وزیر اعظم کی قیادت میں ملی ٹینسی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی:امیت شاہ
مانیسر// مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل کو کہا کہ ملی ٹینٹوں کے لیے اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور نے پاکستان میں ملی ٹینٹ گروپوں کے ہیڈکوارٹرز، ٹریننگ سینٹرز اور لانچ پیڈس کی تباہی کو یقینی بنایا ۔انسداد دہشت گردی ‘بلیک کیٹ’ کمانڈو فورس نیشنل سیکورٹی گارڈ (این ایس جی) کے 41 ویں یوم تاسیس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی سیکورٹی فورسز ملی ٹینسی کے ہر عمل کو سزا دینے کے لیے زمین کی گہرائیوں تک جانے کے لیے پرعزم ہیں۔انہوں نے کہا”آپریشن مہادیو میں، سیکورٹی فورسز نے پہلگام میں حملہ کرنے والے ملی ٹینٹوں کو ختم کرنے کے لیے درست کارروائی کی‘‘۔وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے ملی ٹینسی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔شاہ نے کہا کہ اگر کوئی آرٹیکل 370 (جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا)کو ختم کرنے سے لے کر سرجیکل سٹرائیک، ایئر اسٹرائیک اور آپریشن سندور تک ملی ٹینٹوں کے خلاف حکومت کی مہم کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سیکورٹی فورسز ملی ٹینٹ گروپوں کی جڑوں پر کاری ضرب لگا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ “ملی ٹینٹ چاہے کہیں بھی چھپے ہوں، ہماری سیکورٹی فورسز نے ثابت کر دیا ہے کہ ملی ٹینٹوں کے لیے اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے فوجی ملی ٹینسی کے ہر عمل کو سزا دینے کے لیے زمین کی گہرائیوں تک جانے کے لیے پرعزم ہیں۔”انہوں نے کہا کہ 2019 سے، مرکزی حکومت نے ملک کو ملی ٹینسی کے خطرات سے بچانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ان میں غیر قانونی سرگرمیاں(روک تھام) ایکٹ اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ میں ترامیم شامل ہیں، اس کے علاوہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی فعال طور پر پیروی کرنا شامل ہے تاکہ دہشت گرد گروپوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کی جاسکیں۔شاہ نے کہا کہ حکومت نے ملی ٹینسی کی فنڈنگ کی سائنسی تحقیقات کے لیے ایک نظام بھی قائم کیا ہے، اور ملک بھر میں انکے گروپوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کے لیے ملٹی ایجنسی سینٹر کو مضبوط کیا ہے۔انہوں نے کہا، “پہلی بار، ہم نے نئے فوجداری قوانین میں ملی ٹینسی کی تعریف کی ہے اور عدالتوں میں پہلے پائے جانے والے خلا کو پر کیا ہے۔ اب تک، ہم 57 سے زائد افراد اور متعدد تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔”