مناظر عاشق ہرگانوی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے ایک مضمون میں انہیں حیران کن ادبی شخصیت قرار دیا،وہ اس لیے کہ اردو شعر وادب کی تقریباً تمام اصناف میں ان کی حصے داری رہی ہے۔مزید برآں وہ 230کتابوں کے مصنف ہیں۔اردو دنیا کے اہم اور معیاری رسائل وجرائد میں ان کی تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی نگارشات اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ ان کے ذہن ودل میں اردو کی محبت اور خدمت کاجذبہ اس قدر موجزن ہے کہ جو انھیں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ لکھنے اور پڑھنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں یعنی2018 ء میں ان کا 236صفحات پہ مشتمل ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی جیسے اردو کے ایک بڑے ادارے نے نہایت دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے۔
ناول، اپنے پھیلاو اور کینوس کے لحاظ سے ایک جھیل کی مانند ہوتا ہے ۔جبکہ افسانے کی حیثیت ایک تالاب کی ہوتی ہے۔1947ء سے قبل اور بیسویں صدی کی نویں دہائی تک ہمارے اردو ادب میں ایسے معیاری اور شہکار ناول لکھے گئے ہیں جن کو فنی اور موضوعاتی اعتبار سے اہم ناول قرار دیا گیا ہے۔ایک اچھا یا شہکار ناول ہم اسے کہتے ہیں جو فنی تقاضوں کو پورا کرتا ہو اور موضوع کے لحاظ سے اچھوتا ہو۔کسی ناول میں موضوع اسکی فنی در وبست کے ساتھ ایک زیریں لہر کی طرح موجود رہتا ہے ۔سماج ومعاشرے میں وقوع پذیر حالات وواقعات اور گونا گوں مسائل ومعاملات کو ناول نگار عمدہ فنی تکنیک کے ساتھ اس طرح قاری کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ اسے ادبی چاشنی اور بصیرت حاصل ہو۔یہ نہ آسان کام ہے اور نہ ہر کسی کے بس کی بات۔بیانیہ کا تسلسل اور تجسّس قاری کو ذہنی اور جذباتی ڈوری میں باندھے رکھتا ہے۔پوری ایک زندگی کا بیانیہ احاطہ جہاں اپنے اندر نہ صرف حالات وواقعات اور مسائل ومعاملات کو سمیٹے آگے بڑھتا ہے بلکہ اس میں ناول نگار کے جذبات واحساسات،تجربات ومشاہدات اور افکار ونظریات کے علاوہ اس کی شخصیت اور تخلیقی ہنر مندی بھی منکشف ہوتی ہے۔مناظر عاشق ہرگانوی کا ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘کا موضوع عیاش مرد کے ہاتھوں عورت کا استحصال ہے۔اس ناول میں ناول نگاری کی فنی روایت کے بدلے ایک نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے جسے یکطرفہ خطوط نگاری کی تکنیک کہا جاسکتا ہے۔کاشف نام کا مرد اس ناول میں شروع سے آخر تک اپنے پورے سفلی جذبات اور پُر فریب خطوط کے ساتھ نظر آتا ہے جوپہلے سے ہی شادی شدہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ فرحت نام کی ایک معصوم لڑکی سے نکاح کرتا ہے اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد وہ سعودی کسی کمپنی کی ملازمت پہ چلا جاتا ہے۔فرحت اسکول ٹیچر ہوتی ہے ۔ جب کاشف ،فرحت کے جسمانی لمس کے بعد سعودی چلا جاتا ہے تو وہاں سے وہ اسے خطوط لکھتا رہتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچّے بھی ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنی نئی نویلی بیوی فرحت کے نام اپنے خطوط میں اسے میری جان،میری مہ جبیں،جان من،میری روح،میری آرزو،میری تمنا،جان جگر،جان تمنا،میری ہمنشیںاور میری ہمسفر جیسے آداب والقاب لکھ کر اپنی جھوٹی محبت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ہزاروں میل دُور رہ کر کاشف،اپنی نو بیاہتا بیوی فرحت کو خطوط کے ذریعے جھوٹے وعدے،جھوٹے دلاسے اور مختلف طرح کی نصیحتیں کرتا رہتا ہے۔