بارہمولہ //نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ ریاستی گورنر کی جانب سے جو فیصلے لئے جارہے ہیں وہ مکمل طور پر عوامی مفاد کے منافی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ریاست میں کوئی تھرڈ فرنٹ نہیں بلکہ چند بھاجپا کے اعلیٰ کار آر ایس ایس کے منصوبے کو مکمل کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آر پار ریاست کی سرحدی دیوار گرادی جائے،اور یوں لگے کہ کشمیر ایک ہے۔
این سی اقتدار کی بھوکی نہیں
ایک تقریب کے حاشیے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے گورنر کا نام لئے بغیرکہا’’ہم اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے پی ڈی پی اور کانگریس کو حکومت سازی میں باہری تعاون دینے کے لئے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ سب دفعہ 35اے اور ریاست کی خصوصی پوزیشن کو درپیش دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے کیا جارہا تھا، اقتدار کبھی بھی نیشنل کانفرنس کی منزل نہیں رہی ہے، شاید وہ لوگ بھول گئے ہیں جب مرکز نے یہاں جگ موہن کو گورنر بھیجا تھا ،میں نے اُس وقت کرسی کو لات ماردی تھی،ہمارا مقصد لوگوں کی عزت ، بقاء اور ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع کرنا تھا اور اس کے لئے لڑ رہے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا ’ہم اقتدار کا مزہ لینے کے لئے حکومت نہیں بنا رہے تھے، ہمیں وہ چیزیں بچانی تھیں جو گورنر (ستیہ پال ملک) کررہا ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ میں دفعہ 35 اے کا دفاع کرنا تھا، یہ حکومت زیادہ دیر تک رہنے والی نہیں تھی، اس حکومت کو گرنا تھا اور انتخابات ہونے تھے،کیونکہ بالآخر لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے‘۔ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ پی ڈی پی کا الگ راستہ ہے، کانگریس کا الگ اور ہمارا الگ، لیکن ہم ریاست کے مفادات کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔انہوں نے کہا’’آج آپ جموں وکشمیر بینک کا جو حال دیکھ رہے ہیں ، شاید حکومت کے قیام سے ایسا نہیں ہوا ہوتا،اور ان لوگوں( گورنر انتظامیہ) نے ریاستی مفادات کے خلاف جتنے بھی فیصلے لئے ہیں اُن کو ہم کالعدم قرار دیتے‘‘۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے الگ الگ ارادے ہیں، پی ڈی پی کا الگ مقصد ہے، نیشنل کانفرنس کا الگ راستہ ہے، کانگریس کا الگ راستہ ہے۔ ہم اس لئے ایک جٹ ہوگئے تھے کیونکہ آپ جموں وکشمیر بینک کا حل دیکھ رہے ہیں، یہ نہیں ہوتا اگر ہماری سرکار ہوتی، جو باقی چیزیں انہوں نے کی ہیں، ہم ان کو بدل دیتے۔ آپ نے سپریم کورٹ میں دفعہ 35 اے کا حال دیکھا؟ ہم دفعہ 370 کو بچانے کی کوششیں کررہے ہیں یا نہیں کررہے ہیں؟ یہ صرف اسی مقصد کے لئے تھا‘۔
کشمیر کے دو حصے
فاروق عبداللہ نے کہا کہ یہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور وہ کشمیر (پاکستانی زیر انتظام کشمیر) پاکستان کا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ جموں وکشمیر بھارت کا حصہ ہے اور کل بھی رہے گا،میں آج بھی کہتا ہوں کہ ہم ہندوستان کا حصہ ہے اور کل بھی رہیں گے، مگر پاکستان کے بارے میں ہم نے ہر بار کہا کہ ہم نے دوستی میں رہنا ہے۔ ہم نے دیوار (سرحدوں کو) کو گرانا ہے، اور دیوار کو گراکے ریاست کے دونوں حصوں کے لوگوں کو آزادی سے ملنے اور تجارت کرنے کا حق ہونا چاہیے، ایسا لگنا چاہیے کہ یہ دو حصے الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہیں‘‘۔
ہندوپاک
فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کی جتنی راہیں کھلیں گی نیشنل کانفرنس اُس کا خیر مقدم کرے گی کیونکہ دونوں ملکوں کی دوستی ہماری ریاست کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جس دن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واقعی دوستی ہوجائے گی اُس دن کشمیر کا مسئلہ خود بہ خود حل ہوجائے گا۔
اٹانومی
فاروق عبداللہ نے کہا کہ ریاست کے لئے اندرونی خودمختاری کا حصول نیشنل کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ جب ایک نامہ نگار نے نیشنل کانفرنس صدر سے پوچھا کہ دلی نے تو اٹانومی اور سلیف رول مسودوں کو مسترد کیا ہے تو فاروق عبداللہ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے اوراپنے جواب میں کہنے لگے ’اٹانومی کو یہاں کے لوگ مسترد نہیں کرنے چاہیے،مجھے دلی سے مت ڈرائو، یہ بات یاد رکھئے گا، اٹانومی ہمارا حق ہے، اور ہم اس کو لے کر رہیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’مجھ پر ہر بار کہیں کچھ تو کہیں کچھ کہنے کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ الزامات وہ لوگ لگا رہے ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ فاروق عبداللہ ڈر جائے گا۔
سجاد لون
فاروق عبداللہ نے پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ریاست میں کوئی تھرڈ فرنٹ نہیں ہے، بس چند بھاجپا کے اعلیٰ کار آر ایس ایس کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں، جو لوگ ہم پر اُنگلی اُٹھا رہے ہیں اور خاندانی سیاست کی رٹ لگا کے رکھی ہے وہ کہاں سے آئے ہیں؟ اُن کو بھی تو اپنے والدین سے سیاست اور عہدے وراثت میں ملے ہیں، اگر ہم خاندانی سیاستدان ہیں تو وہ بھی ہم سے مختلف نہیں۔ انہوں نے کہا ’سجاد لون کے بڑے الزامات ہیں، میں اگر الزام لگائوں گا تو وہ جواب نہیں دے سکے گا، وقت آئے گا تو اس پر بھی الزامات لگائوں گا‘۔ ان کا کہنا تھا’ جب مجھے جگ موہن نے برطرف کیا تو اس کے والد (خواجہ عبدالغنی لون) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں پاکستان جارہا ہوں اور بندوق لائوں گا، میں نے ہاتھ جوڑ کر ان سے کہا کہ بندوق مت لایئے،ہماری ماں بہنوں کی عزت نہیں رہے گی،ہمارے جوان مارے جائیں گے، شہر برباد ہوجائیں گے،مگر وہ بندوق لائے اور جب واپس آئے تو مجھ سے معافی مانگی اور کہا ڈاکٹر صاحب ہم نے غلطی کی، سجاد لون اس کا جواب دیں؟ ‘۔