شوکت احمد ڈار
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں مختلف مخلوقات کو پیدا کیا ۔تمام مخلوقات میں سے انسان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس کو اشر ف المخلوقات کے لقب سے نوازا گیا ۔ کائنات میں اس مخلوق سے بڑھ کر کوئی خوبصورت نہیں ،چنانچہ فرمان الٰہی ہے ۔’’یقینا ًہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ۔‘‘یہ عزت افزائی اور عزت وشرف صرف اسی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل وشعور سے نوازا،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی،خیر اور شر ،غلط اور صحیح کا تمیز سکھایا ۔اس میں نیکی اور گناہ کا مادہ رکھ کر اسے دنیا کے دار الامتحان میں بھیج دیا۔اس دنیا میں آنے کے بعد اگر انسان ایسی چیزیں استعمال کرنا شروع کردے، جس سے اس کی عقل متاثر ہو ،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے ،اس میں قوت بہیمہ کا غلبہ ہوجائے تو انسانی پیدائش کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ۔پھر اس کی مثال جانور کی طرح ہوجاتی ہے،بلکہ اس سے بھی بدتر ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے جو اس کے مقصد تخلیق کے مخالف ہوں ۔اس میں ایک چیز منشیات ہے ،منشیات انسانی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے ۔یہ ایک ایسا موذی مرض اوربُری عادت ہے ،جس نے لاتعداد خاندانوں کی زندگیاں تباہ وبربادکردی ہیں۔منشیات کے کاروبار اور مرض میں مبتلا ہونانہ صرف انسان کی اپنی ذات اور اسکی زندگی،بلکہ گھر ،معاشرے اور قوم کو تباہ وبرباد کرنے کے مترادف ہوگا ۔منشیات کے عادی افراد کو حلال وحرام کی تمیز نہیں رہتی ،معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ۔جرائم میں اضافہ ہوتا ہے ۔یہاں تک رواں برس میں رونما ہونے والے وہ واقعات کس کو یاد نہ ہونگے جہاں منشیات میں مبتلا لخت جگروں نےہی اپنے ماؤں کو موت کی نیند سلادیا۔یہ دل دوز حادثاث نشے میں مبتلا افراد ہی کے ذریعے سرزد ہوتے ہیں۔منشیات سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں، جن سے عقل میں فتور اور فہم و شعور کی صلاحیت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ منشیات کا اطلاق ہر اس شے پر ہوتا ہے،جس میں کسی طرح کا نشہ پایا جائے،خواہ وہ قلیل یاکثیرمقدار میں ہو،اس منشیات کے لت میں ہمارے آج کل کے نوجوان تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں ۔ اگر اس کا سد باب وقت پر نہ کیا گیا ،تو یہ لعنت پورے معاشرے کے نوجوانوں کو اپنے لپیٹ میں لے سکتی ۔نوجوان قوم کے معمار اور قوم کے مستقبل مانے جاتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ نوجوانی وہ عرصہ حیات ہے جس میں انسان کے قویٰ مضبوط اور حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے ،طوفانوں کا رخ موڑنے اورآندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے ،اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت متعدد شعرا نے نئی نسل کواپنی توقعات کا محور بنایا ہے اور براہِ راست ان سے خطاب کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ہے۔ ایک موقع پر اقبال یوں دعا کرتے ہیں: ۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے
نشہ آور چیزیں جسمانی اعتبار سےمضر ہے ،معاشی حیثیت سے بھی تباہ کن ہے ،اور سماجی و اخلاقی نقطہ نظر بھی سم قاتل ہے ۔اس کے سد باب کے لیے مختلف سماجی کارکن ،این جی اوز اور خاص طور پر پولیس بہت ہی پرُزور اقدامات اٹھانے میں مشغول ہیں اور ہم آئے روز خبروں میں یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ پولیس نے آج کاروائی کرتے ہوئے اتنے مقدار میں منشیات ضبظ کی ہے ۔لیکن ضبط کر کے اس کو ضائع کرنے کی خبر کھبی موصول نہیں ہو پاتی ۔ بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد میں منشیات استعمال کرنے کی وجہ جو ہو سو ہو ۔ مگر اکثر بچے اور نوجوان ،والدین کی غفلت اور ان کی سرد رویے کی وجہ سے نشے کی لت کا شکار ہوجاتے ہیںاور بعض دفعہ تو غلط صحبت کا اثر انھیں لے ڈوبتا ہے ۔یہ بھی دیکھا گیا کہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ نوشی یا دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتی ہے۔
بحیثیت انسان اور مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے ،کہ ہم معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو اس نشے کی لعنت سے بچائیں ۔والدین اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں ۔ان کے حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرے گھر کے باہر ان کی صحبت کن لوگوں سے ہیں اور ان کے مشاغل کیاہیں۔اس پر باریک نظر رکھیں۔ تمام مذہبی ادارے انسداد منشیات کے حوالے سے اپنا کلیدی کردار ادا کریں،اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسیٹوں میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کے لئے ورکشاپیں اور سیمینار ز کا انعقاد کئے جائیں۔ سماج سدھار تنظیمیں ،این جی اوز بھی اس کام میں مزید بہتریلائیں ،اور حکومتی سطح پر بھی اس لعنت میں مبتلا افراد اور اس کے کاروبار کرنے والوں پر سخت سے سخت اقدامات اُٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