مسعود محبوب خان
زندگی کی ناپائیداری پر لوگوں کا شکوہ ہمیشہ سے رہا ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ اپنے ہی ہاتھوں برف کے مجسمے تراشتے ہیں اور پھر ان کے پگھلنے پر آنسو بہاتے ہیں۔ امیدوں کے سنہرے خواب بُن کر، دوسروں کے وعدوں میں اپنی آس کا رنگ بھر کراور نیکی کے لبادے میں چھپے چہروں کو دیانت کی چمک سمجھ کر وہ خود کو فریب دیتے ہیں اور جب حقیقت کی تپش سے یہ برفیلے مجسمے پگھلنے لگتے ہیں، تو دل شکستگی کا ماتم برپا ہو جاتا ہے۔ مگر غور کریں تو حقیقت کسی اور سمت اشارہ کرتی ہے۔ دھوکہ کوئی کسی کو نہیں دیتا، یہ وہ امیدیں ہیں جو ہم خود دوسروں کے نام لکھ دیتے ہیں، یہ وہ خواب ہیں جن کی تعبیریں ہم نے خود ہی طے کر رکھی ہوتی ہیں۔ مگر جب یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں، جب حقیقت کا آئینہ دھند سے صاف ہوتا ہے، تب جا کر ادراک ہوتا ہے کہ معاشرتی رشتے، کاروباری معاملات اور خاندانی تعلقات سب ایک ایسی ریت پر کھڑے ہیں جو مفاد پرستی کے تیز جھونکوں میں ہر دم بکھرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔
منافقت اور مطلب پرستی وہ دیمک ہیں جو معاشرے کی جڑوں کو اندر ہی اندر چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ہر چہرے پر ایک نقاب ہے، ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک مصلحت چھپی ہے، ہر وعدہ ایک نیا دھوکہ ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں نفاق کی چار علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے: جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، خیانت کرنا اور جھگڑے کے وقت اخلاقیات کو پامال کر دینا۔ اگر ہم اپنا معاشرتی جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ یہ تمام بیماریاں ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہیں۔ آج کاروباری معاملات سے لے کر قریبی رشتوں تک ہر جگہ دھوکہ دہی کا دور دورہ ہے۔ لوگ منافع کی چمک میں اپنے ضمیر کو بیچ رہے ہیں، چند سکّوں کے عوض دیانت کو نیلام کر رہے ہیں اور مفاد کی دوڑ میں رشتوں کو روند رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں مٹھاس ضرور ہے، مگر حقیقت میں وہ زہر سے کم نہیں۔ وہ وعدے کرتے ہیں، مگر نبھانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ جھگڑتے ہیں تو الفاظ کی ایسی تیر اندازی کرتے ہیں کہ شیطان بھی حیران رہ جائے۔
یہی وہ زوال ہے جو معاشرے کو بے حس بنا رہا ہے۔ وہ احساس جو کبھی انسانی رشتوں کی روح تھا، اب فقط ایک قصّہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری سماجی بنیادوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور ہم ہیں کہ غفلت کے نشے میں مدہوش اس تباہی کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ دنیا کی چکاچوند میں انسان نے ترقی تو بے شمار کی، مگر اس سفر میں وہ اپنے ہی وجود سے بیگانہ ہو چکا ہے۔ کاروبار اور خاندانی رشتے جو کبھی دیانت و ایثار کی بنیاد پر استوار ہوتے تھے، آج جھوٹ، فریب، مکاری اور دغابازی کا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان عناصر کی موجودگی اب کسی پرانی رسم کی مانند ہے، جسے ہر شخص بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نبھاتا چلا جا رہا ہے۔ وہ اقدار جو کبھی انسان کے کردار کا وقار ہوا کرتی تھیں، آج محض قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
اب سچائی کی وہی حیثیت رہ گئی ہے جو کسی پرانے سکے کی ہوتی ہے،جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا، کوئی قبول نہیں کرتا۔ جھوٹ نے نہ صرف اپنا چہرہ بدل لیا ہےبلکہ اب اس کی بدصورتی پر کسی کی نظر بھی نہیں ٹھہرتی۔ جب ضمیر کی آواز کو دبانے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو باقی کی منزلیں خود بہ خود آسان ہو جاتی ہیںکہ صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تک۔ اور یوں انسان ایک درجہ ترقی کرتے ہوئے وعدہ خلافی کے سنگِ میل کو بھی عبور کر لیتا ہے۔
کاروباری معاملات میں اعتماد اب ایک متروک شے بن چکا ہے۔ خریدار اور دکاندار کے بیچ وہ بھروسے کا رشتہ جو کبھی حرفِ آخر تھا، آج محض ایک فریب کے جال میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دکاندار جو کچھ کہتا ہے وہ عموماً سامان کی حقیقت کے برعکس ہوتا ہے۔ نرخ کچھ طے کیے جاتے ہیں مگر وقتِ ادائیگی نئے بہانوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ جب خریداری کے وقت کئےگئے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں تو یا تو آنکھوں میں حیرت کا مصنوعی عکس ابھرتا ہے یا پھر حیلے بہانوں کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔یہی صورت حال خانگی معاملات میں بھی در آئی ہے۔ وہ رشتے جو کبھی محبت اور ایثار کے ستونوں پر قائم تھے، آج خودغرضی اور مطلب پرستی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ زبان سے دیے گئے عہد محض الفاظ کی جادوگری بن کر رہ گئے ہیں، جنہیں موقع ملتے ہی مصلحتوں کے طوفان میں بہا دیا جاتا ہے۔ جائیداد کی کشمکش، بہنوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا، بھائیوں کے درمیان زمین کے چند ٹکڑوں کی خاطر دشمنیاں پال لینا،یہ سب معمولاتِ زندگی کا لازمی حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خون کے رشتے بھی اس زہر آلود فضا میں اپنی پاکیزگی برقرار نہ رکھ سکے۔ معاملات بڑھتے بڑھتے گالیوں کی گونج تک جا پہنچتے ہیں اور اختلافات ہاتھا پائی اور خون خرابے میں بدل جاتے ہیں۔ وہ گھر جو کبھی محبت کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے، آج فریب اور نفرت کی پرورش گاہ بن چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں کوئی رشتہ، کوئی تعلق ان زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔
یہ زوال کی وہ کہانی ہے، جسے ہم سب نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ بے حسی کے ساتھ جیتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ تاریکی ہے جس میں روشنی کی کرن ڈھونڈنا ایک خواب بن چکا ہے۔ اور شاید یہی وہ وقت ہے جب ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ اگر یہی روش برقرار رہی، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب ہی ایک دن اس تباہی کے ملبے تلے دفن ہو جائیں۔ معاشرہ ایک ایسے انتشار کا شکار ہو چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی ذات کے حصار میں قید ہے، مگر دوسروں سے توقعات کے ایوان بلند کیے بیٹھا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی دھوکہ نہ کرے، کوئی فریب نہ دے، کوئی جھوٹ نہ بولے مگر خود ان تمام برائیوں میں بے دریغ ملوث ہے۔ اپنے اعمال کی سیاہی کو وہ دوسروں کی روشنی سے دھونا چاہتا ہے، مگر یہ ممکن کہاں!
یہ عجب دوغلا پن ہے کہ انسان خود کو ہر بدعملی کی کھلی چھوٹ دیتا ہے، مگر دوسروں سے دیانت و اخلاص کی امید رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ نیک نیتی سے پیش آئیں مگر خود نفع و نقصان کے ترازو میں ہر تعلق کو تولتا ہے۔ جہاں غرض ہو، وہاں سب رشتے معتبر ہو جاتے ہیں، مگر جہاں مطلب ختم ہوا وہاں سگے رشتے بھی بے قیمت ٹھہرتے ہیں۔ صورتِ حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کے رویے وہی ہیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’’جہاں مفاد ہو، وہاں گدھے کو بھی جدِ امجد بنانے میں عار محسوس نہیں ہوتی اور جہاں مطلب ختم ہو جائے، وہاں حقیقی باپ کی بھی ایسی درگت بنتی ہے کہ الامان الحفیظ۔‘‘
یہی بے حسی اور مفاد پرستی کا زہر اب صرف عام آدمی تک محدود نہیں بلکہ حکومت و اقتدار کے ایوانوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ وہی لوگ جو قانون و انصاف کے رکھوالے کہلاتے ہیں، اب خود بدعنوانی اور دھوکہ دہی کے عادی ہو چکے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں بغیر رشوت کے کام نکلوانا گویا ایک دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ وہاں فائلیں نہیں، نوٹ چلتے ہیں، قابلیت نہیں، تعلقات کام آتے ہیں، سچائی نہیں چالاکی کو عزّت دی جاتی ہے۔یہ بگاڑ اب انفرادی سطح سے نکل کر اجتماعی سطح پر ایک ناسور بن چکا ہے۔ گویا یہ معاشرہ ایک ایسے تالاب میں تبدیل ہو چکا ہے جس کا پانی گدلا ہو چکا ہے،جہاں ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ خود تو ہاتھ دھو لے، مگر کسی اور کے حصّے میں صاف پانی نہ آئے۔ یہی وہ المیہ ہے جو سماج کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے اور اگر یہی روش برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں جب نہ رشتے باقی بچیں گے، نہ اعتبار اور نہ ہی وہ معاشرتی قدریں جو کسی بھی تہذیب کا حسن ہوا کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے کے گرتے ہوئے اخلاقی معیار، بگڑتی ہوئی قدروں اور تباہ ہوتی ہوئی مجموعی اخلاقی صورتحال پر غور کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک زوال پذیر تمدن کے نوحہ خواں ہیں۔ وہ عناصر جو کسی بھی معاشرے کی بنیادوں کو مستحکم رکھتے ہیں، آج زہرِ قاتل کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اور خود غرضی کی یہ ملی بھگت ہماری اجتماعی بربادی کی داستان لکھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ بے حسی کی چادر اوڑھے اس تماشے کے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
