سامنے حد نگاہ تک گھاس کے میدان ہیں۔ پیچھے بلند و بالا پہاڑ پر ہرا بھرا گھنا جنگل، جس میں تناور دیودار آسمان کی طرف سر اٹھائے اللہ کی وحدانیت یاد دلاتے ہیں۔ اس جنگل میں کائرو، بدلو اور دوسرے اقسام کے درخت بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان فضاؤں میں ہمیشہ سوندھی سوندھی سی خوشبو بسی رہتی ہے اور ہم اس خوشبو سے بچپن ہی سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔جنگل کے دامن میں ایک چھوٹی سی صاف و شفاف ندی ہے جو نغمے گاتی ، اٹھلاتی اور کسی الھڑ دوشیزہ کی طرح لہراتی ہوئی نامعلوم منزلوں کی جانب رواں دواں ہے ۔ جنگل کے دامن میں ہی میرا یہ چھوٹا سا گاؤںہے جس میں اب پچیس چھوٹے چھوٹے کوٹھے ہیں کیونکہ پچھلے سال ہی صمد ا لدین کے دو بیٹے اور محمد الدین کے تین بیٹے اپنے باپ سے الگ ہوئے تھے اور انہوں نے بھی اپنے اپنے کوٹھے بنالئے تھے اس طرح ان ناہنجار اولاد کی وجہ سے تعداد پچیس ہوگئی، نہیں تو میں نے بچپن سے ہی یہاں بیس ہی کوٹھے پائے تھے۔ میرے والد صاحب بھی ان وسیع و عریض گھاس کے میدانوں میں دوسرے گاؤں والوں کی طرح بھیڑ بکریاں پالا کرتے تھے اور ان کے بعد اب یہ کام میں ہی سنبھال رہا ہوں ، لیکن میں اپنے والدین کا نافرمان بیٹا نہیں تھا۔ میں نے، جو بھی مجھ سے ہوسکا، والدین کی خد مت کی اور میری ماں آخری لمحے تک مجھے دعائیں دیتی رہی ۔ قصبوں کے قصائی تو ہر مہینے آکر یہاں سے مال خریدتے ہیں لیکن شہروں سے بھی کئی کوٹھدار عیدوں کے مواقع پر اپنے ملازموں کے ساتھ آکر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ خرید کر لے جاتے ہیں ۔ پچھلے برس میرے مال میں کافی برکت ہوئی اور امسال بھی میں نے کافی پیسے کمائے۔ میری ہانڈی جب لبالب بھر گئی تو ایک گھڑے میں نوٹ ڈالتا رہا۔ پچھلے مہینے یہ گھڑا بھی بھر گیا اور اب اس گھڑے میں اور نوٹ نہیں ٹھونسے جاسکتے تھے۔ پھر یہ پریشانی کہ نوٹوں کو ہر ہفتے دھوپ میں بھی رکھنا پڑتا تھا تاکہ سیلن سے خراب نہ ہوجائیں۔ دوسری بڑی پریشانی قصبے، شہر سے کوئی چور اچکا آگیا تو سارا کچھ آسانی سے لوٹ کر لے جائے گا۔ میری پریشانی بڑھتی گئی اور راتوں کی نیندیں بھی حرام ہوگئیں۔ بیوی الگ سے پریشان اور میں کئی ہفتوں سے اپنی بانسر ی بجانا بھی بھول گیا ،جسے سننے کے لئے سارا گاؤں میرے صحن میں جمع ہوجایا کرتا تھا۔ اس لئے گاؤں میں یہ باتیں بھی ہونے لگی کہ گل الدین کو کو کوئی روگ لگ گیا ہے اور بڑھے بوڑھے مجھے ہسپتال لے جانے کے لئے آپس میں مشورہ بھی کرنے لگے تھے۔ سیانے لوگوں کا خیال تھا کہ مجھ پر کسی نے جادو ٹونا کیا ہے ، لیکن میں اپنی کیفیت سے واقف تھا اور سمجھتا تھا کہ مجھے اپنی جمع پونجی نے بیقراری اور ا ضطراب میں مبتلا ء کردیاہے۔ میں اب اپنے رشتے سے بھی دور دور ہی رہنے لگا تھا ، تنہا اور اداس۔ صرف اپنے گھڑے اور ہانڈی کو دن میں کئی بار دیکھنے اوپر جاتا، جہاں چھت کے نیچے میں نے انہیں چھپا رکھا تھا ۔