مفتی رفیق احمد کولاری
ہمارے ملک کی ایک ریاست کرناٹک میں آج اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں اور لوگ اپنی حق ِرائے دہی کا استعمال کررہے ہیں،جبکہ انتخابی نتائج ۱۳؍ مئی سنیچروار کی شام تک منظر عام پر آجائیںگے۔ اس سلسلے میں پچھلے ایک مہینے سے ریاست ِ کرناٹک میںانتخابی ریلیاں اپنے اپنے جوش وجذبے کے ساتھ رواں دواںر ہیں۔ ہر سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا جلوہ وجادو دکھانے میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ایک سے ایک وعدے کئے جارہے ہیں۔ کوئی بجلی مفت دینے کی بات کررہاتھا تو کوئی گیس سلنڈر فراہم کرنے کی بات کررہا تھا۔ ایک سے ایک سیاسی منشور شائع کئے جارہے تھے۔ کوئی کسی سے کم نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ کاش اس سے قبل ایسے ہی دعوئوں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تو ریاست کیا پورا ملک ترقی کی شہ راہ عام پر گامزن ہوا ہوتا۔جبکہ ہمارا ملک آج کل فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے۔ درد والم تو اتنا ہے کہ دل بھی پریشان وحیران ہے کس پر ماتم کریں اور کس پر نوحہ کریں۔
درد والم کی کہانی سنانا ہمارا مقصد نہیں۔ کیونکہ درد بھی تڑپتے تڑپتے خاموش مزاجی کا خوگر بن چکا ہے۔ اب درد سنانے کا وقت نہیں بلکہ کچھ اچھاکرنے کا حسین موقع ہے۔اگر ااج کےاس الیکشن میں بھی تھوک کے بھاؤ میں مسلمان اپنے جمہوری وآئینی حق ووٹ کو بیچ ڈالیں تو آنے والا وقت کبھی اسے معاف نہیں کریگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان پورے ہوش و حواس کے ساتھ ووٹ کا استعمال کریں۔ جو بیرون ریاست کام کاچ کرتے ہیں ،وہ بھی اپنے اپنے حلقے میں پہنچ کر ووٹنگ لسٹ میں اپنا نام ہے یا نہیں جانچے اور اگر نہیں تو نام اندراج کرنے کی کوشش کریں اور کسی بھی طرح اپنا ووٹ برباد نہ کریں، اس لئےکہ ایک ووٹ کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ کبھی کبھی ایک ووٹ سے حکومت بنتی ہے تو کبھی ایک ووٹ کی کمی سے حکومت گرجاتی ہے۔
آج کل اداریوں اور فیچرز میں بھی کافی اچھے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ووٹ کی شرعی حیثیت اور قانونی حیثیت کو خوب اُجاگر کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب وقت کی ضرورت بھی ہے۔ووٹنگ کی اہمیت وافادیت سے مجھے قطعی انکار نہیں۔ جہاں ووٹنگ کی اہمیت ہے وہیں امت مسلمہ کو اتحاد واتفاق کا مظاہرہ بھی کرنا ضروری ہے ۔ فرقہ بندیوں کو ختم کرکے ایک پلیٹ فام پر جمع ہوکر ملت کے وجود کے لئے کام کرکے اپنی زندہ دلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ آپسی انتشار وخلفشار کو ختم کرکے ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار اور ملک کی جمہوریت اور سا لمیت کا محافظ ہو، جو قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بات کرتا ہو، جو نفرت کی بازار میں محبت کی دکان کھولنا چاہتا ہو، مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قوم وملت کی فکر کرتا ہو، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ نہ تم رہوگے نہ تمہارا مسلک۔
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو قوم اتحاد واتفاق کے لیے بھیجی گئی تھی، وہیں قوم آج بری طرح باہمی انتشار سے دوچار ہی نہیں بلکہ آپس میں دست وگریباں ہے۔ مسلم سماج میں اختلافات کی لہر سمندروں کی تلاطم خیز امواج کی طرح جاری وساری ہے۔ کہیں مسلکی اختلافات تو کہیں مشربی اختلافات ہیں۔ کہیں خانقاہی اختلافات تو کہیں ذاتی اختلافات ہیں۔ اختلافات کے گھنے جنگل میں مسلم قوم ایسے پھنسی ہے کہ نکلنا دشوار دکھائی دیتا ہے۔ اسی اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
مسلکی اختلافات کے ہم منکر نہیں ہیں بلکہ وہ اختلافات مسلک تک محدود رہنا چاہیے۔ ملت کی ترقیاتی منصوبوں میں کبھی وہ حائل نہ ہوں۔ اختلاف ہر سماج میں فطری بات ہے لیکن اختلاف اختلاف کے حد تک رہنا چاہیے۔ اگر ایسا ہو تو کوئی بات نہیں۔ لیکن ہائے افسوس کہ مسلم قائدین کے اختلافات کو بر سر بازار اُچھالا جاتا ہے۔ پھر وہی اختلافات ذاتیات پر حملے کا سبب بن جاتا ہے۔ انہوں مذکورہ باتوں کی وجہ سے اُمت کے ما بین شیرازہ بندی نا ممکن تصور کیا جاتا ہے۔تو جملے مسلمانوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس بار الیکشن میں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری پارٹیوں کو ووٹ دیکر ریاست کو مضبوط کریں۔اگر اس بار نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ کاش کے امت مسلمہ سے اختلافات ختم ہوجائیں ۔کیونکہ :
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اس لئے الیکشن میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹ کو رائیگاں کئے بغیر جمہوری پارٹیوں کو جتانے کی کوشش کریں۔یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم متحد ہو جائیں جیسے کہ شاعر نے کہا ؎
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو چِلاتے کیوں ہو
[email protected]>