عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//شیعوں کے ممتاز عالم دین علامہ آغا سید محمد باقر الموسوی الصفوی جمعہ کی صبح مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔وادی میں شیعوں کے سب سے بڑے عالم دین سید محمد باقرکی طبیعت کچھ عرصے سے ٹھیک نہیں تھی۔ بزرگ عالم دین کی طبیعت جب زیادہ بگڑ گئی توانہیں فوری صدرہسپتال سرینگر میں داخل کیا گیا جہاں وہ چند روز تک زیر علاج رہے اور جمعہ کی صبح انہوں نے آخری سانس لی۔آغا صاحب کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی قصبہ بڈگام میں ماتم کا ماحول چھا گیا اور ہر طرف آہ و فغاں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جمعہ کی صبح پو پھٹتے ہی وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ ان کی رہائش گاہ واقع بڈگام میں جمع ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے قصبے میں لوگوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔آغا سید محمد باقر بڈگام کے معروف آغا خاندان کی ایک انتہائی ممتاز و معتبر شخصیت تھے۔ آپ کی پیدائش 1937میں ہوئی تھی۔آپ نے ابتدائی دینی تعلیم جامع باب العلم بڈگام سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف کا رخ کیا، جہاں انہوں نے کئی برس اس وقت کے نامور فقہا کے سامنے تلمذ کیا اور فقہ و دیگر اسلامی علوم پر مہارت حاصل کی۔ جو کہ شیعہ علمی علوم کے سب سے زیادہ قابل احترام مراکز میں سے ایک ہے۔آپ سال 1982 میں وطن واپس لوٹے اور اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں وقف کر دی۔ تبلیغ دین، تصنیف و تالیف اور اصلاحی کاموں میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔آغا صاحب ہر جمعہ کو اپنی رہائش گاہ پر خطبہ دیتے تھے، جس سے مستفید ہونے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے اسکالرز بھی آتے تھے۔ انہیں فقہ، عربی، فارسی، اردو اور کشمیری ادب پر گہری دسترس حاصل تھی۔ممتاز عالم دین کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے جموں و کشمیر میں وکیل تھے۔ آغا باقر 1982 سے خاندان کے سرپرست آغا سید یوسف کی وفات کے بعد شیعوں کی روحانی پیشوائی کر رہے تھے۔ ان کے علمی سفر اور اسلامی فقہ اور فلسفے کیلئے لگن نے انہیں وسیع شہرت دلائی۔ انہوں نے قریب35سے زائدکتابیں اور مضامین تصنیف کئے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے بارے میں ان کی گہری سمجھ اور کمیونٹی کو تعلیم دینے کے ان کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی مشہور تصانیف میں الحیات، فقہ اور تاریخ عربی، فارسی اور کشمیری زبانوں میں شامل ہے۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے فارسی کلام کی تشریع کی ہے۔انہیں اقبالیات پر عبور حاصل تھا۔لوگوں کا جم غفیر آپ کی رہائش گاہ کے متصل پارک ،جہاں آغا مرحوم کا جنازہ رکھا گیا تھا، میں جمع کشمیری مرثیہ پڑھ کر آپ کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے ۔قصبہ بڈگام میں آغا صاحب کے احترام میں تمام دکانیں بند اور کارو باری سرگرمیاں معطل رہیں تاہم لوگوں کی سہولیات کے لئے ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل جاری رہی۔آغا مرحوم کی نماز جنازہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ادا کی گئی۔جسکی پیشوائی انکے بڑے فرزند آغا سید احمد نے کی۔ بزرگ شیعہ عالم دین کے جسد خاکی کو اپنے آبائی قبرستان موسوم بہ آستان، جو ان کی رہائش گاہ سے زیادہ دور واقع نہیں ہے ، میں سسکیوں، نالہ و فریاد کے بیچ سپر خاک کیا گیا۔آپ کے نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے اورجلوس جنازہ میںشامل لوگ ماتم کررہے تھے۔جن سرکردہ افراد نے انکی نماز جنازہ میں شرکت کی ان میں جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، ان کے مشیر ناصر اسلم اور وزیر جاوید رانا کے علاوہ ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ کے علاوہ مذہبی و سیاسی لیڈروں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