بیوی سے بھی تاکید کی تھی کہ کبھی میری غیر موجودگی میں باہر نہ آیا کرے۔ اسی دوران شہر سے کمال صاحب آگئے۔ یہ صاحب میرے باپ سے بھی مال خریدا کرتے تھے اور آج بھی پہلے میرے پاس آکر میرے ہی مال کو پہلی ترجیح دیا کرتے تھے۔ بکریوں کے غول سے فال کا انتخاب کرنے کے بعد لین دین کی بات ہوئی تو میرے دل میں چھپا ہوا سوال لبوں تک آہی گیا۔ ’’میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ کسی بڑی عمارت میں اپنا روپیہ پیسہ جمع رکھتے ہیں ،کیا نام اس کا ۔ کچھ ایسا ،، ’’ارے گل ا لدین تم بینک کی بات کرتے ہو ،ہاں سبھی لین دین تو بینک سے ہی چلتا ہے ، کوئی پیسہ ہم نہ تو گھر میں رکھتے ہیں اور نہ ساتھ لئے پھرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘کمال صاحب نے میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر کہا ،، ’’کیوں بے گلے پیسہ جمع ہوا ہے۔ آجانا شہر، میں تمہارا اکاونٹ کھلواؤں گا ‘‘کمال کوٹھے دار نے ہنس کر کہا۔ ’’نہیں نہیں بس یوں ہی پوچھا تھا ۔در اصل میں نے کہیں سے ایسا ہی کچھ سنا تھا‘‘میں نے جلدی سے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا۔ اسی رات کو، جب بچے سوگئے،میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا۔ وہ بھی میری ہی طرح پریشان تھی اس لئے فوراً ہی اس بات پر اتفاق ہوا کہ میں شہر کی طرف روانہ ہوجاؤں اور کمال کوٹھیدار کو ساتھ لے کر اکاونٹ کھلواؤں۔ اب مسلہ یہ تھا کہ اتنے سارے پیسے کیسے لے جاؤں ؟ میری بیوی بھی اگرچہ میرے ہی قبیلے کی ہے لیکن پھر بھی پوری پانچ جماعتیں پاس کر چکی تھی، اس نے بڑا اچھا مشورہ دیا کہ ایک بڑے تھیلے کے اندر سارے نوٹ ٹھونس ٹھونس کر بھرے جائیں اورنوٹوں کے اوپر ساگ سبزی ڈالی جائی تاکہ دیکھنے والے سمجھ جائیں کہ سبزی کا تھیلہ ہے۔ اس طرح میں نے ایک روز پو پھٹنے سے پہلے ہی اپنا سفر شہر کی طرف شروع کیا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ میں کہیں بھی کسی سواری پر نہ بیٹھوں ، بس جو بھی ہو پیدل ہی شہر پہنچنا ہے۔ میری شام ایک بڑے سے گاؤں میں ہوئی اور رات کے اندھیرے گہرے ہوئے تو میں ایک ایسی جگہ تھا جہاں دور دور تک مجھے آبادی کا کوئی نشان نظر نہیں آیا ، بس وحشت زدہ سی آوازیں ہر طرف سناٹوں میں گونج رہی تھیں۔ میرے دائیں بائیں درختوں کے جھنڈ تھے اور دور کہیں ان وحشت زدہ فضاؤں میں کبھی کبھی کتے کے بھو نکنے کی آوزیں مجھے ڈراور خوف میں مبتلا کر رہی تھیں۔ اب آگے مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،میں ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنی جیب سے ماچس نکالی،ابھی جلا بھی نہ پایا تھا کہ عجب سی روشنی درخت سے پھوٹنے لگی اور اس سبز اور عجیب سی روشنی کا دائرہ عمل تقریباً چار گز تک پھیل کر رک گیا۔ میں ڈر اور خوف سے کانپنے لگا۔ سارے جسم پر تھر تھری طاری ہوئی۔ بے اختیار سر پر پائوں رکھ کر بھاگنا ہی چاہتا تھا کہ کسی ٹھنڈے ہاتھ نے میری کلائی پکڑ لی اور میں نے محسوس کیا جیسے مجھے ہتھکڑی پہنائی گئی ہو۔ میں نے نظر اٹھا کے دیکھا تو صم بکم رہ گیا کیونکہ میرے سامنے ایک نورانی چہرہ تھا ، سر تا پا سفید کپڑوں میں ملبوس اور روشنی درخت سے نہیں بلکہ اس نورانی چہرے سے منعکس ہورہی تھی ۔’’مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے گل الدین،میں اللہ کا فرشتہ ہوں، اور تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچاؤں گا‘‘ نورانی بزرگ کے لہجے میں عجیب سا اثر تھا کہ میری تھرتھری فوراً رک گئی اور مجھ میں زبردست ہمت اور قوت آگئی،،،،،، ’’اے اللہ کے فرشتے آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور کیوں آئے ہیں ‘‘میں نے پوچھا لیکن مجھے خود بھی حیرت ہوئی کہ اب مجھ میں ڈر کا شائبہ تک نہیں تھا،شاید یہ قوت گویائی بھی کوئی کرامت ہی تھی’’گل الدین۔۔ تم نے اپنے ماں باپ کی جو خدمت کی ہے وہ اللہ کو پسند آئی ہے اور اس کے بدلے میں تمہارے لئے جنت میں بہت سارے مکانات اور باغات اللہ کی طرف سے انعام کی صورت میں تیار ہیں ، مجھے حکم ہوا ہے کہ آج تمہیں ان باغات اور مکانات کی سیر کراؤں تاکہ تم دنیا میں اور بھی نیکی اور عبادات کی طرف دل لگا سکو کیونکہ آخر ہر شخص کو ساری دنیا چھوڑ کر خالی ہاتھ ہی وہا ں جانا ہے ،،آہ ۔جنت ۔۔ جس کے لئے لوگ ساری زندگی تپسیا کرتے رہتے ہیں ،اصل منزل تو یہی ہے اور مجھے یہ حاصل ہورہی ہے۔ میرے دل و دماغ میں یہ جملے گونجنے لگے اور میں فوراً ہی فرشتے کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوا۔’’چلئے، میں تیار ہوں اے اللہ کے مہرباں فرشتے ‘‘میرے لہجے سے خوشی چھلک رہی تھی،،، ’’چلو اے اللہ کے نیک بندے ،، لیکن یہ جو تمہارے ہاتھ میں تھیلہ ہے اسے یہیں چھوڑ جاو کیونکہ جنت میں ان دنیاؤی چیزوں کا کوئی مول نہیں‘‘فرشتے نے مسکرا کر کہا اور مجھے یاد آیا کہ مجھے بینک پہنچنا ہے اور اپنا سارا روپیہ پیسہ جمع کرکے اس کی حفاظت یقینی بنانی ہے،،،،میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ ہاتھ چھڑایا اور چیخ کر بولا ،،،،،’’،نہیں نہیں مجھے اس وقت فرصت نہیں ،،اے اللہ کے فرشتے مجھے بینک پہنچنا ہے اور یہ سارا روپیہ وہاں جمع کرنا ہے، مجھے معاف کریں ‘‘۔ ’’اے نادان آدم زاد ، کیا ہوگیا تمہیں، تم نہیں سمجھتے جنت کیا چیز ہے اور دنیا محض چند دنوں کی چاندنی ہے ۔ کیوں اس تھیلے کے لئے جنت کے نظارے سے محروم ہورہے ہو جو تمہارے کسی کام کا نہیں‘‘ فرشتے کی آواز مجھے ہر طرف گونجتی ہو ئی محسوس ہورہی تھی۔میں فوراً فرشتے کے قدموں پر گر کر گڑ گڑانے لگا ،،،’’اے اللہ کے فرشتے مجھے جانے دو ۔ مجھے جانے دو ، خدا کے لئے مجھے جانے دو،مجھے بینک پہنچنا ہے ا ور ابھی مجھے جنت کے نظارے کی فرصت نہیں ‘‘ اچانک روشنی غائب ہوگئی اور گھپ اندھیرے میں ، میں نے تھیلی اپنے سینے سے بھینچ کر اندھادھند شہر کی طرف دوڈنا شروع کیا تاکہ بینک پہنچ سکوں ،،،،
رابطہ؛ سوپور کشمیر،فون نمبر9419514537