اس دن جب شہر میں میٹنگ ختم ہونے کے بعد میںگھر لوٹ رہاتھا تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ شام کے اندھیرے گہرے ہوگئے تھے لوگ گھروں میں داخل ہوچکے تھے ۔اکثر گھروں میں چراغ بجھائے گئے تھے ۔کسی کسی گھر سے دھندلی سی روشنی باہر آرہی تھی اور کہیں کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں زندگی کا احساس دلا رہی تھیں۔ میں سڑک پر اکیلا ہی جا رہاتھا ۔تنہائی کا احساس شدت سے ہو رہا تھا اور میرے دل میں گھبراہٹ سی پیدا ہوگئی تھی۔میں تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا تاکہ جلدی سے گھر پہنچ جاؤں ۔اور وہ چیخیں میرے کانوں میں بھی گونجنے لگیں۔وہ ہیبت ناک ڈراونی آوازیں مجھے خوف زدہ کر رہی تھیں ۔میری دھڑکنیں تیزہوگئیں ،سانس پھولنے لگی اور مجھے اپنے آس پاس کسی کی موجودگی کا احسا س ہورہا تھا مگر کوئی دکھائی نہ رہا تھا۔میں تیز دوڑ لگا ناچاہتا تھا لیکن میرے قدم بوجھل ہوچکے تھے اورمجھے لگ رہا تھا کہ ابھی آکروہ میرا بھی گلا گھونٹ دے گی ۔لوگوں کی ساری باتیں میرے ذہن میں آرہی تھیں :
’’اس کا چہرا کالا ہے ‘‘
’’لمبے لمبے کھردرے بال ہیں ‘‘
’’ منہ سے رال ٹپکتی ہے ‘‘
’’وہ ہر انسان پر حملہ آور ہوتی ہے اور اپنے لمبے ناخنوں سے کھرچتی ہے ‘‘
’’نہ جا نے آج تک اس نے کتنے بچوں کو کھایا ہوگا ‘‘
یہ ساری باتیں یا دآنے سے میں اپنے ہو ش جیسے گنوا ں بیٹھا تھا اور میں کس طرح سے گھر پہنچ گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔
اس واقعہ کے بعد میں نے اُن لوگوں کو توہم پرست کہنا چھوڑ دیا تھاجو کہہ رہے تھے کہ دور قبرستان میں کچھ دنوں سے ایک ڈائن رہ رہی ہے، جو شام ہوتے ہی قبرستان سے باہر آتی ہے ۔عجیب و غریب آوازیں نکالتی ہیںاور زور زور سے کسی کانا م لیکر پکار تی ہے ۔پھر یہ آوازیں دور ہوتی جاتی ہیں اور ہوا میں گم ہوجاتی ہیں ۔ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتوں سے بڑھکر اور کیا ثبوت چاہئے تھا مجھے ۔یہ چیخیں تو میں نے خود اپنے کانوں سے سنی تھیں ۔
اس دن کے بعد شام ہوتے ہی میں گھر لوٹتا تھا اور وقت سے پہلے ہی بستر میں دبک جاتا تھا کہ کہیں وہ آوازیں مجھے پھر سنائی نہ دیں ۔
میں یہ سارا قصہ اپنے دوست وسیم کو سنا رہا تھا اور وہ لڑکی ہمارے سامنے اپنے شوہر کی قبر پر مری پڑی تھی۔لال جوڑا پہنا ہوا تھا ،ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی تھی جس کا رنگ ماند پڑھ چکا تھا ،ناخن خوبصورت انداز میں تراشے ہوئے تھے ،گلابی ہونٹ سوکھ چکے تھے ،بالوں سے خوشبو کے بھبکے ابھی بھی اُٹھ رہئے تھے ۔اوراس کے جسم سے بھاپ اڑرہی تھی، جیسے کہ اس نے ابھی ابھی نہایا ہو ۔لوگ آس پاس بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے ۔
وسیم مجھے بتا رہا تھا اس لڑکی نے اپنی زندگی میں بہت ستم سہے ہیں ۔کم سنی میں والد کے انتقال کا صدمہ برداشت کرنا پڑا اور زندگی اجیرن بن گئی ۔ بڑی مشکلوں میں ماں نے پرورش کی ۔محلہ والوں نے چندہ جمع کرکے پچھلے مہینے اس کی شادی کی تھی ۔زندگی میں پہلی بار اسے کچھ آرام نصیب ہوا تھا لیکن۔۔۔۔
کچھ دنون پہلے اس کے شوہر کا کسی نے قتل کر دیا ،جس کا صدمہ یہ برداشت نہ کر سکی اور اپناذہنی توازن کھو بیٹھی۔دن میں کسی طرح اس کا جی بہلتا تھا مگر شام ہوتے ہی اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا تھا اور یہ اپنے شوہر کی قبر پر آکر اسے زور زور سے پکارتی تھی،اس کے گھر والے ا سے لینے آتے تو یہ دور دور تک اپنے شوہر کو پکارتی تھی۔آج اسے لینے کوئی نہ آیا تھا اور جاڑے کی ٹھنڈ نے اسے اپنے شوہرسے ملا دیا ۔
بومئی زینہ گیر ، سوپور، کشمیر
موبائل نمبر؛9858493074