قیصر محمود عراقی
ہمارے ملک میں اس وقت جو مسائل گر دش کر رہے ہیں ، ان میں بے روزگار ی ، معیشت ، توانائی ، تعلیم اور صحت کے علاوہ جو مسئلہ نئی نسل کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے وہ ہے نشہ۔ منشیات استعمال سے نوجوان نسل اس سے بڑی حد تک متاثر ہو رہی ہے ، کئی نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کے خاندان عبرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں ، جبکہ ہندوستان اس وقت ان ممالک کی صف میں شامل ہے جس کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ در اصل دنیا میں بہت سے شوق نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے ہو تے ہیں اور بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن جا تے ہیں ۔ نشہ چاہے کسی بھی چیز کا ہو ، فطرت کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہندوستان میں منشیات کا استعمال فیشن بنتا جا رہاہے۔ ہندوستان میں نشہ آور ایشاء استعمال کر نے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ، ہر سال اربوں روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جا رہی ہے ، ملک کی ۳۰ فیصد دیہی اور پچاس فیصد شہری آبادی منشیات کا شکار ہے ۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ منشیات سے سب سے زیادہ ۱۳ سے ۲۵ سال کے جونوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہو رہے ہیں اور لرزہ دینے والی بات یہ ہے کہ ان میں ۵۰ فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات کے سروے کے مطابق ہندوستان میں لاکھوں سے بھی زائد افراد نشے کے عادی ہیں ، جو لوگ گٹکا ، نسوار ، پان ، چھالیہ ، سگریٹ اور ایسی ہی دیگر نشہ آور ایشا استعمال کر تے ہیں ،ان کی تعداد بھی الگ ہے ۔ منشیات کا رحجان اتنا بڑھ گیا ہے کہ پان ، نسوار ، گٹکا، سگریٹ جیسی نشہ آوراشیا کو نشہ تصور ہی نہیں کیا جا تا ، جبکہ ان ہی سے دیگر نشہ آور اشیا کی طرف رغبت بڑھتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کو تر قی کی منازل پر لے جا نے کے لئے اس کے نوجوان اثاثہ ہو تے ہیں ، مگر منشیات کی وجہ سے ہمارا ملک تباہ ہو رہا ہے اور حکومت آنکھیں پھیرے ہو ئے ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ منشیات کی عادت ایک موذی مرض ہے جو نہ صرف انسان بلکہ اس کے گھر ، معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کر دیتا ہے ۔ بد قسمتی سے منشیات کا استعمال اب ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے ۔ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہو تے تھے، جہاں سے ملک کا روشن مستقبل پر وان چڑھتا تھا ،وہاں اب انسان دشمن نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور نوجوانوں کی زندگی میں زہر انڈیلنا شروع کر دیا ہے ۔ پڑھے لکھے نوجوان جس تیزی کے ساتھ نشہ آور اشیاء کی طرف مائل ہو رہے ہیں ،یہ صورت حال حیرت انگیز اور خوف زدہ کر دینے والی ہے ۔ اس رحجان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کر نے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے ۔
ماضی میں صرف امیر گھرانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نشہ کر نے کوبُرا نہیں سمجھتے تھے ، لیکن اب یہ لت متوسط اور نچلے طبقے میں بھی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے ۔ نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہہ فلموں اور ڈراموں میں شراب ، چرس اور دیگر نشہ آور اشیا کا سرِ عام استعمال بھی ہے ، کیونکہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ لباس ،حلیہ وغیرہ تمام چیزوں میں اِن ہی فلمی اداکاروں کی نقل کر تا ہے۔ شراب و منشیات کے فروغ میں فلموں اور ڈراموں کا کردار بہت نمایا ں ہے ،کسی نہ کسی شکل میں نشہ خوری کے مناظر تمام فلموں ، ڈراموں میں دکھائے جا رہے ہیں ، نوجوانوں میں منشیات کی لت ایسی لگی ہے کہ اب منشیات کی لت ان سے ہر کام کرالیتی ہے ، چاہے وہ قتل ہی کیوں نہ ہو ۔ جرائم کے واقعات کو دیکھا جا ئے تو آدھے سے زیادہ جرائم نشہ کی وجہ سے ہو تے ہیں ، کیونکہ نشہ کے لئے پیسہ درکار ہے ، بیشتر ٹریفک حادثات بھی اسی بنیاد پر رونما ہو تے ہیں ۔ منشیات کا استعمال کر نے والے نوجوانوں میں زیادہ تر کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے ہے اور یہی نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں ، ان کو منصوبہ بندی کے تحت نشہ کی لت لگائی جا رہی ہے۔ منشیات کی فروخت میں گھنائو نے دھندے میں ملوث افراد چند پیسوں کے لالچ میں ملک کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔
یہ صورت ِ حال اس وقت ملک کے لئے لمحہ فکر یہ ہے، بالخصوص قوم مسلم کے لئے آج ہماری نوجوان نسل جس کو مستقبل کا معمار بننا ہے ، ملک او ر قوم کو تر قی کی راہ پر لے جا نا ہے ، وہ خود کچڑا اور سڑکوں پر آ رہی ہیں ۔ کھیل کے میدان یا کچڑا کی جگہیں نشہ خوروں کے لئے رہ گئی ہیں ۔ ایسے میں ہماری نوجوان نسل کو صحت مند سر گر میوں کی ضرورت ہے ، ان کو بنیادی سہولیات اور مواقع فراہم کئے جائیں تا کہ وہ اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کر سکیں ۔ بے کاری ، بے روزگاری کسی مثبت ، صحت مند اور مفید مشغولیا ت کا نہ ہو نا بگاڑ کی راہ لے جانے کا بہت طاقتور ذریعہ ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ معاشرے سے منشیات کی
لعنت ختم کرنے کے لئے اقدامات کر ے ، اس گھناونے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کر ے ۔ اسی طرح والدین اور اور اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں ، ان کے مشاغل کیسے ہیں ؟ افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشی اصلاح کا علم اُٹھانے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہو رہا ہے ۔ جبکہ حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں ، اساتذہ ،و الدین ، سماجی و رفاہی و ملی تنظیموں ، جماعتوں ، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد ، ڈاکٹر اور طبی اُمور سے وابستہ افراد کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے کے لئے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے اپنے دائرے میں مکمل کوشش کریں ۔ میڈیا کے وسائل کو نشہ مخالف ذہن سازی کے لئے استعمال کیا جا ئے ۔ نشہ کی فروخت پر پابندی لگائی جا ئے اور اس کا کاروبار کر نے والے ضمیر فروشوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جا ئے ۔ اسکولوں ، کالجوںاور یونیورسیٹیوں میں پروگرام ، سمینار ز کا انعقاد کیا جا ئے اور ان تمام اسباب و عوامل پر بند لگانے کی کوشش کی جا ئے ، جو منشیات کے فروغ میں معاون ہو سکتے ہوں ۔ اگر ایک طرف شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء سے منع کیا جا ئیگا اور دوسری طرف ان کی فروخت بھی ہو تی رہے گی تو اس تضاد کا نتیجہ معاشرے کی بگاڑ بھیانک شکل کے سوا اور کچھ نہیں ۔ جب تک ہر سطح اور ہر جگہ سے اس بندھ نہیں باندھا جائے گا تب تک اس لعنت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا ۔
بہر حال ہمیں چاہئے کہ ہم نوجوانوں کو نشے سے باز رکھنے کی تر غیب دیں ، انہیں اچھا دوست بنانے کا مشورہ دیں ، انہیں گفتگو کر نے کا انداز سکھائیں اور حکومت سے بھی التجا کریں کہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرے تا کہ ہماری نسل بچ سکے ۔ تعلیمی ادارے بھی نوجوانوں کی تر بیت کا اہتمام کریں ۔ یہ سچ ہے کہ ہم نشے کو سو فیصد ختم نہیں کر سکتے ،البتہ اپنی کوششوں سے ہم اس کو کم سے کم تو کر سکتے ہیں ، یہ ختم نہیں ہو سکتا مگر اس کی شدت میں کمی تو لائی جا سکتی ہے اور یہ بہت ضروری ہے کہ اس کی شدت میں کمی واقع ہو تا کہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔
رابطہ۔ 6291697668