ منشیات کے کاروبار میں مصروف تمام عناصر کے خلاف منظم مہم چھیڑ نے میں کوئی پس وپیش نہیں کیا جائیگا۔ اس حوالے سے پولیس اور نارکوٹکس محکمہ پر کلیدی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، کیونکہ منشیات کے کاروبار نے جس وسیع پیمانے پر اپنے پر پھیلائے ہیں اس کے دبائو سے سارا سماج چُر مرارہا ہے اور نئی نسل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔ ریاست کے دونوں بڑے شہروں سرینگر اور جموں کے علاوہ قصبہ جات میں بھی فی الوقت منشیات کے کالے کاروبار کی سرگرمیاں جس منظم پیمانے پر چلائی جارہی ہیں اُس شدت سے اسکے خلاف کاروائی کا عشر عشیر بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ منشیات فروشوں کی گرفتاریوں کی خبریں آنے کے باوجود شہروں اور قصبوں کے بازاروں میں جا بجا منشیات کی لت میں مبتلاء نوجوانوں کے غول در غول دکھائی دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ کو ہمہ جہت پالیسی اختیار کرکے ایک جانب منشیات فروشوں کے خلاف شکنجہ کسنا چاہئے جبکہ دوسری جانب ریاست میںان جان لیوا فصلوں کی کاشت کے ابتدائی ایام میں ہی محترک ہو کر انہیں تباہ کرنے کے ساتھ یہ فصلیں اُگانے والے کسانوں کو حلال فصلوں کی کاشت کی طرف راغب کرنا چاہئے وگرنہ صورتحال ویسی ہی رہنے کا خدشہ ہے جو پہلے تھی۔ ریاست میںسماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹنے والے اس دھندے کے لئے کتنی مقدار میں زرعی اراضی استعمال ہورہی ہے اس کے متعلق مختلف محکموں کے پاس موجود اعداد وشمار کے مطابق کم از کم 24ہزار کنال اراضی پر منشیات کی کاشت ہوتی ہے ، جس سے اربوں روپے مالیت کی مختلف منشیات تیار کی جاتی ہیں ۔ منشیات کے زیرکاشت اراضی کاحجم بذات خود ایک انتہائی تشویشناک امرہے کیونکہ اس زمین سے اْگنے والا زہرصرفے کے لئے بالآخر سماج میں ہی راہ پاتاہے ، جس سے نسلوں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ آج دْنیا بھر میں نئی نسل کے اندر منشیات کے استعمال سے تباہی کی جو خوفناک صورتحال نظر آرہی ہے،اْس سے ساری دنیا متفکر ہیں اور اس کے انسداد کے لئے سر توڑ کوششیں کی جارہی ہیں ،لیکن یہ افسوس کا امرہے کہ ہماری ریاست میں اس حوالے سے نہ صرف حکومت بلکہ سماج کے اندر بھی انتہائی سطح پر بے حسی پائی جارہی ہے۔ یہ فصلیں کاشت کرنے اور ان کی پرورش وپرداخت کیلئے وہی محنت جو کہ ایک حلال فصل کے لئے ضرورت ہوتی ہے ، اْٹھائی جاتی ہے ۔ لیکن یہ کب بوئی جاتی ہیں اور کس طرح پنپتی ہیں اس کے بارے میں متعلقہمحکموں کی جانب سے کبھی عوام کو کسی قسم کی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ کیا یہ دانستہ عمل ہے یا پھر انتظامیہ اْسی وقت جاگتی ہے ،جب یہ حرام فصلیں لہلہانے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بھی غالباً متعلقہ محکموں سے یہ جواب طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے کہ ایک مکمل فصلی موسم کے دوران اس انسان دشمن کام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ ۔اس وقت غذائی اجناس کے حوالے سے ریاست کو جس کمی کا سامناہے ماہرین کے مطابق اس مذکورہ رقبہ سے اس قدر اجناس حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ یہ تفاوت دس فیصد تک کم ہوسکتاہے۔ کسی بھی مہذب قوم کے لئے یہ شایان شان نہیں کہ وہ حلال اجناس کی قلت کے ہوتے ہوئے حرام اجناس پیدا کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرے، جس سے نہ صرف سماج کی بنیادیں کھوکھلی ہورہی ہیں ۔سماج کے اندر پنپنے والی بے شمار بیماریوں کا سبب اس دھندے سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت ہے ، جو سماجی کو ایک نئی اور خطرناک طبقاتی کشمکش کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس خوفناک صورتحال پر فوراً جاگنے کی ضرورت ہے۔اب چونکہ موسم سرما ختم ہو چکا ہے اور فصلی زمینیں تیار کی جارہی ہیں لازمی طور پر یہ طبقہ بھی تیاریوں میں مصروف ہوگا۔لہٰذا انتظامیہ کے لئے بیدار ہونے کا وقت ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ لے کہ کن کن علاقوں میں اس حوالے سے سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں۔ محکمہ آبکاری اور پولیس کے پاس اْن علاقوں کا ریکارڈ موجود ہے ،جہاں منظم طریقے سے منشیات کی فصلیں تیار کی جاتی ہیں ،لہٰذا ایسا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے کہ اس انسان دشمن حلقے کو منشیاتی فصلوں کی بوائی کا موقع ہی نہ ملے۔ اس حوالے سے انتظامی وسماجی سطح پر منظم تحریک چلانا ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔بہرحال موسم خزاں میں بھنگ کی فصلیں تباہ کرنے کیلئے جو کارروائیاں کیجاتی ہیں اُن کا ہمیشہ ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کی کاشت کرنے اور ان سے منشیات تیار کرنے والوں کے خلاف موسم کی ابتداء سے ہی سنگین اور متواتر کارروائی کرنے میں کوئی نرمی نہیں کی جانی چاہئے۔اس کے بین اُن منشیات فروشوں کےخلاف بھی منظم مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے جو ادویات کی صورت میں انہیں ریاست میں داخل کرکے بازار میں ایک خطرناک نیٹ ورک کے ذریعہ فروخت کرتے ہیں۔ اگر چہ جموں میں اس حوالے سے کچھ سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں تاہم اسے ایک ریاست گیر مہم بنانے کی ضرورت ہے۔