پہلی بیوی اسے اصرار کرتی رہتی ہے کہ وہ فرحت کو طلاق دے لیکن وہ برابر اپنے خطوط کے ذریعے فرحت کا دل بہلاتا رہتا ہے۔فرحت چاہتی ہے کہ کاشف اسے سعودی سے منی آرڈر بھیجے،اس کے پاس آئے ،اس کے نان و نفقہ کا پورا خیال رکھے مگر کاشف سوائے خطوط نگاری کے نہ تو روپے بھیجتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس آتا ہے۔فرحت بھی کاشف کے خطوط کا جواب دیتی رہتی ہے جن کا کوئی بھی نمونہ ناول میں نظر نہیں آتا۔البتہ کاشف نے کہیں کہیں ان کا ذکر کیا ہے۔جوان دلوں کے درمیان فاصلے ،دوریاں اور مچلتے ارمانوں کا اچھال مگر ایک طرف سچّی نسوانی محبت اور دوسری طرف مرد عیاری دھیرے دھیرے دلوں میں کدورت اور تلخیوں کا آجانا ناول کے اختتامی حصے میں مایوس کُن تاثر پیدا کردیتا ہے۔بالآخر فرحت ،کاشف کے فریب محبت کو ایک طویل مدت گزر جانے کے بعد سمجھتی ہے اور دکھی ہو کر ایک وکیل سے اس پہ الزامات کانوٹس ارسال کرواتی ہے اور طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔
ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘میں ناول نگار نے کئی سماجی،اذدواجی،تہذیبی اور اخلاقی وروحانی مسائل ومعاملات بیان کیے ہیں۔ان مسائل میں پہلا مسلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی نوجوان نسل والدین کے مشوروں اور خاندانی پاس ولحاظ کے بغیر اپنی غیر سنجیدگی اور ناپختہ ذہنیت کا یہ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ خود لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کا انتخاب کرتے ہیں۔جسے عام طور پر پیار شادی(Love Marriage)کہتے ہیں۔تجربے اور مشاہدے سے یہ ثابت ہے کہ اسّی فیصدی ایسی شادیاں طلاق پر دم توڑدیتی ہیں۔دوسرا اہم ا ور تشویشناک مسلہ زیر نظر ناول میں یہ چھیڑا گیا ہے کہ مسلم معاشرے میں بغیر کسی جوازیت کے دوسری بیوی رکھنے کا رواج عام ہورہا ہے ۔ اگر کوئی مرد ملازمت یا کسی کاروبار کے سلسلے میں گھر سے دور ہے تو وہ وہاں کسی لڑکی کو بہلا پھسلا کر اس سے شادی کرلیتا ہے اور تب تک اسے اپنے شادی شدہ ہونے کی خبر نہیں دیتا جب تک نکاح کی رسم ادا نہیں کی جاتی!مذکورہ ناول میں کئی مقامات پہ عالمی منظر نامے میں اخلاقی وروحانی قدروں کے فقدان اور اس کے نتیجے میں فحاشی وعریانیت کا بڑھتا رجحان ایک سنجیدہ قاری کو جھنجھلاہٹ اور ذہنی انتشار میں مبتلا کردیتا ہے۔غرضیکہ ناول کے مرکزی کردار کاشف کے تمام خطوط بتدریج ارتقا کے حامل ہیں جن میں جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ بدن کی جمالیات کی کئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ناول نگار نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ زندگی کے مثبت اور تعمیری پہلووں کی اہمیت وعظمت برقرار رہے ۔مثلاً کاشف کے ایک خط سے ماخوذ یہ اقتباس ملاحظ کیجیے:
’’تم نے خط میں لکھا ہے کہ تمہارے تمام احساسات جو مجھ سے منسلک ہیںان میں جنسی طلب کم ہوتی ہے اور رومانی زیادہ۔فحاشیت کا عنصر نہیں ہوتا !لیکن میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں فرحت! انسان کی فطرت میں محبت ،رومانیت،جنسی طلب اور فحاشیت سب اللہ نے ودیعت کی ہے اور اسے انسانیت کی پیمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ساتھ ہی کچھ قوانین بھی بنادیے ہیں تاکہ سہولت حاصل ہونے کے باوجود اگر انسان ان قوانین پر چلتے ہوئے اپنے ان سب جذبات کی تکمیل کرتا ہے تو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اور خلاف قانون قدرت کرنے پر گناہ گار ہوجاتا ہے۔