خورشید ریشی
آج ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں نشے کی لت میں نوجوان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےاور نشے کی بدولت ہی سینکڑوں گھر برباد ہو گئے۔ اسی نشے کی لت میں مبتلا نوجوانوں نےاُس وقت انسانیت کو شرمسار کیا ،جب کسی نے اپنی ماں اور کسی نے اپنے باپ کو موت کے گھاٹ اُتار اور کئی نوجوانوں نے نشے کی لت میں مبتلا ہو کر اپنے والدین کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا اور اسی کی بدولت گھروں کے گھر اُجڑ گئے۔
ہم نے منشیات استعمال کرنے والوں کی زندگیوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے ،ہم نےنشیئوںکی لاچار مائوں کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا ہے ،ہم نے اس بے بس والدکے چٹان جیسے حوصلے کو بکھرتے دیکھا ہے،جن کی لاڈلی اولاد نشے کی دلدل میں پھنس کر لاغرہوچکی ہے ۔ہم نےاُن لڑکیوں کو بھی دیکھا ہےجنہوں نےکچھ نیا کرنے کی چاہ میں اپنی زندگیاں جیتے جی مار دیں۔ہم نے منشیات کے اس غلیظ دھندے اور اس کے استعمال سے نتیجے میں اچھے بھلے گھروں کو بُرباد ہوتےہوئے دیکھا ہے ،ہم نےاسی نشے کے باعث کئی دلہنوں کو بیوہ ہوتے دیکھا ہے ، ننھے مُنےمعصوم بچوں کو یتیم ہوتے دیکھا ہے ۔الغرض منشیات میں مبتلا لوگوں نے اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی زندگیوں میں ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اور انہیں آسمان سے گرا کر زمین پر لا کھڑاکردیا ہے۔
پچھلے کئی سال سے ایل جی انتظامیہ اور جموں و کشمیر پولیس نے منشیات کا کاروبار کرنے والوں پر شکنجہ کسا ہے اور ایسے افراد کی پراپرٹی کو سیز بھی کیا ہے اور کئی ایک سرغنہ کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔لیکن پھر بھی منشیات کے دھندے اور ان کا استعمال تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے،اس لئے ہم سب پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے مقدور کے مطابق اس بدعت کے خلاف جنگ چھیڑ کر ہر سطح پر محکمہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور ساتھ ہی والدین پر انتہائی لازم ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ جیب خرچ نہ دیں اور بچوں کو اتنے ہی پیسے دیں ،جتنی ضرورت ہو اور جن ضروریات کی چیزوں کی اُنکو ضرورت ہو، وہ خود خرید کر اُنہیں دیں اور بچوں سے ہر روز اسکول، کالج یا مارکیٹ یا سیر و تفریح کی جگہوں سے واپس آنے پر ان کا احتساب کریں۔اس کے علاوہ والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کے بچوں کے تعلقات کس کس کے ساتھ ہے ۔اُن کے دوست کون ہیں یا اُن کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا کن کے ساتھ ہے اور یہ فرصت کے لمحات میں کن کن سرگرمیوں میں مصروف رہتاہے، ان کا فونک رابطہ کن کے ساتھ ہے اور روز بروز اس کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر بھی دھیان دیں۔اگر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہم سب عمل کریں تو اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑنے میں ہم کامیاب ہوسکتےہیں۔اسی طرح سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنے اپنے محلوں، گائوں اور دیہات میں نوجوانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی اور کونسے نئے چہرے ہماری گلیوں، کوچوں میں رات دیر گئے تک چکر کاٹتے ہیں اور ان کا رابطہ کن کے ساتھ ہے یا کسی کو مشکوک حالت میں دیکھ کر اُس کی چھان بین کریں اور محکمہ پولیس کو اس بارے میں مطلع کریں۔ہمارا یہ فرض اولین بنتا ہے کہ اپنے کھیت کھلیانوں میں جہاں کہیں بھی بھنگ کا پودا نظر آئے،اُسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں ۔ اس بدعت کے خلاف اپنی اپنی سطح پر جنگ چھیڑ کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں اور یہی سب کچھ منشیات مخالف مشن کا اصل مدعا ومقصد ہے۔
[email protected]