منشیات اور نشہ آور ادویات کی تجارت اب شہروں کے علاوہ دور دراز دیہات کے علاقوں میں بھی بڑے پیمانےپر ہورہی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق ملک کی بیشتر ریاستوں جن میں یوٹی جموں و کشمیر بھی شامل ہے،کا کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں، جہاںمنشیات مافیا نے اپنا جال بچھایا ہے۔جس کے نتیجے میں بوڑھوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کے نشے کی لت کا شکار ہورہا ہے۔ جبکہ نوجوان نسل اس بُرائی کی دلدل میں سب سے زیادہ پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ منشیات کا یہ کاروبار ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں منشیات مہنگے داموںفروخت کی جاتی ہے وہیں دیہات اور دوردراز علاقوں میں ان کی قیمت کم رکھی جاتی ہےتاکہ ہر طبقے کے لوگ اسے باآسانی خریدسکیںاور اس طرح یہ زہریلا کاروبار ہر باشندہ کی دہلیز تک پہنچادیا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں نہ صرف دیہی علاقوں کی نئی نسل تباہ و برباد ہورہی ہے بلکہ گاؤں،دیہات اور پہاڑی علاقوںکے لوگوں کے سماجی تانے بانے بھی پارہ پارہ ہورہے ہیں۔ اگرچہ ان علاقوں میں سالانہ کروڑوں روپے کی منشیات پکڑی جاتی ہیں اور منشیات مافیا سے وابستہ لوگوں کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ کاروبار شدو مد سے جاری ہے اور بڑے پیمانے پر عروج پارہا ہے۔چنانچہ ان علاقوں میں شرح خواندگی بھی بہت کم ہےاورنوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم سے دور ہے ،اس لئےوہ بہت جلد اور آسانی کے ساتھ منشیات کے استعمال کی طرف مائل ہوجاتی ہےاور وہ ہر قسم کے غیر قانونی منشیات میں ملوث ہو رہے ہیں،جن میں چرس، گانجہ، سمیک اور دیگر نشہ آور ادویات شامل ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر 15 سے 21 سال کی عمر کے نوجوان اس بُرائی میں پھنس چکے ہیں۔ جن کی دیکھا دیکھی میں اب 10-12 سال کے چھوٹے بچے بھی منشیات کا استعمال کرنے لگے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے مستقبل کے لیے بہت ہی بھیانک علامت ہے۔ کیونکہ یہ نہ صرف ایک معاشرتی بُرائی ہے جو مستقبل کو تباہ کر رہی ہے بلکہ معاشرے میں ہر قسم کی بُرائیوں کا سبب بن رہی ہے۔ نوجوانوں میں منشیات کا یہ لت اتنی بڑھ گئی ہےکہ والدین چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اس سے بچا نہیں پا رہےہیں۔ کئی نوجوان طرح طرح کی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے نہ صرف اپنا مستقبل بلکہ صحت بھی خراب کرچکے ہیں اور اب ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ دسویں اور گیارہویں جماعت میں پڑھنے والے بہت سے بچے ایسے ہیں،جنہیں نشے کا عادی بنادیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کے پاس منشیات خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بچے نشہ کی خاطر گھر میں ہی چوریاں کر رہے ہیں اور گھر والوں کو اس کی خبر ہی نہ ہو؟ جس کی طرف والدین کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت پر اس پر دھیان نہیں دیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ملک کی بعض ریاستوںکے گائوں میں لوگ پہلے بھی شراب نوشی کرتے تھے، لیکن اس کا استعمال صرف تہواروں اور تقریبات میں ہوتا تھا۔ دوسرے دنوں میں گاؤں کے لوگ اس بُرائی سے دور رہتے تھے۔ لیکن آج یہ نشہ نوجوانوں کی رگوں میں اس قدر داخل ہو چکا ہے کہ اب وہ روزانہ استعمال کرنے لگے ہیں۔ شراب، چرس اور گانجہ جیسی نشہ آور ادویات نوجوانوں کو بے وقت موت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ہسپتالوں کے ریکارڈز کے مطابق بیشتر خواتین اور اسکول جانے بعض کم عمر کی لڑکیاں بھی اس جال میں پھنس چکی ہیں۔ منشیات کے کاروباری پہلے اُن سے صرف شوق کے طور پر استعمال کرایا جاتا ہے، پھر انہیں اس کا عادی بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ انتہائی غلط سمت میں جا رہا ہےاور ساتھ ہی گاؤں و دیہات کا سماجی ماحول بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ اس لئے جہاں ملک کی تمام ریاستوں کے حکمرانوں اور انتظامیوں کواِس بابت سنجیدہ غوروفکر کے بعد ٹھوس احکامات صادر کرنے کی ضرورت ہے وہیںجموں و کشمیر انتظامیہ کوپہلی فرصت میں دور دراز علاقوں کے دیہات کی طرف صحیح توجہ دینی چاہئے۔تاکہ منشیات کا کاروبار کرنے والے جوعناصران علاقوں کے لوگوں کی سادگی اورناخواندگی کاغلط فائدہ اٹھا رہے ہیں،اُن کو کیفر کردار تک پہچایا جاسکے۔منشیات کے استعمال کے باعث جہاں ان علاقوںکے نوجوان نسل کی زندگی خراب ہورہی ہےوہیں ان کا ذہنی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ نوجوان نسل اور کم عمر بچوں کو اس سے بچانے کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس معاملے میں ان علاقوں کے باشعور لوگوں کو سب سے بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