معاشرتی بگاڑ کا آغاز ہمیشہ ایک فرد کی خود غرضی سے ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص صرف اپنی ذات کے دائرے میں محدود ہو کر سوچتا ہے تو وہ دوسروں کے حقوق اور مفادات کو روندنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ یہی خود غرضی دھیرے دھیرے محرومی اور مایوسی کو جنم دیتی ہے اور جب محرومی اپنی انتہاء کو پہنچتی ہے تو وہ انتقام کی چنگاری کو بھڑکا دیتی ہے۔ یہ چنگاری پھر بجھنے کے بجائے بھڑکتی ہی چلی جاتی ہے۔ پہلے ایک فرد نفاق اور مطلب پرستی کا شکار ہوتا ہے، پھر اس کا سامنا ہونے والے دوسرے افراد بھی اسی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ ایک کی جگہ دو، دو کی جگہ چار اور چار کی جگہ آٹھ افراد اسی روش کو اپنا لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا ہے، یہاں تک کہ ایک پوری نسل، ایک پورا سماج اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ رفتہ رفتہ اخلاقی تباہی کی کھائی میں جا گرتا ہے، جہاں دیانت ایک ناپید شے بن جاتی ہے اور خود غرضی کی دلدل ہر سمت پھیل جاتی ہے۔
یہ زوال کسی ایک طبقے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ سیاست سے لے کر معیشت تک، خاندان سے لے کر دوستوں کے حلقے تک، ہر جگہ وہی بدعنوانی، وہی مطلب پرستی، وہی نفاق اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ سماجی اور معاشرتی تفریق کے سبھی حجاب گرنے لگتے ہیں اور پورا معاشرہ اس بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، جہاں نہ کوئی اصول باقی رہتے ہیں اور نہ ہی کسی قدر کی کوئی اہمیت رہتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تمدن اپنی آخری سانسیں گننے لگتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی اس زوال کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم سب اپنی اپنی خود غرضی کے خول میں قید ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی دوسرا سدھار لے آئے، مگر یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہر شخص دوسروں کی طرف دیکھتا رہا تو بربادی کے اس سفر میں منزل کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
انسان جب اپنی فطرت سے بغاوت پر اتر آئے، جب اس کی سوچ کا محور صرف ذاتی انتقام اور خود غرضی بن جائے تو وہ ایک ایسی اندھی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے جہاں ہر شخص دوسرے کے لیے ایک شکار اور ہر موقع ایک وار بن جاتا ہے۔ لوگ ہر وقت بدلہ لینے کی تدبیریں سوچتے ہیں اور جب جہاں جیسا موقع ملتا ہے، وار کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک زخم کا جواب دوسرے زخم سے دیا جاتا ہے اور یوں حادثات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ نہ صرف افراد کی زندگیوں کو برباد کر دیتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو ایک ایسی بے سکونی اور عدم تحفّظ کی بھٹی میں جھونک دیتا ہے، جہاں نہ اعتماد باقی رہتا ہے، نہ بھائی چارہ، اور نہ ہی سکون کی کوئی امید۔
معاشرے میں آج خود غرضی اور منافقت کا سکہ رواں ہے۔ لوگ دھوکہ دہی کو ذہانت اور جھوٹ کو ایک فن سمجھنے لگے ہیں۔ چالاکی کو حکمت اور فریب کو مہارت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مگر یہ سب محض دھوکہ اور فریبِ نفس کے سوا کچھ نہیں۔ لوگ چاہے جتنی بھی تاویلیں تراش لیں، چاہے جتنا بھی نظریاتی رد و بدل کر لیں، برائی کو اچھائی کا لبادہ اوڑھا کر اسے اچھا ثابت کرنے کی کوشش کر لیں، مگر حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دنیا کی کوئی لغت، کوئی کتاب، کوئی فلسفہ، خود غرضی، جھوٹ اور منافقت کو اچھائی کے زمرے میں نہیں لا سکتا۔ برائی ہمیشہ برائی رہے گی، چاہے لوگ اسے کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور کسی بھی پیرائے میں بیان کریں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا اور یہی وہ حقیقت ہے جسے ہمیں نہ صرف اپنے اندر بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں میں بھی اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ بوجھ ہمیں خود اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوگا، یہ پیغام ہمیں خود اپنی زبان سے دینا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھیں جو سچائی، دیانت داری اور اخلاص پر قائم ہو۔ یہ محض خواب نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ایک ایسا فرض جس کی ادائیگی کے بغیر نہ ہم خود چین پا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ نسلیں جو ہمارے بعد اس دنیا میں آئیں گی۔ ہمیں آج وہ بیج بونا ہوگا جس کا پھل کل ہماری نسلیں کھا سکیں، ہمیں آج وہ چراغ جلانا ہوگا جو کل کے اندھیروں کو مٹا سکے۔ کیونکہ اگر ہم نے آج اس ذمے داری سے منہ موڑ لیا تو کل کی تاریکی کا حساب بھی ہم ہی سے لیا جائے گا۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]