کسی بھی انسان کے کریکٹر کی پیمائش انہی چیزوں سے ہوسکتی ہے ۔اگر صرف محبت اور رومانیت تک محدود ہے تو عاشق یا معشوق مجنون کہلاتا ہے۔ اگر صرف جنسی طلب ہی مقصود ہے تو اسے عیاش کا لقب ملتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فحاشیت ہو تو آوارہ کہلاتا ہے ۔یہی چیزیںہیں جو ایک انسان کو دوسرے پر فوقیت دیتی ہیں۔اسلام میں شادی کو اسی لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ گناہ سے بچے اور اچھے معاشرے کی نشو ونما ہو۔شادی صرف عیاشی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کی ایک اور غرض ہے اوروہ ہے بہتر نسل کا Production سبھی مذہب میں شادی مستقل عبادت کا نام ہے‘‘1
مندرجہ بالا اقتباس کا ہر جملہ سبق آموذ ہے۔رومانیت،محبت، جنسیت، عاشق،عیاش اور اشرف المخلوقات جیسے الفاظ آدمی کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کا افتراق واضح کرتے ہیں۔جنسی طلب اگر چہ ایک فطری تقاضا ہے لیکن اس کی تکمیل خالق کائنات نے اصول وضوابط کے تحت رکھی ہے ۔ فطری قوانین کی خلاف ورزی آدمی کی تباہی وبربادی اور ذلالت ورسوائی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ انسان بن کے رہے۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ جھوٹ وفر یب کے پاوں نہیں ہوتے۔کاشف کی باتوں اور طرز فکر سے اس کی عیارانہ ذہنیت کا پتا چلتا ہے۔اس کے قول وفعل اور رفتار وگفتار میں مطابقت نہیں ہے۔وہ فرحت کی معصومیت اور اس کی شریفانہ طبعیت سے اچھی طرح واقف ہے۔اپنی لچھے دار باتوں اور اپنائیت کی رٹ میں وہ اسے خوش رکھنے کے مختلف طریقے اپناتا ہے لیکن آخر کار وہ ایک کسک اور کُڑھن میں اپنے شب وروز گزارتی ہے ۔کاشف اسے اپنے ایک خط میں جہاں کئی نصیحتیں کرتا ہے تو وہیں وہ اسے فکر وفلسفے اور انسان کے اختیاری وغیر اختیاری باتیں بھی سمجھاتا ہے بلکہ ایک جگہ تو وہ اسے قسمت کا معنی ومفہوم بھی ان الفاظ میں سمجھانے لگتا ہے:
’’کس کی قسمت میں کیا ہے ؟یہ کوئی نہیں جانتا مگر انسان چاہے تو اپنے کردار،نیک نیتی اور عبادت سے اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔ہاں میری جان!میں سچ کہہ رہاہوں قسمت بدلی جاسکتی ہے۔مجھے نہیں معلوم میری قسمت میں تم تھی کہ نہیں ۔حالات یہی بتاتے آرہے ہیں کہ قسمت میں ایک دوسرے کی رفاقت نہیں ہے مگر نیک نیتی ،عزم وارادہ اور عبادت نے آخر کار ہم دونوں کی قسمت میں ایک دوسرے کا نام لکھ ہی دیا اور تمہیں ہمیشہ کے لیے میرا بنادیا۔یہ سچ ہے کہ کردار کی پاکیزگی اور خشوع وخضوع کے ساتھ بندگی قسمت بدل دیتی ہے‘‘2
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قسمت یا مقّدر کا مسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ یہ ابتدائے آفرینش سے انسان کے تجسّس وتفکر کا حصہ رہا ہے۔لہذا یہاں اس پیچیدہ مسلے کی وضاحت ان الفاظ میں ضروری ہے کہ دراصل بُری نیت کے ساتھ مقّدر کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے ۔بُری نیت کے تحت جو بھی کام کیا جاتا ہے یا کیا جائے گا اس کے نتائج اور اثرات ذاتی اور اجتماعی سطح پہ ظلم وزیادتی،حق تلفی اور مایوس کُن صورت میں رونما ہونگے۔مقّدر کا براہ راست تعلق اچھی نیت سے ہے ۔اچھی نیت کے مطابق اگر کوئی شخص کام کرتا ہے اور اس کے بعد بھی اس میں ناکام ہوجاتا ہے تو وہ مقّدر ہے۔