گزشتہ دنوںایک شناسانے بتایاکہ اُن کے دامادنے جانے اور آنے کے ریلوے ٹکٹ منسوخ کروا دئے جو وہ کیرل سے اُتر پردیش اپنی فیملی کے ساتھ سفر کرنے والے تھے ،صرف اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں،ان کے چہرے پر داڑھی ہے اوران کے گھر کی خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہے۔اگرچہ وہ اپنے داماد کے فیصلے سے متفق نہیں تھے لیکن ایسے معاملات میں کوئی رائے دینا مناسب بھی نہیں سمجھا۔۱۰؍ ممبران پر مشتمل یو پی کے مین پوری کے پاس پسنجر ٹرین میں سفر کرنے والے ایک مسلم خاندان کے ساتھ جمعہ کو جو حادثہ پیش آیا،وہ رونگٹے کھڑا کر دینے والا ہے ۔اس خاندان کے ایک ایک شخص کو اُس وقت تک پیٹا جاتا رہا جب تک کے تمام بے ہوش نہیں ہو گئے، یہاں تک کہ اُن میں ۱۰؍ برس کا ایک معذور لڑکا بھی تھا۔میر خیال ہے یہ واقعہ سننے کے بعد میرے دوست کو اپنے داماد کے فیصلے سے اتفاق کرلینے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔یہ ایک نیا ہندوستان بن رہا ہے کیونکہ اِس حادثے سے ایک روز قبل ہی حسارہریانہ میں مسجد کے پاس ایک مشرع نمازی کو بُری طرح زود و کوب کیا گیا،وجہ صرف یہ تھی کہ امرناتھ یاتریوں کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے بجرنگ دل کے کارکنان اُس مسجد کے قریب سے نعرے لگاتے ہوئے گزر رہے تھے کہ مسجد کے اندر جا رہے اُس نمازی کو روک کر ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کہنے کے لئے مجبور کیا ۔انہوں نے اُن شر پسندوں کی بات تسلیم نہیں کی تو ان کے ساتھ بد تمیزی کر کے انہیں مارا پیٹا۔مہاراشٹر بھی اِن ہجومی تشدد کے عتاب سے محفوظ نہیں رہا۔یہاں ناگپور میں بھی بیف لے جانے کے شبہ میں ایک مسلمان کو اس طرح مارا پیٹا گیا کہ بس اس کی جان نہیں نکلی۔موقع ٔ واردات پر پولیس آگئی، ورنہ وہ شاید جان لے کر ہی چھوڑتے۔بعد میں پتہ چلا کہ پِٹنے والا بی جے پی کارکن ہے۔ملک کی سب سے بڑی پارٹی بننے کے لئے بی جے پی نے خاطر خواہ مسلمانوں کو رُکنیت دے رکھی ہے۔ممکن ہے کہ اُنہی میں سے یہ صاحب بھی ایک ہوں۔اسپتال سے چھٹی ملنے کے بعد بھی یہ بی جے پی کے رکن بنے رہیں گے ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔بہرکیف گئو رکشکوں اوربھگوا ہجوم پر وزیر اعظم کے نیم دلانہ بیان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ خود بھی تذبذب کا شکار ہیں اور یہ تذبذب ہندوستان کی داخلی پالیسی سے لے کر خارجہ پالیسی تک میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے کہ لگتا ہے بھاجپا حکومت پالیسی کے فقدان (Policy Deficit)میں مبتلاہے۔اندرون ملک وزیر اعظم کوئی فرمان جاری نہیں کرتے بلکہ صرف خالی بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی اُن کے وزرا ء بھی یہی کرتے ہیں ۔
راج ناتھ سنگھ کے نائب وزیرکشمیر میں ہونے والے امرناتھ یاترا پر دہشت گردانہ حملے کے بعد جو بیان دیتے ہیں اُس کا متن یہ ہوتا ہے کہ’’ کشمیر دہشت گردی کے آخری مرحلے سے گزر رہا ہے‘‘۔ خدا کرے کہ ان کا یہ بیان حقیقت میں بدل جائے۔یہاں پر صرف خواہش ہی کی جاسکتی ہے کیوں کہ اکثر حقیقی صورت حال کچھ اور ہوتی ہے اور مودی دربارکے وزراء بیان کچھ اور دیتے ہیں ۔انہیں ذرا بھی زمینی صورت حال کا اندازہ نہیں۔امرناتھ یاتریوں کے بس پر جان لیوا حملہ ہوا جس میں ۷؍افراد جاں بحق ہوئے۔اس حملے کی مذمت میں پورا ہندوستان متحد نظر آیا اور ’ناٹ اِن مائی نیم‘ کے طرز پر ملک کے مختلف حصوں میں حملہ آوروں کے خلاف شدید احتجاج بھی درج ہوا۔اس لئے کہ خون آشام کارروائی کسی بھی طرح کی ہواور کسی کے بھی خلاف ہو،اسے ہرگز ہر گز جائز ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔اسی لئے کشمیر میںسول سوسائٹی کے علاوہ حریت کانفرنس سے لے کر جماعت اسلامی تک نے اس حملے کی زوردار مذمت کی اور افسوس ناک حملے کی جانچ انٹرنیشنل ایجنسی سے کروانے کا مطالبہ بھی کیا۔ان احتجاجوں سے مرکزی وزیر داخلہ بہت خوش نظر آئے اور انہیں اُمید کی ایک کرن دکھائی دی لیکن کیا ان کے اس مطالبے کو وہ قبول کریں گے کہ اس حادثے کی جانچ کوئی بین الاقوامی ایجنسی کرے؟
پتہ نہیں کہ کشمیر کے مقدر میں ہی خونین حادثات و حالات کیوںلکھ دئے گئے ہیں۔۸؍ جولائی کو کشمیر میں برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ایک سال پورے ہونے کے پیش نظر حفاظتی چوکسی زوروں پر تھی۔ وہ دن گزر گیالیکن ۱۰؍جولائی کو امرناتھ یاتریوں پر حملہ ہو گیا اور کشمیر پھر سے مسئلوں میں گھر گیا۔وہاں کے لوگ چین کی سانس بھی نہیں لینے پاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی حادثہ ہر روزونما ہو ہی جاتا ہے۔کشمیری خود بھی پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟کشمیری خود امن وچین کی زندگی جینا چاہتے ہیں لیکن ان کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر میں کئی خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے مفاد کے لئے کام کرتی ہیں۔وہاں روس کی بھی ایجنسی ہو سکتی ہے، امریکہ کی بھی ہو سکتی ہے ،اسرائیل کی بھی ہو سکتی ہے ،چین کی بھی ہو سکتی ہے پاکستان، ہندوستان اور حریت کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسی کے بھی کچھ مفاد ہو سکتے ہیں۔ان ’’ خیر خواہوں‘‘کی نشاندہی بہت ہی مشکل ہے۔سب کے اپنے الگ الگ ایجنڈے ہیںلیکن پِس رہے ہیں تو صرف بیچارے کشمیری۔
بہرحال اس دفعہ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی پر یہ الزام عائد کیا کہ مودی جی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر میں ’’دہشت گردی‘‘ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ’’ دہشت گردوں ‘‘کے لئے مودی جی نے زمین فراہم کی ہے۔بادی النظر میں تو بات صحیح لگتی ہے لیکن بی جے پی نے راہل کو اس حق بیانی پر یوں گھیرلیا کہ مت پوچھئے! کہا کہ جواہر لعل نہرو کی وجہ سے کشمیر میں تمام مسئلے پیدا ہوئے ہیں اور کانگریس کی وجہ ہی سے یہ سب گڑبڑیاں ہیں۔دراصل راہل گاندھی نے بی جے پی کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔اُنہیں پتہ ہونا چاہئے کہ نہرو کی وجہ ہی سے کشمیر ہندوستان کے ساتھ ہے ۔کیا انہیں پتہ نہیں کہ شیخ عبداللہ کو نہرو نے برسوں جیل میں قید رکھااور اس کے بعد کیا ہوا اب وہ تاریخ کا حصہ ہے۔نہرو کے بعد اندرا گاندھی کی سیاسی بصیرت نے سکم کو ہندوستان کا حصہ بننے کے لئے تیار کیا اورچین دیکھتا رہ گیا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے،ابھی ۱۹۷۴ء کی بات ہے۔اسی طرح بنگلہ دیش کا قیام بھی اندرا گاندھی کی وجہ سے ہوا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔غور کریں ،آج اگر سکم ہندوستان کے پاس نہیں ہوتا اور بنگلہ دیش بھی پاکستان ہوتا تو شمالی مشرقی ریاستوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟
امرناتھ یاتریوں پر۱۷؍ برسوں بعد یہ حملہ ہوا ہے۔اُس وقت بھی مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی۔اُس وقت واجپئی ملک کے وزیر اعظم تھے۔اس حملے میں ۳۵؍ یاتری ہلاک ہوئے تھے۔اس کے علاوہ ۳؍دنوں کے آپریشن میںشہری اورپولیس اہلکار بھی ۷۵-۸۰؍ کے قریب ہلاک ہوئے تھے۔اس واقعے کے بعدواجپئی جی خود پہلگام(کشمیر) گئے تھے جہاں پر یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اُس وقت وہ ۲۰؍ سے بھی زیادہ پارٹیوںکے اتحاد سے حکومت چلا رہے تھے،اس لحاظ سے دیکھیں توایک اتحادی حکومت کی سربراہ کی حیثیت سے واجپئی جی بے بس تھے،اس لئے کوئی اہم فیصلہ کرنے پر قادر نہیں تھے۔ان کے زمانے میں کرگل معرکہ بھی ہوا تھا جس میں سینکڑوں فوجی جان بحق ہوئے تھے لیکن آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔مودی جی پوری اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہیں ،اس لئے ان کے لئے فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔پھر بھی پتہ نہیں وہ کس مصلحت کے تحت خاموش ہیں ۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ’مون موہن سنگھ ‘ کہنے والے اور بات بات پر ان کا مذاق اُڑانے والے کو آج کیا ہو گیا ہے؟حکومت کی لالچ۔۔۔کشمیر میں حکومت کی لالچ۔۔۔یا کچھ اور۔۔۔۔!
۱۳؍جولائی کو کشمیر میں یومِ شہدا ء منایا جاتا ہے اور یہ سرکاری سطح پر ہوتا ہے۔اِس برس بھی بی جے پی کا کوئی وزیر یا ایم ایل اے اس پروگرام میں شریک نہیں ہوا۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اپنے طور پر اپنے اتحادیوں کاراستہ دیکھتی رہیں ،لیکن اُنہیں نہیں آنا تھا،سو وہ نہیں آئے۔یہاں بھی تذبذب۔بی جے پی حکومت میں شامل ہے مگر وہ حکومت کے جلسوں میں شریک نہیں ہوتی۔وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتی جس سے اس کے سخت گیر حامی ناراض ہوں ۔ایسے میں کیا یہ الزام غلط قرار دیا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت کے تمام فیصلوں میں ملک کے بجائے پارٹی کے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے ۔فاروق عبداللہ نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے کہ کشمیری عوام کو لوٹنے کے لئے بی جے پی حکومت میں شامل ہوئی ہے۔اُن کے نزدیک یہ لوٹ کیا ہے ؟اس کی تفصیلات اُنہوں نے نہیں بتائی ہیں،البتہ سمجھنے والے اپنے اپنے طور پر سمجھ چکے ہیں ۔ ایسی ہی صورت حال مہاراشٹر میں بھی ہے ۔حکومت کے لئے اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے میں بی جے پی ید طولیٰ رکھتی ہے اور یہ بات اب عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ بی جے پی اپنے لئے یعنی پارٹی کے لئے سب کچھ کر رہی ہے ، ملکِ ہندوستان کے لئے نہیں ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883