ریاست میں پولیس نے منشیات فروشوں کےخلاف جو مہم شروع کی ہے، اُس کےخاطر خواہ نتائج سامنے آنے لگے ہیں،جبھی تو رواں ہفتہ کے دوران جموں اور کشمیر صوبوں میں مختلف مقامات پر بڑی مقدار میں منشیات کی ضبطی عمل میں لاکر ملوث افرا کو گرفتار کیا گیا ہے۔ چند روز قبل رام بن میں پولیس نے پچاس کلوگرام ہیروین، جس کی بین الاقوامی منشیات مارکیٹ میں کروڑوں روپے قیمت بنتی ہے، ضبط کرکے ایک بہترین مثال قائم کی ہے، جبکہ کل ہی نگروٹہ میں ایک گاڑی کی تلاشی کے دوران 72کلو گرام پوست برآمد کی گئی ہے۔ ایسی بھاری مقدار میں ضبطیوں کے عمل سے جہاں سماج میں ایک حوصلہ فزاء رجحان کو فروغ ملتا ہے، وہیں منشیات فروشوں کا مافیا ایسی منضبط مہم سے گھبرا کر سماج کے اندر مختلف حیلوں اور بہانوں سے امن وقانون کے مسائل پیدا کرنے کے درپے ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اُن ممالک میں جہاں منشیات کا کاروبار عروج پر ہے ایسا اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکام کی جناب سے سخت کاروائیوں کا توڑ کرنے کےلئے سماجی سطح پر انتشار پیدا کرنے کی کوششیں تیزکی جاتی ہیں، لہٰذا ریاستی حکام، خاص کر پولیس کو اس رجحان کے بارے میں خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر میں منشیات کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ کشمیر سے کٹھوعہ تک پوری ریاست اس وباء کی لپیٹ میں آچکی ہے اورزمینی صورتحال یہ ہے کہ ریاست منشیات کے خریدو فروخت کی پسندیدہ جگہ بن چکی ہے۔ جہاں تک ہماری وادی کشمیر کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ چند برس قبل تک کشمیری سماج اس خجالت سے مکمل طور ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمباکو کو چھوڑ کر دیگر انواع کے نشوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں کو تودہائیوں قبل اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستے ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار میں فروغ پاجارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق 16 سے 30 برس کے درمیانی عمروں کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ آسانی سے راغب ہوتے ہیں۔آج کل اکثر جو خبریں آتی ہیں ان میں چرس، گانجے، ہیروین، پوست اور نشیلی ادویات کی ضبطیوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ ضبطیاں لکھن پور سے لیکر اُوڑی تک کی جاتی ہیں۔ اس سے منشیات کے استعمال کا وسعتوں کا اندازہ ہو سکتا ہےکہ ہم کس طوفانِ بدتمیزی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ یہ ایک حیران کن امرہے ایک ایسی ریاست میں جہاں تقریباً40فیصد غذائی اجناس بیرونِ ریاست سے درآمد کئے جاتے ہیں وہاں زرعی اراضی کا ایک بھاری حصہ منشیات کی کاشت کے لئے استعمال ہوتاہے اور یہ سب کارروائی انتظامیہ کی ناک کے نیچے دن کی روشنی میں انجام پاتی ہے ۔ منشیات کی کاشت کوئی چند گھنٹوں یا دونوں کے دوران ہیر پھیر کی کارروائی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسی کاشت میں ایک مکمل فصلی موسم درکارہوتاہے اور اس دوران انتظامیہ کے متعلقہ محکمے کہاں خوابِ خرگوش میں پڑے رہتے ہیں،یہ ایک بہت بڑا سوالیہ ہے ۔ وادی میںسماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹنے والے اس دھندے کے لئے کتنی مقدار میں زرعی اراضی استعمال ہورہی ہے اس کے متعلق مختلف محکموں کے پاس موجود اعداد وشمار نہ صرف متضاد ہیں بلکہ مشکوک بھی ہیں ۔ محکمہ آبکاری کے ذرائع کا ماننا ہے کہ وادی میں کم ازکم 24ہزار کنال اراضی پر منشیات کی کاشت ہوتی ہے ، جس سے اربوں روپے مالیت کی مختلف منشیات تیار کی جاتی ہیں جبکہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ نصف سے بھی کم ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟اس بحث میں پڑے بغیر منشیات کے زیرکاشت اراضی کاحجم بذات خود ایک انتہائی تشویشناک امرہے کیونکہ بالآخر اس زمین سے اُگنے والا زہرصرفے کے لئے بالآخر سماج میں ہی راہ پاتاہے ، جس سے نسلوں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔ آج دُنیا بھر میں نئی نسل کے اندر منشیات کے استعمال سے تباہی کی جو خوفناک صورتحال نظر آرہی ہے،اُس سے ساری اقوام متفکر ہیں اور اس کے انسداد کے لئے مختلف سر توڑ کوششیں کررہے ہیں ،لیکن یہ افسوس کا امرہے کہ ہماری ریاست میں اس حوالے سے نہ صرف حکومت بلکہ سماج کے اندر بھی انتہائی سطح پر بے حسی پائی جارہی ہے ۔ جب یہ فصلیں تیار ہوجاتی ہیں تو محکمہ آبکاری اور پولیس کی طرف سے میڈیا کے ذریعہ روزانہ سینکڑوں کنال اراضی پر بھنگ کی فصلیں تباہ کرنے کی تشہیر بڑھ چڑھ کر کرائی جاتی ہے لیکن جن ایام میں یہ فصلیں کاشت کی جاتی ہیں اور ان کی پرورش وپرداخت کیلئے وہی محنت جو کہ ایک حلال فصل کے لئے ضرورت ہوتی ہے ، اُٹھائی جاتی ہے ، اُس دوران ان محکموں کی جانب سے کبھی عوام کو کسی قسم کی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ کیا یہ دانستہ عمل ہے یا پھر انتظامیہ اُسی وقت جاگتی ہے ،جب یہ حرام فصلیں لہلہانے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بھی غالباً متعلقہ محکموں سے یہ جواب طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے کہ ایک مکمل فصلی موسم کے دوران اس انسان دشمن کام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ اس وقت غذائی اجناس کے حوالے سے جس قلت کا سامناہے ماہرین کے مطابق اس مذکورہ رقبہ سے اس قدر اجناس حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ یہ تفاوت دس فیصد تک کم ہوسکتاہے ۔ کسی بھی مہذب قوم کے لئے یہ شایان شان نہیں کہ وہ حلال اجناس کی قلت کے ہوتے ہوئے حرام اجناس پیدا کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرے، جس سے نہ صرف سماج کی بنیادیں کھوکھلی ہورہی ہیں ، بلکہ نئی نسل تیزی کے ساتھ تباہی کی کگارکی جانب پہنچ رہی ہے۔سماج کے اندر پنپنے والی بے شمار بیماریوں کا سبب اسی دھندے سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت ہے ، جو سماجی کو ایک نئی اور خطرناک طبقاتی کشمکش کی جانب دھکیل رہی ہے ۔ اس خوفناک صورتحال پر فوراً جاگنے کی ضرورت ہے ۔ محکمہ آبکاری اور پولیس کے پاس اُن علاقوں کا ریکارڈ موجود ہے ،جہاں منظم طریقے سے منشیات کی فصلیں تیار کی جاتی ہیں ۔اب جب کہ بھنگ کی فصلیں تیار ہورہی ہیں اور آنے والے ایام میں ان سے زہریلا مواد برآمد کرنے کی منظم کارروائیاں شروع ہوں گی تو پولیس اور انتظامیہ پر یہ فرض عائید ہوتاہے کہ وہ فوری ہوش میں آکر اس سماجی ناسور کو جڑ سے اُکھاڑپھینکنے کے لئے حرکت میں آئیں ۔