اس لیے یہاں ہرشخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہروقت اور ہر حال میں اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرے کیونکہ نیت کی خرابی پورے معاشرے کی تباہی کا باعث بنتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے پورے نظام عالم کو بڑے منظم اور نہایت حکمت عملی سے وجود میں لایا ہے اور اپنے قانون وضابطے کے تحت انسان کو زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے لیکن جب انسان رب چاہی زندگی کے بدلے من چاہی زندگی بسر کرنے لگتا ہے یا ان تمام فطری قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی اپنی زندگی سے امن وسکون تو رخصت ہوتا ہی ہے دوسرے لوگوں پر بھی اس کی خلاف ورزی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ناول’’شبنمی لمس کے بعد‘‘میں ناول نگار نے کاشف کے پُر فریب جذبات و احساسات کا ایک ایسا جہاں سجایا ہے کہ لگتا ہے وہ انتہائی مومنانہ اوصاف کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں دیدہ بھی ہے ۔اس کی نصیحت آمیز باتیں اس کے عاشقانہ اور والہانہ جذبات ولفظیات میں جو لطافت اور کشش نظر آتی ہے اس سے کلیتاً یہ امکان پیدا نہیں ہوتا کہ وہ آنے والے وقت میں فرحت کو طلاق لینے پر مجبور کرے گا۔مثلاً کاشف کی چاہت کا یہ عالم دیکھیے:
’’کبھی دل چاہتا ہے کہ چاندنی راتوں میں ساتھ تنہا بیٹھا تمہیں تکتا رہوں اور آسمان کے چاند کو اپنے چاند کی خوب صورتی سے شرماتا رہوا دیکھتا رہوں۔کبھی کھبی یہ بھی دل چاہتا ہے کہ تمہیں لے کر کسی پہاڑی جگہ پر چلا جاوں جہاں فطرت کی خوب صورتی نیلے آسمان ،سفید سفید بادلوں کے ہلکے ہلکے اُڑتے ہوئے ٹکڑے اور صاف شفاف فضاوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے قدرت کی خوب صورتی سے محظوظ ہوتے رہیںاور کبھی کبھی صحیح معنوں میں شرارت کرنے کابھی دل چاہتا ہے کہ تمہیں ایسی ایسی باتیں کہوں ،غصہ کروں کہ تمہاری آنکھیںڈبڈبا جائیں اور تم روٹھ جاو۔پھر میں پیار سے ،محبت سے منانا شروع کروں اور اتنا پیار کروں اتنا پیار کروں کہ تم میرے پیار سے گھبرا کر مان جاو اور چہرے پر مسکراہٹ چھاجائے‘‘3
کاشف کی بظاہر والہانہ محبت کی یہ منظر نگاری ناول نگار نے جن خوب صورت الفاظ وتراکیب کے ساتھ کی ہے وہ قابل داد وتحسین کا درجہ رکھتی ہے ۔عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جوش جوانی میں اسکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹیوں میں لڑکے ،لڑکیاں عشقیہ جذبات سے مغلوب ہو کر تمام خاندانی اور اخلاقی حدود کو پھلانگتے ہوئے شادی کرلیتے ہیں ۔اس کے بعد جب ان کے پیار ومحبت کا موسم خزاں رسیدہ صورت اختیار کرتا ہے تو آہستہ آہستہ ان میں نوک جھونک ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہی عاشق ومعشوق جو شادی سے پہلے ایک دوسرے کے بغیر لقمہ نہیںکھاتے تھے اب ایک دوسرے کی جان لینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے تازہ ناول’’شبنمی لمس کے بعد‘‘میں صنف نازک کے کئی جمالیاتی اور نفسیاتی پہلووں کو بھی زیر بحث لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ایک جگہ وہ ماہر نفسیات کی طرح کاشف کی زبانی شرمیلی ،حیادار اور پردے میں نہ رہنے والی عورتوں اور لڑکیوں کا ذکر کچھ اس طرح کرواتے ہیں :
’’جو عورتیں یا لڑکیاں اپنی بانہوں اور گردن کو دانستہ طور پر کھلی رکھتی ہیں ان کی سائیکالوجی ہی دوسری ہوتی ہے اور وہ عام طور پر فلرٹ نیچر کی ہوتی ہیں اور جو ڈھکا چھپا رکھتی ہیںوہ نہ صرف یہ کہ بڑے مضبوط کردار کی مالک ہوتی ہیںبلکہ شرمیلی ،حیادار باعصمت ہوتی ہیں جن کو ورغلایا نہیں جاسکتا اور ان کی قوت ارادی بھی مضبوط ہوتی ہے جس پر تم ہر طرح پوری اترتی ہو کیونکہ تم ملبس اس طرح ہوتی ہو کہ بال مکمل چھپ جاتا ہے ،گردن کے نیچے کا کوئی حصہ کبھی کھلا نہیں رہتا ۔یہاں تک کہ گردن بھی بہت حد تک ڈھکی رہتی ہے جو تمہاری پاکبازی کی گواہی دیتی ہے‘‘4
