سرینگر //وادی کے معروف شاعر،ادیب اور ترجمہ نگار سلطان الحق شہیدی کے اعزاز میں کل کلچرل اکیڈمی کی جانب سے ایک ’’ممتاز ہمعصر سے ملئے‘‘ تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔تقریب پرمہمان خصوصی کے فرائض کلچرل اکاڈمی کے سابق سکریٹری محمدیوسف ٹینگ جبکہ فاروق نازکی مہمان ذی وقار کی حثیت موجود تھے۔شبیر احمد شبیر نے شہیدی کی زندگی پر مقالہ پیش کرکے ان کی ادبی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ۔اس دوران شہیدی کے ساتھ سوال اور جواب کی ایک نشست بھی ہوئی ۔ محمد یوسف ٹینگ نے اپنے خطاب میں سلطان حق شہیدی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کلچرل اکیڈمی کو ایسی تقریب منعقد کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہا کہ ادب کی دنیا میں تنقید برائے تعمیر کے معاملے کوئی نئی بات نہیں ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے ۔انہوں نے کہا’’ مجھے آج اپنے آپ پر شرمندگی ہو رہی ہے کہ اتنا بڑا عظیم شاعر کیسے نظر اندازہو گیا ،اُس وقت یہ اعزاز انہیں کیوں نہیں دیا گیا جب میں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔انہوں نے کہا’’مجھے خوشی ہے کہ اس عرصے کے دوران شہیدی کے کلام کی تعداد بڑھتی گئی اُن کے کام میں اضافہ ہوا اور آج اُن کا قد بھی بڑھ گیا ۔انہوں نے کہا کہ اگر شاہ زور کشمیری کے بعدکسی کے اُردو کلام سے میں اُس وقت متاثر ہوتا تھا وہ سلطان الحق شہدی تھے ۔انہوں نے کہا کہ شہیدی ایک سُر کے شاعر نہیں بلکہ آل راونڈر شاعر تھے ۔انہوں نے کہا کہ جو بھی اُن کے خیال میں آتا تھا ،جو وہ سوچتے تھے، وہ لکھ لیتے تھے ۔انہوں نے شہیدی سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں جو محبت ادب کے ساتھ ہے اُس کو وہ برقرار رکھیں گے کبھی کمی نہیں آنے دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہندستان میںبلتی تحریک کا بڑا ڈنکا بجایا جاتا ہے کہ وہاں پر بڑے زبردست بلتی کے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوںنے عقیدی شاعری میں کافی نام کمایا ہے۔لیکن مجھے فخر ہے کہ عقیدی شاعری کی ابتداء کشمیر سے ہوئی اور وہ بھی عظیم علمدار کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔علمدار کی عقیدی شاعر ی پر سلطان الحق شہیدی کام کر رہے ہیں اور بڑی حد تک یہ اُس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب جب منظر عام پر آئے گئی تو ہندستان میں بھی لوگ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کشمیر ی عقیدی شاعری میں بھی بہت آگے ہے۔ فاروق نازکی نے شہیدی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے سلطان الحق شہیدی کی لکھی ہوئی نظم کے کئی مصرعے سنائے ۔انہوں نے شہیدی سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے لگا تھا کہ وہ اردو کے ہی اچھے شاعر ہیں لیکن اُن کی کشمیری شاعری سن کر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ اُن کی کشمیری شاعری اردو پر بھی بھاری ہے ۔کلچرل اکاڈمی کے سکریٹری عزیز حاجنی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔اس موقعہ پر ریڈیو کشمیر کی سابق ڈائریکٹر رخسانہ جنین ، فاروق فیاض ، رفیق راز ، سلیم سالک ، شبیر حسین شبیر ، ذیشان فاضل ، حسن انذر ، کنول سنگھ پہلگامی ، افتخار عمران ،اقبال افروز،مسرت دانش ،سلیم ساغر،سہیل سالم کے علاوہ دیگر کئی شاعر اور ادیب موجود تھے ۔سلطان الحق شہیدی 27جنوری3 193کو شہید گج سرینگر میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم بیسک سکول شہید گنج سے حاصل کی اور پھر میٹرک کا امتحان 1952میں پاس کیا ۔شہیدی نے کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے 1958میں ٹیکنیکل انسٹی چوٹ سرینگر سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا جبکہ BEC کی ڈگری ٹیچرٹرینگ سکول سرینگر سے حاصل کی ۔شہیدی 1955میں محکمہ تعلیم میں تعینات ہوئے اور کئی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 1992میں ایچ او ڈی اُردو کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔وہ میکنیکل انجینئرینگ ،پیپر ماشی میں مہارت رکھتے تھے اور شہیدی نے کئی ریاستوں کا دورہ کیا ۔شہیدی 6کتابیں لکھی ہیں جن میں دو کشمیری زبان میں ہیں جبکہ انہوں نے فن پیپر ماشی پر تحقیق کی۔سلطان الحق شہیدی نے 14کتابوں کا ترجمہ کیا ہے ۔شہیدی 1954میں انجمن ترقی اُردو ادب سرینگر ، 1971میں کشمیر کلچر ل لیگ ، 2007میں اُردو اکاڈمی سرینگر کے بنیادی ممبر ہیں جبکہ 1971میں وہ کل ہند بزم یادگار اقبال کے سکریٹری بھی رہے ۔اس کے علاوہ وہ ویلی سٹی زن کونسل اور عزیز براری میموریل ٹرسٹ کے ممبربھی رہ چکے ہیں ۔