یہ بات باعث سکون ومسرت ہے کہ مذکورہ ناول کا تخلیق کار مشرقی مزاج وروایات اور بالخصوص اسلامی تہذیب وکلچر کا دلدادہ ہے ۔موجودہ دور میں صارفی کلچر اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے فحا شی اور عر یانیت کا سیلاب امڈ پڑا ہے ۔عورت کی نفسیات اور اس کے کردار پر اس کلچر نے شب خون مارا ہے۔آج کی عورت سے وہ تمام نسائی جمالیات چھن چکی ہے جو اسے اسلام نے و دیعت کی تھی۔ناول نگار کو اس کا قلق وافسوس بہت زیادہ ہے جس کا برملا اظہار کاشف کے خط میں اس نے ایک جگہ ان الفاظ میں کروایا ہے: ’’آج کی نفسیاتی فضا ایسی بنادی گئی ہے کہ عورت اپنی عزت نفس کھو کر مرد کے لیے باعث تفریح بن گئی ہے۔اسے Talentصلاحیت اور دوسری اصطلاحوں کے ذریعے ’’برین واش‘‘کرکے بنا سنوار کر معاشرے کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اس پھول کی خوشبو سے ہر کوئی حظ اٹھا سکے ۔ہمارے معاشرے کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اور سوسائٹی کی ریڑھ کی ہڈی بھی عورت ہی ہے۔اس وقت مسلم عورت عجیب سی صورتحال کا شکار ہے ۔۔ منکرین ۔۔۔نے عورت کو بنیادی ذمہ داری سے بیگانہ بنادیا ہے اور عریانیت ،فحاشی ،آزد خیالی ، سطحیت اور بے فکری ایک عذاب بن کر عورتوں سے چمٹ رہی ہے ۔عورت اور مرد مخلوط ہوکر ’’کلچرڈ‘‘کے لقب سے نوازے جانے لگے ہیں۔یہ اور کچھ نہیں بہکے افکار اور الجھی ہوئی سوچوں کے دھارے ہیں جن سے پرہیز ضروری ہے‘‘5
ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘ایک معلوماتی اور فکر انگیز ناول ہے جس میں نہ صرف سماجی،جنسی اور جمالیاتی بیانیہ موجود ہے بلکہ نفسیاتی الجھنوں اور مرد ضمیر فروشی کی متعدد وارداتیں بھی درج ہیں ۔اس ناول میں کاشف نے اپنی رفیقہ ء حیات ،فرحت کو بذریعہ خطوط سعودی میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنے ذاتی حالات ومعمولات سے آگاہ کیا ہے بلکہ وہاں کے ہوٹلوں اور کھان پان کے بارے میں بھی واقفیت بہم پہنچائی ہے ۔میاں ،بیوی کا رشتہ بڑا ہی لطیف ،اٹوٹ،ذہنی ہم آہنگی اور احساس ذمہ داری سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔دونوں کو سماجی اور مذہبی اقدار وروایات زندگی کے سردوگرم موسم میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چلنے کی تلقین کرتی آئی ہیں ۔زن وشوکے مزاج میں اگر ہم آہنگی اور احساس ذمہ داری نہ ہو تو دونوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔کاشف کے بیشتر خطوط میں فرحت کو بہت زیادہ چاہے جانے کا ذکر ہے اور تقریباً ہر ایک خط میں کوئی نہ کوئی اخلاقی و روحانی درس موجود ہے لیکن ان تمام خطوط میں یکطرفہ کسک اور درد وکرب کا احساس تو ابھرتا ہے مگر انجام کار اذدواجی رشتے میں ناپائداری سے ایک مغموم تاثرذہن ودل پہ مرتسم ہوتا ہے۔
مناظر عاشق ہرگانوی نے اس ناول کی زبان وبیان ،جذبات واحساسات کی پیشکش اور تمام واقعات کو بذریعہ خطوط منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنی تخلیقی ذہانت کا ثبوت دیا ہے۔منظر نگاری کے نمونے بھی متاثر کرتے ہیں ۔انھوں نے مرکزی کردار کاشف کی بیان بازی کو جس اسلوب میں پیش کیا ہے وہ قاری کو چونکاتا ہے۔
ربطہ : اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری (جموں وکشمیر)
9419336120